کم عمری کی شادی روکنے کیلیے شناختی کارڈ ’’ب‘‘ فارم لازمی قرار دیا جائے ایکسپریس فورم
لڑکی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، متعلقہ اداروں، اکیڈیمیا کو مل کر لائحہ عمل بنانا ہوگا،ڈاکٹر عائشہ اشفاق
ملک میں آج بھی 1929ء کا چائلڈ میرج کی روک تھام کا ایکٹ رائج جس میں سقم موجود ہیں،اس پر بھی عملدرآمد نہ ہونے سے بچیوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں، ان کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں، نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا ہے لہٰذا شادی کیلیے لڑکی کی کم از کم عمر 18 برس کی جائے۔
نکاح کے وقت شناختی کارڈ یا 'ب ' فارم لازمی قرار دیا جائے، جرمانہ اور سزا بڑھائی جائے، اسے قابل دست اندازی جرم قرار دیا جائے، کم عمری کی شادی روکنے کیلئے تحصیل سطح پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں جو نکاح رجسٹرار کی نگرانی کرتے ہیں، قانون کی خلاف ورزی پر ان کے لائسنس بھی منسوخ کیے جاتے ہیں، پنجاب بھر میں نکاح رجسٹراروں کی مرحلہ وار تربیت جاری ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔
سندھ نے اپنا قانون بنا کر لڑکی کی شادی کیلئے کم از کم عمر 18 برس کی اور جرمانے وسزاؤں میں بھی اضافہ کیا، پنجاب میں بل ڈرافٹ کیا گیا مگر ایک مخصوص طبقہ کی مخالفت کی وجہ سے تاحال التوا کا شکار ہے۔
ان خیالات کا اظہار شرکاء نے ''کم عمری کی شادی کے سماجی اثرات'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
جامعہ پنجاب کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ اشفاق نے کہاکہ متوسط خاندان میں لڑکی کی شادی بڑا مسئلہ ہے۔ والدین اور بچیوں پر سماجی دباؤ ہوتا ہے، ہمیں کم عمری کی شادی پر بات کرتے ہوئے ان مسائل اور مجبوریوں کو بھی مد نظر رکھنا ہے، بے شمار لڑکیوں کو اپنی اصل عمر کا علم نہیں ہوتا، ان کی زیادہ عمر بتا کر شادی کرا دی جاتی ہے، جس سے لڑکی کی تعلیم، صحت و دیگر حقوق متاثر ہوتے ہیں، اس کو نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت، انتظامیہ، متعلقہ ادارے اور اکیڈیمیا کو مل کر لائحہ عمل بنانا ہوگا، اگرمسائل کو بروقت حل نہ کیا گیا تو مستقبل میں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل اینڈ گورنمنٹ کمیونٹی ڈیپارٹمنٹ لاہور انعم چودھری نے کہا کہ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کیلیے پورے پنجاب میں نکاح رجسٹرار وں کی تربیت کرائی جارہی ہے۔ انہیں نکاح کے وقت دلہا، دلہن کے شناختی کارڈ یا 'ب' فارم کی پڑتال اور اندراج یقینی بنانے کیلئے کہا ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے، نکاح خواں پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ نکاح نامہ کا کوئی بھی خانہ خالی نہیں چھوڑے گا، ہم گاہے گاہے جانچ بھی کرتے ہیں اور قانون شکنی کرنے والے نکاح رجسٹراروں کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
ماہر قانون احمر مجید ایڈووکیٹ نے کہا کہ قائد اعظمؒ نے 1929ء میں چائلڈ میرج کی روک تھام کا بل منظور کرایا، آزادی کے بعد وہی قانون یہاں بھی اپنایا گیا۔ اس قانون کے تحت 16برس سے کم عمر لڑکی اور 18برس سے کم لڑکا، چائلڈ تصور کیا جائے گا، شادی کے وقت عمر کا تعین لازمی ہے، اگر کوئی بالغ کسی چائلڈ سے شادی کرتا ہے تو اسے 6 ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔
نکاح کے وقت شناختی کارڈ یا 'ب ' فارم لازمی قرار دیا جائے، جرمانہ اور سزا بڑھائی جائے، اسے قابل دست اندازی جرم قرار دیا جائے، کم عمری کی شادی روکنے کیلئے تحصیل سطح پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں جو نکاح رجسٹرار کی نگرانی کرتے ہیں، قانون کی خلاف ورزی پر ان کے لائسنس بھی منسوخ کیے جاتے ہیں، پنجاب بھر میں نکاح رجسٹراروں کی مرحلہ وار تربیت جاری ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔
سندھ نے اپنا قانون بنا کر لڑکی کی شادی کیلئے کم از کم عمر 18 برس کی اور جرمانے وسزاؤں میں بھی اضافہ کیا، پنجاب میں بل ڈرافٹ کیا گیا مگر ایک مخصوص طبقہ کی مخالفت کی وجہ سے تاحال التوا کا شکار ہے۔
ان خیالات کا اظہار شرکاء نے ''کم عمری کی شادی کے سماجی اثرات'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
جامعہ پنجاب کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ اشفاق نے کہاکہ متوسط خاندان میں لڑکی کی شادی بڑا مسئلہ ہے۔ والدین اور بچیوں پر سماجی دباؤ ہوتا ہے، ہمیں کم عمری کی شادی پر بات کرتے ہوئے ان مسائل اور مجبوریوں کو بھی مد نظر رکھنا ہے، بے شمار لڑکیوں کو اپنی اصل عمر کا علم نہیں ہوتا، ان کی زیادہ عمر بتا کر شادی کرا دی جاتی ہے، جس سے لڑکی کی تعلیم، صحت و دیگر حقوق متاثر ہوتے ہیں، اس کو نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت، انتظامیہ، متعلقہ ادارے اور اکیڈیمیا کو مل کر لائحہ عمل بنانا ہوگا، اگرمسائل کو بروقت حل نہ کیا گیا تو مستقبل میں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل اینڈ گورنمنٹ کمیونٹی ڈیپارٹمنٹ لاہور انعم چودھری نے کہا کہ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کیلیے پورے پنجاب میں نکاح رجسٹرار وں کی تربیت کرائی جارہی ہے۔ انہیں نکاح کے وقت دلہا، دلہن کے شناختی کارڈ یا 'ب' فارم کی پڑتال اور اندراج یقینی بنانے کیلئے کہا ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے، نکاح خواں پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ نکاح نامہ کا کوئی بھی خانہ خالی نہیں چھوڑے گا، ہم گاہے گاہے جانچ بھی کرتے ہیں اور قانون شکنی کرنے والے نکاح رجسٹراروں کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
ماہر قانون احمر مجید ایڈووکیٹ نے کہا کہ قائد اعظمؒ نے 1929ء میں چائلڈ میرج کی روک تھام کا بل منظور کرایا، آزادی کے بعد وہی قانون یہاں بھی اپنایا گیا۔ اس قانون کے تحت 16برس سے کم عمر لڑکی اور 18برس سے کم لڑکا، چائلڈ تصور کیا جائے گا، شادی کے وقت عمر کا تعین لازمی ہے، اگر کوئی بالغ کسی چائلڈ سے شادی کرتا ہے تو اسے 6 ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