قومی مفاہمت اور مضبوط جمہوریت

اس وقت اسٹیبلشمنٹ پر بھی حد سے زیادہ تنقید کی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ ہمارا سیاسی اور معاشی نظام نہیں چل رہا

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کے سیاسی ، معاشی اور ریاستی بحران کے حل کی کنجی قومی مفاہمت اور ایک مضبوط جمہوری نظام سے ہی جڑی ہوئی ہے۔کیونکہ کسی بھی طور پر محاذ آرائی، ٹکراؤ اور معاملات میں شدت پسندی یا سیاسی دشمنی کی فکر قومی یا ریاستی مفاد میں نہیں۔ اس طرز کی سوچ ماسوائے ریاستی محاذ پر انتشار اور ایک ہیجانی کیفیت سمیت عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کا سبب بنتی ہے۔

ماضی کے تجربات کا جائزہ لیا جائے یا اس کے تجزیہ کی روشنی میں ہمیں اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کیونکہ مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا عمل جو جدید ریاستوں میں ہوتا ہے ہم کیونکر اس سے دور ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ہم بطور ریاستی نظام خود ہی اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

یہ جو ہمارا حالیہ ریاستی بحران ہے اسے کب تک ہم نے پالنا ہے یا اس کی مدد سے ایک دوسرے کو نیچے گرانا ہے۔ اس طرز عمل سے نیچے کوئی فرد نہیں گررہا بلکہ ریاستی ڈھانچہ اور عوام تیزی سے نیچے کی طرف آرہے ہیں جو ریاستی عمل کو کمزور کرنے کا بھی سبب بن رہا ہے ۔

یہ جو مقابلہ بازی ہے ، سیاسی دشمنی ہے ، ٹکراؤ اور محازآرائی کا ماحول یا ایک دوسرے کو نیچے گرانے کا کھیل کیا یہ ہمارے مسائل کا علاج ہیں ، جواب نفی میں ہوگا۔کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں قومی مفاہمت کی باتیں کرنے والوں کی آوازیں کمزور اور ٹکراؤ کی سیاست کرنے والے لوگوں کی آوازوں کو زیادہ اہمیت یا پزیرائی دی جا رہی ہے۔

کیا قومی سطح پر ہمارے فیصلہ سازوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ ہم اپنے طرز عمل سے قومی مسائل کے حل کے بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ سیاست ، جمہوریت ، آئین ، قانون، معیشت ، سیکیورٹی جیسے سنگین مسائل کا حل تلاش کرنا ہماری ترجیحات میں بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔

ریاستی مفاد کے مقابلے میں ذاتی مفادات کی جنگ و جدل نے قومی مفاہمت اور ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت سمیت احترام کے عمل کو بھی کمزور کیا ہے۔ ملک دشمنی ، وطن دشمنی ، غدار، کافر، چور ، ڈاکو ، لٹیرے، اسلام دشمن جیسے القاب ہماری سیاسی ڈکشنری میں بالادست ہیں اور سارا سیاسی سطح کا بیانیہ ان ہی لفظوں کی جنگ میں بڑی شدت سے جاری ہے۔

ان ہی لفظوں کی جنگ یا جذباتیت کی سیاست اور طرز عمل نے معاشرے کی سطح پر گہری تقسیم بھی پیدا کردی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول جو لوگ انتخابات نہیں چاہتے ان کے سامنے بھی انتخابات سے فرار ممکن نہیں۔ لیکن کیا انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوسکیں گے،سیاسی انجینئرنگ کی بنیاد پر انتخابات کا کھیل کیا نئے مسائل کو جنم دینے کا سبب نہیں بنے گا۔


سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ وہ قومی مفاہمت کے عمل سے دور ہیں اور کیونکر ان کے اپنے اندر موجود داخلی سطح کے مسائل یا تضادات نے جمہوری نظام کو مضبوط بنیادیں فراہم نہیں کیں۔ پارلیمانی سیاسی اور جمہوری نظام، ادارہ جاتی سطح کی اصلاحات پر مبنی پروگرام ، معاشی خود مختاری اور خوشحالی جو براہ راست عام آدمی کے مفاد سے جڑی ہو اور قانون کی حکمرانی کا تصور ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

آج کی دنیا ماضی کی دنیا نہیں اور رائے عامہ کی تشکیل کا نظام بھی ماضی کی طرف کنٹرولڈ اور روائتی نہیں رہا بلکہ اس میں سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کی مدد سے ایک نئی ابلاغ اور نئی رائے عامہ بنانے والی دنیا آباد ہورہی ہے۔ وہ قوتیں جو ماضی میں جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتی تھیں وہ کر لیا کرتی تھیں ، مگر اب حالات بدل رہے ہیں لوگوں کی ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کے بارے میں پہلی جیسی سوچ نہیں رہی ۔

