جنگ ستمبر 1965ء جب قومی یکجہتی نے پانچ گنا بڑی قوت کو شکست دی
ذولفقار علی بھٹو کا موقف تھا کہ بین الاقوامی سرحد سے فوجوں کی واپسی میں لائن آف کنٹرول کو شامل کرنے کا کوئی جوازنہیں
تمغہ ء امتیاز
چین کے جنوب اور برصغیر بھارت، نیپال، بھوٹان، سکم ، میانمار،کشمیر، لداخ ، پاکستان میں آزاد کشمیر اور خصوصاً گلگت بلتستان کے شمال میں ہمالیائی علاقے میںتبت واقع ہے جو تاریخی، نسلی اور جغرافیائی اعتبار سے ہزاروں سال سے چین کا حصہ رہا ہے۔
31 لاکھ 80 ہزار افراد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سطح سمندر سے انتہائی بلند مقام تبت میں رہتے ہیں جس کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔
اس کی ایک سرحد نیپال، دوسری بھوٹان، تیسری اکسائی چین بھارت سے اور چوتھی سنکیانگ سے ہوتی ہوئی پاکستان سے ملتی ہے۔ چینی تبت اور برصغیر کے درمیان برطانوی سیکر ٹری Mahon Mc میک موہن نے ایک معاہدے کے تحت ایک سرحدی لائن کھینچ دی تھی جس پر میک موہن اور اس وقت کی تبت کی حکومت کے سربراہ Satra Lonchen (لانچین ساترا) نے دستخط کئے اور پھرکچھ عرصے بعد 24 مارچ 1914 کو ایک نقشہ جاری کیا جس میں یہ لائن نقشے پر 8 میل فی انچ کے حساب سے 550 میل یعنی 890 کلومیٹر طویل تھی۔
1935 تک دنیا جیسے اِس میک موہن لائن کو بھول گئی اور جب 1935 میں انڈیا میں تعینات ایک انگریز بیوروکریٹ Caroe Olaf (الاف کارو) نے میک موہن، لانچین مذاکرات کے مطابق نقشہ جاری کیا تو چین، ہندوستان کو اس پر اعتراضات تھے اور چین کا دعویٰ لداخ پر بھی آگے 65000 مربع کلو میٹر رقبے پر ہے۔
چین کا موقف یہ ہے کہ جب معاہدے کے مطابق یہ میک موہن لائن طے کی گئی اُس وقت تبت کوئی آزاد خود مختار ریاست نہیں تھی، چین کا لداخ کے علاقے پر دعویٰ تھا مگر 1949ء میں اشتراکی انقلاب اور آزادی کے فوراً بعد بھارت کے نہرو اور چینی قیادت موزے تنگ اور چو این لائی کے درمیان تعلقات انتہائی مضبوط اور دوستانہ تھے، اس لیے تبت اور لداخ کے مسائل پس پردہ رہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو عالمی صور تحال پر ہمیشہ سے بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔
اُس وقت عالمی سطح پر چین روس تنازعہ کی وجہ سے چین جو پہلے ہی اقوام متحدہ میں اپنی حیثیت کے مطابق پوزیشن نہ ملنے پر رکنیت سے محروم تھا سوویت یونین کی وجہ سے دنیا کے کیمونسٹ بلاک کے ممالک سے بھی قدرے دور ہو گیا تھا۔
جب بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی سے تبت میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوا تو بھارتی حکومت نے بغاوت کے بعد تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو بھارت میں پناہ دیدی اور ساتھ ہی دونوںملکوں کے درمیان لداخ کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا اور یوں تبت کے نزدیک مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ پر پاکستانی علاقے گلگت بلتستان کے قریب بلند ترین علاقہ بھارت اور چین کے درمیان محاذ جنگ بنا، یہ جنگ 1962 میں 20 اکتوبر سے21 نومبر تک جاری رہی، بھارتی فوج کی جنگ میں تعداد 120000 کے قریب تھی اور اس کے مقابلے میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی تعداد 280000 تھی۔
