1965 کی جنگ جب پاک فوج کی دوکمپنیوں نے دشمن کی 36 کمپنیوں کا 12 روز تک ڈٹ کرمقابلہ کیا

اس جنگ میں 16 پنجاب رجمنٹ کے 106 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، مگر دشمن کو بی آر بی نہر پار نہیں کرنے دی

فوٹو: فائل

1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان آرمی کی 16 پنجاب رجمنٹ نے لاہور کا دفاع کیا، اس رجمنٹ کی صرف دو کمپنیوں نے دشمن کی 36 کمپنیوں کا 12 روز تک مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں 16 پنجاب رجمنٹ کے 106 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا جو پاکستان آرمی کی تاریخ میں کسی بھی یونٹ کی سب سے زیادہ شہادتیں ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے مابین 1965 اور 1971 میں لڑی جانے والی جنگوں کے حوالے سے بہت سے واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں تاہم کئی واقعات ایسے ہیں جو ان جنگوں کے غازیوں کے سینوں میں ہیں۔

لاہورکنٹونمنٹ کے علاقہ آر اے بازار میں واقع پاک فوج کے شہدا کے قبرستان میں 1965 اور 1971 کی جنگ کے شہدا کی قبریں بھی ہیں۔

یوم شہداپاکستان کے موقع پر ہندوستان کے ساتھ لڑی گئی ان دونوں جنگوں کے غازیوں بریگیڈئیر ریٹائرڈ شیرافگن اور جنرل ریٹائرڈ سکندر شامی سمیت دیگر ریٹائرڈ فوجی افسران نے شہدا کی قبروں پر حاضری دی، پھول چڑھائے اورفاتحہ خوانی کی گئی۔ اس موقع پر پاک فوج کے چاق چوبند دستے نے سلامی بھی دی۔



ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بریگیڈئیر ریٹائرڈ شیرافگن نے کہا کہ 1965 کی جنگ میں ان کی پلاٹون کو حکم ملا تھا کہ وہ لاہورکے مشرقی بارڈر پر دشمن کے علاقے کی طرف پیش قدمی کریں اور دشمن کو کسی صورت بی آربی نہر جو کہ ہماری دفاعی لائن ہے اسے عبور نہ کرنے دیا جائے۔

انہوں نےبتایا کہ ان کی پلاٹون کی دو کمپنیوں میں سے ایک نے بھارت کی رانی پوسٹ جو واہگہ بارڈر کے قریب ہے اس پرقبضہ کرلیا تھا جبکہ دوسری کمپنی نے دریائے راو ی کے پار ہندوستان کی ایک اور پوسٹ پرقبضہ کرلیا تھا۔

دوسری طرف بھارتی فوج واہگہ سرحد عبور کرکے بی آربی نہرتک پہنچ گئی تھی ۔ بارڈر پرپاکستان رینجرز کے جوانوں نے بھارتی فوج کا مقابلہ کیا تاہم دشمن فوج بی آربی نہر تک پہنچ گئی۔



یہاں 16 پنجاب رجمنٹ کی دو کمپنیوں جن میں سے ایک مین جی ٹی روڈ کے دائیں جانب اوردوسری بائیں جانب تھی ، انہوں نے دشمن کی پیش قدمی روکی، ادھر ہماری دوسری دوکمپنیوں نے جب بھارتی چیک پوسٹوں پرقبضہ کرلیا تو دشمن کویہ لگا کہ پاکستانی فوج نے انہیں گھیرلیا ہے جس پردشمن نے پسپائی اختیارکرنا شروع کردی۔

ہماری دو کمپنیوں کو بمعہ بٹالین ہیڈکوارٹریہ حکم ملا کہ وہ آگے کی طرف پیش قدمی کریں ۔ ہماری رجمنٹ کی دوکمپنیوں نے دشمن کی 36 کمپنیوں کا 12 روز تک مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں ہمارے 106 افسر اور جوان شہید جبکہ 140 شدید زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 16 پنجاب رجمنٹ اس قدربہادر ،جرات مند اوردلیر تھی کہ خود بھارتی فوج نے یہ اعتراف کیا کہ یہ پاکستان کی کریک بٹالین ہے ، جبکہ صدر جنرل ایوب خان نے بھی اس بٹالین کی تعریف کی اوراسے لاہورکے محافظ کا خطاب عطا کیا گیا۔



انہوں نے 1965 کی جنگ کے دوران شہید ہونے والے کیپٹن صغیر شہید کی بہادری اورجوانمردی کو خود دشمن کی فوج نے تسلیم کیا اور یہ تجویز دی کہ انہیں پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدرملنا چاہیے ، کیونکہ کیپٹن صغیر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیواربن گئے تھے۔ انہوں نے اپنے جوانوں کو واپس بھیج دیا مگر ان کی حفاظت کے لیے خود دشمن کے سامنے ڈٹے رہے، دشمن کی مشین گن کی گولیاں لگنے سے ان کی شہادت ہوئی تھی۔