اسی طرح جمہوریت میں حزب اختلاف کی قبولیت اور ان کو سیاسی راستہ دینا ہی جمہوریت کی اہم کامیابی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں اپنے سیاسی مخالفین یا حزب اختلاف کو ختم کرنا، سازشیں کرنا یا ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا اور یہ سرکس کا کھیل کبھی کسی کے خلاف اور کبھی کسی کے خلاف جو کھیلا جارہا ہے، عملی جمہوری نظام کی نفی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت بھی ہم جن حالات میں کھڑے ہیں یہاں جمہوریت، آئین ، قانون اور جمہوری بالادستی کے سوالات کمزور نظر آرہے ہیں اور جمہوری سپیس کا کم ہونا ، سول سوسائٹی، میڈیا یا عدلیہ جیسے اداروں کی کمزوری یا سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرنا یا اپنی مرضی اور خواہشات کی بنیاد پر پہلے سے موجود پارٹیوں کے مقابلے میں نئی پارٹیوں کی سازشی تشکیل سنجیدہ نوعیت کے سوالات ہیںاور اس طرح کی مہم جوئی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔کیونکہ آئین، قانون، جمہوریت کو بنیاد بنا کر ایک نئے فریم ورک پر اتفاق ہی مسائل کے حل کی کنجی ہے ۔

قومی مفاہمت ہونی چاہیے۔ سیاسی اور غیر سیاسی یا ریاستی فریقوں کے درمیان کیونکر کوئی بھی فریق مسائل کا حل سیاسی تنہائی میں اور خود سے نہ تو تلاش کرسکتا ہے اور نہ ہی حل کرسکتا ہے ۔ موجودہ بحران کا حل انفرادیت کے مقابلے میں اجتماعیت سے جڑا ہوا ہے اور جب تک سارے فریق مل بیٹھ کر سیاست، جمہوریت، معیشت اور سیکیورٹی کے معاملات پر کسی بڑے فریم ورک پر متفق نہیں ہونگے ٹکراؤ کا یہ کھیل مزید شدت کی بنیاد پر جاری رہے گا۔

قومی مفاہمت کے پیچھے سوچ یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ہمیں وقتی طور پر مفاہمت کی سیاست کو اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر اسے بطور ہتھیار استعمال کرنا ہے یا وقتی سیاسی مفاد کے حصول کے لیے ہمیں اس وقت مفاہمت کی کڑوی گولی کھانی ہے۔ مفاہمت کا عمل نیک نیتی اور سنجیدگی سے ہونا چاہیے اور سب فریقین کو اپنی اپنی سیاسی پوزیشن سے ہٹ کر مل بیٹھنا ہوگا اور مقصد کسی فریق پر بالادستی کی نہیں بلکہ ریاستی اور عوامی مفاد کو ہر سطح پر ترجیح ملنی چاہیے۔

ہمیں سیاست کے کھیل میں روائتی طریقوں یا ناجائز طور طریقوں یا جوپردے کے پیچھے کھیلے جانے والے کھیل سے خود کو باہر نکال کر ایک بڑے سیاسی اور جمہوری فریم ورک میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ ماضی میں کس نے کیا کیا ہے اس سے زیادہ فکر اس بنیاد پر ہونی چاہیے کہ ہمارا مستقبل کا روڈ میپ کیا ہوگا اور کیسے ہم ریاستی نظام کو ایک مضبوط سیاسی و جمہوری فریم ورک دیں، اصلاحات کریں۔

اگر تمام فریق اپنے اپنے آئینی، سیاسی اور قانونی دائرہ کار میںرہ کر کام کریں اور مقصد ایک دوسرے کے لیے سہولت کاری یا معاونت کا عمل ہو تو ہم ادارہ جاتی ٹکراؤ کی کیفیت سے بھی باہر نکل سکیں گے۔

اس وقت اسٹیبلشمنٹ پر بھی حد سے زیادہ تنقید کی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ ہمارا سیاسی اور معاشی نظام نہیں چل رہا اور سیاسی قوتیں اس ناکامی میں اپنی ناکامی ماننے کے بجائے اس کا مکمل الزام دوسروں پر لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ حالانکہ جو خرابیاں ہیں ہم سب اس کے ذمے دار ہیں اور مل کر ہی ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا اور اسی میں جمہوریت اور مضبوط سیاسی نظام کی بقا ہے ۔
Load Next Story