چینی فوج کے چیف جنرل Ruiqing Luo (لُو رُیکینگ) اور محاذ کے کمانڈر Guohua Zhang (زہانگ گْوہا) تھے جب کہ بھارتی آرمی چیف جنرل موہن کاؤل اورجنرل پران ناتھ تھاپر تھے، اِس جنگ میں چین کے 722 فوجی مارے گئے اور 1697 زخمی ہوئے جب کہ اس کے مقابلے میں 1383 بھارتی فوجی ہلاک 1047 زخمی ہوئے جبکہ 1696 فوجی لاپتہ ہوگئے۔
مزید 3968 کو چینی فوج نے جنگی قیدی بنا لیا۔ لداخ کے علاقے میں چین نے 11754 مربع کلومیٹر علاقہ بھارت سے چھین لیا۔ یوں بھارت کو اس جنگ میں عبرت ناک شکست ہوئی۔ پاکستان نے اس موقع پر بھارت سے جنگ نہیں کی، لیکن یہ واضح ہو گیا تھا کہ بھارت جموں وکشمیر اور لداخ کے علاقے پر پہلی جنگ 1947-48 میں پاکستان سے ہارا اور پھر دوسری مرتبہ لداخ میں اُسے چین سے شکست ہوئی۔
یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نہرو ایک زیرک سیاستدان اور خصوصاً امور خارجہ کے ماہر تو ضرور تھے مگر وہ عسکری شعبے میں مقابل کی صلاحیتوں کا ٹھیک سے اندازہ نہیں کر سکتے تھے یا یو ں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی فوج بہادری یا فنِ سپاہ گری کے اعتبار سے کمزور واقع ہوئی۔
بھارت چین جنگ کے ٹھیک تین سال بعد 6 ستمبر1965 کو دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی جو 17 روز جاری رہی۔ اس جنگ سے کچھ عرصہ قبل کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلا ف گوریلا طرز کی جنگ شروع کر دی تھی اور سرد جنگ کے اس دور میں دنیا کے کئی علاقوں میں اس طرح کی حریت پسند تحریکیں جاری تھیں۔
یہاں بعض حلقو ں کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد پر اس تحریک کی پاکستان کی جانب سے امداد جاری تھی اور صدر جنرل ایوب خان کو یہ یقین تھا یا یقین دلایا گیا تھا کہ اس صورتحال میں بھارت متواتر اور دھیر ے دھیرے کمزور ہو گا۔
پھر یہ بھی تھا کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو 1964 میں انتقال کر گئے تھے۔ اس کے بعد لال بہادر شاستری بھارت کے وزیر اعظم بنے جو کمزورشخصیت کے مالک تھے اور عالمی سطح پر جو مقام نہر و کا تھا وہ بہرحال شاستری کا ہرگز نہیں تھا۔
اُس وقت صدر مملکت فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے، بھارتی فوج کی کمان جنرل جے این چوہدری کر رہے تھے۔ تب بھارتی فوجی کی تعداد 700000 تھی، اُن کے پاس 700 لڑا کا طیارے 720 ٹینک اور 680 بڑی توپیں تھیں، پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ خان تھے باقی اہم کمانڈروں میں لیفٹننٹ جنرل بختیار رانا، لیفٹننٹ جنرل عتیق الرحمن، لیفٹننٹ جنرل اے ایچ مالک، میجر جنرل یحییٰ خان، ائیر مارشل نور خان، وائس ایڈ مرل اے آر خان اور ایس ایم احسن شامل تھے۔
پاکستانی فوج کی تعداد 260000 تھی، پاکستان کے پاس 280 لڑاکا طیارے، 756 ٹینک اور552 توپیں تھیں۔اس جنگ میں دونوں جانب سے لڑنے والے فوجی جنرل اور سینئر افسران مقامی تھے یعنی کو ئی انگریز کمانڈر نہیں تھا البتہ یہ ضرور تھا کہ یہ تمام سینئر فوجی افسران وہ تھے جو اگست 1947 سے پہلے برٹش آرمی میں جونیئر افسران کے طور پر ایک ساتھ کام کر چکے تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل تھے۔