1971کی جنگ کے غازی جنرل ریٹائرڈ سکندرشامی نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا 1971 میں پاکستان آرمی ہندوستان میں داخل ہوگئی تھی، اس جنگ میں جس کمپنی کو وہ کمانڈ کررہے تھے اس نے بھارت کے دو سرحدی گاؤں قبضے میں لے لیے تھے۔

ہم بھارتی حدود کے اندر یوبی ڈی سی کینال کے مغربی جانب تھے جبکہ بھارتی فوج نہر کے مشرقی جانب تھی، دونوں کے درمیان تقریبا 75 گزکا فاصلہ تھا۔ ہمارے دائیں طرف بھارت کا کھالڑا ریسٹ ہاؤس تھا، دونوں فوجوں کی یہ کوشش تھی کہ اس ریسٹ ہاؤس پرقبضہ کیا جائے۔

جنرل ریٹائرڈشامی کہتے ہیں یہ جنگ کا آخر ی روز تھا، دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتہ ہوگیا کہ شام ساڑھے سات بجے سیزفائرکیا جائے گا۔ ہمارے کمانڈنگ افسر علی بابا نے حکم دیا کہ ریسٹ ہاؤس پرقبضہ کیا جائے، انہوں نے مجھے حکم دیا کہ شامی اپنے جوان بھیجو اور ہرصورت اس ریسٹ ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک کمپنی افسر لیفٹیننٹ ٹیپو نے کہا کہ وہ جائیں گے، وہ 15 جوانوں کو ساتھ لے کر ریسٹ ہاؤس پر قبضے کے لیے آگے بڑھے ، جب وہ قریب پہنچے تومعلوم ہوا کہ وہاں دشمن نے بارودی سرنگیں بچھا رکھی ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے پیش قدمی روک دی ۔



ادھر مجھے اوپر سے کمانڈنگ افسر پوچھ رہے تھے کہ شامی سیز فائر ہونے کا وقت قریب ہے، ابھی تک ریسٹ ہاؤس پر قبضہ کیوں نہیں ہوا، میں نے وائرلیس پر آگے لیفٹیننٹ ٹیپو سے پوچھا، س دوران لیفٹیننٹ ٹیپو کھڑا ہوگیا، اس کے ایک ہاتھ میں مشین گن اور دوسرے میں ایمونشن بکس تھا۔

اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اکیلا ہی آگے جارہا ہے۔ جس نے ماں کا دودھ پیا ہے وہ ساتھ آجائے۔ اس طرح جوانوں کے اندر ایک جوش آیا ، وہ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے آگے بڑھے اور دشمن کے کھالڑا ریسٹ ہاؤس پرپاکستانی پرچم لہرا دیا۔

انہوں نے جنگ کے دوران ایک سپاہی یوسف کی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ہدایت ملی تھی کہ ہم لوگ چونکہ دشمن کے علاقے میں ہیں اور ان کے دو دیہات پرقبضہ کرچکے ہیں تو یہاں ظہر کی اذان اونچی آواز میں دی جائے۔

ایک دن آئی ایس پی آر نے غیرملکی میڈیا کے نمائندوں کو یہاں کا وزٹ کروانا تھا۔ ادھر یہاں فائرنگ ہورہی تھی ادھر وہ غیرملکی صحافی پہنچ گئے۔ یہ ظہر کا وقت تھا۔

سپاہی یوسف اس دن اتنا جذباتی ہوا کہ اس نے دشمن کی گولیوں اور گولہ باری کی پروا نہ کرتے ہوئے مورچے کے اوپر کھڑے ہوکر بلند آواز میں اذان ادا کی ،اس کی وہ ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہوئی جس کے بعد اس سپاہی کو ترقی دی گئی۔



جنرل ریٹائرڈشامی کہتے ہیں جنگ کے دوران باردوی سرنگ پھٹنے سے خود ان کی ٹانگ بھی زخمی ہوگئی تھی اس کے باوجود فوج نے انہیں ترقی دی، انہیں 16 پنجاب رجمنٹ کی قیادت سونپی گئی ،وہ بٹالین کمانڈر بھی بنے۔ پاک فوج کبھی بھی اپنے غازیوں ، اپنے جوانوں اور شہیدوں کو نہیں بھولتی۔

پاک فوج کے شہدا کے اس قبرستان میں1965 میں بھارت کے ساتھ جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والے بنگالی فوجی افسروں اورجوانوں کی قبریں بھی ہیں۔ ان قبروں کی انفرادیت یہ ہے کہ ان پرسرخ رنگ کیا گیا ہے جبکہ باقی قبریں سفید ماربل کی اورمٹی سے بنائی گئی ہیں۔

لاہورکے دفاع میں اپنی جانیں قربان کرنے والے پاک فوج کے افسروں ، جوانوں کی قبریں تو یہاں ہیں تاہم ڈوگرائے کلاں باٹاپورکے علاقہ میں جہاں انہوں نے دشمن کا مقابلہ کیا وہاں ان کی یادگاریں بھی بنائی گئی ہیں۔

ا س جنگ میں پاکستانی فوج نے خود سے کئی گنا بڑی فوج کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ جنگیں طاقت اورساز وسامان سے نہیں بلکہ جوش،جذبے اورہمت سے لڑی جاتی ہیں۔
Load Next Story