بیشتر بھارتی فوجی ایسے بھی تھے جو تقسیم ہند سے قبل پاکستانی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے یا دوران فوجی ملازمت پاکستانی علاقوں میں تعینا ت بھی رہے تھے، یہی صورت بہت سے پاکستانی سینئر فوجی افسران کی تھی یوں بعض بھارتی فوجیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ حملہ کرتے ہی لاہور کو فتح کر لیں گے اور پھر اس کا جشن لاہور کے جم خانہ میں منائیںگے، یہ فوجی افسران ایک دوسرے سے واقف بھی تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل اپنے اپنے ملکوں کی فوج میں شامل اپنی قومی شناخت کے ساتھ کھڑے تھے۔
یہ جنگ 1947-48کی پہلی پاک بھارت جنگ سے مختلف تھی، اس میں فتح اور شکست کی ذمہ داری بھی خودہی اٹھانی تھی، اب دونوں ملک مکمل طور پر آزاد اورخود مختار تھے، اگرچہ یہ جنگ صرف سترا روز جا ری رہی اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی فوج عدد ی اعتبار سے اور اسلحہ اور سامانِ جنگ کے لحاظ سے کم ازکم تین گنا زیادہ تھی، مگر اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان کی افواج نے سندھ، پنجاب سرحد، ورکنگ باونڈری یعنی سیالکوٹ اور کشمیر میں اُس وقت کی سیز فائر لائن اورآج کی کنٹرول لائن پر مجموعی طور پر بھارت سے دو گنی سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔ سیالکوٹ چونڈا کے محاذ پر انڈیا نے اپنے بڑی تعداد میں ٹینکوںکے ساتھ حملہ کیا جس کو پاکستانی افواج نے کامیابی سے پسپا کردیا۔
یہ دوسری جنگ عظیم کی نارمنڈی کی ٹینکوں کی لڑائی کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی۔ اسی طرح پاکستان کی فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو بالکل ناکام کر دیا اور اور 116 سے زیادہ بھارتی طیارے تباہ کئے، اس کو پوری دنیا نے تسلیم کیا، اس جنگ میں پاکستانی پائیلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں پانچ طیارے گرانے کا ایسا عالمی ریکارڈ قائم کیا جو اب تک دنیا کا کو ئی اور پائلٹ نہیں توڑ سکا۔ اس جنگ میں میجر عزیر بھٹی شہید نے محاذ پر دفاعِ وطن کا ایسا دلیرانہ ریکارڈ قائم کیا جو جنگی تاریخ میں یادگار بن گیا۔ اس عظیم قربانی اور جذبہ شجاعت پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔
یوں 1965 تک بھارت نے تین جنگیں لڑیں اور شکستیں کھائیں، بدقسمتی سے ہمیں 17روز بعد جنگ روکنی پڑی کہ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا حکمنامہ جاری کر دیا، اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی امداد اور فوجی سازوسامان کی سپلائی روکنے کا اعلان کردیا تھا،اب جہاں تک تعلق بھارت کا تھا تو وہ سوویت یونین اور فرانس سے بھی اسلحہ اور فوجی ساز وسامان لیتا تھا اور اِن ملکوں کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
یہ پاکستان کے لیے مشکل وقت تھا، ایک دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ اُس وقت پاکستان کی آبادی دس کروڑ اور بھارت کی آبادی تقریباً ساٹھ سے پینسٹھ کروڑ کے درمیان ہو گئی تھی اور اُس زمانے میں اِن دونوں ملکوں میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار بہت ہی کم تھی اور خطرہ تھا کہ برصغیر میں قحط نہ پڑ جا ئے اور اسی سال امریکہ کے سائنسدانوں نے میکسی پاک کے نام سے گندم کا ایک ایسا بیج ایجاد کیا تھا جس سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار تین گنا ہو گئی تھی۔
گندم کے بیج بحری جہاز امریکہ سے لے کر بھارت اور پاکستا ن آرہے تھے کہ جنگ کیوجہ سے سمندر میں روک دئیے گئے تھے، یہاں تک بھی اندازے تھے کہ اگر یہ صورتحال ایک دو برس مزید رہتی تو قحط کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کے اندیشے تھے۔
یہ جنگ مغربی پاکستان اور کشمیر میں لڑی گئی اور مشرقی پاکستان کے محاذ نہیں کھولے گئے یعنی بھارت نے اس جنگ کو مشرقی پاکستان کے محاذ پر نہیں لڑا، یوں بھارت نے ایک تاثر یہ دیا کہ اُس کی یہ جنگ صرف مغربی پاکستا ن سے تھی۔ اگر چہ پاکستان اس جنگ میں مشرقی محاذ سے بھی بالکل بے خبر نہیں تھا مگر جنگ کا مثالی جوش وجذبہ مغربی پاکستان میں کہیں زیادہ تھا۔
اس جنگ میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے بائیں بازو کے ادیب و شاعر بھی بطور پاکستانی پورے جو ش وجذبے سے شامل تھے۔ بچہ بچہ روزانہ اپنے جیب خرچ میں سے ایک پیسہ ضرور دیتا تھا کہ یہ بتایا گیا تھا ایک ٹینک کی قیمت دس لاکھ روپے ہے اور اگر دس کروڑ پاکستانی ایک پیسہ فی کس دیں تو ہر روز ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے۔
جوش وجذبے کا یہ عالم تھا کہ پوری قوم محاذ ِجنگ پر لڑنے کے لیے تیار تھی، وہ بچیاں جن کی شادیاں ہونے والی تھیں اور جہیز کے لیے والدین نے زیورات خریدے تھے اُنہوں نے وہ زیور تک قومی دفاعی فنڈ میں دے دئیے۔
پاکستان کے میڈیا نے بھی مثالی کردار ادا کیا، ریڈیو پاکستا ن اور ملک کے واحد پی ٹی وی اسٹیشن لاہور نے ایسا جوش ولولہ پیدا کیا کہ دیدنی تھا، ملکہ ترنم نور جہاں، شہنشاہ غزل مہدی حسن سمیت کئی گلوکاروں نے وہ لازوال قومی نغمات گائے کہ آج بھی وہ کانوںمیں رس گھولتے ہیں۔
جنگ کے خاتمے پر پاکستان کے عوام اس جنگ کے جیتنے پر خوشیاں منا رہے تھے کہ جنوری1966 میں اقوام متحدہ امریکہ اورسوویت یونین کے مشترکہ اور شدید دباؤ کے تحت پاکستان کو اُس وقت کی سوویت یونین کی ریاست ازبکستان کے شہر تاشقند میں 4 جنوری تا10 جنوری1966 مذاکرات کرنا پڑے۔ پاکستا ن کی جانب سے صدر ایوب خا ن اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم لال بہادر شاستری اور وزیرخارجہ سردار سورن سنگھ نے شرکت کی۔
جب کہ سہو لت کار یا ثالث کے طور پر روسی وزیراعظم Kosygin Alexei ایلکسی کوسیجن تھے۔اس تاشقند اعلانیے میں یہ کہا گیا کہ دونوں ملکوں کی فوجیں اگست 1965 کے امن کے مقامات پر واپس جائیں۔کشمیر میں بھی فوجیں 1949 ء میں اقوام متحد ہ کی طے کردہ سیز فائر لائن یعنی جنگ بندی لائن پر واپس ہو جائیں اور یہ عمل 25 فروری 1966 تک ہر صورت میں مکمل کر لیا جائے۔
اس تاشقند معاہدہ میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملا ت میں مداخلت نہیں کریں گے، فوری طور پر آپس کے اقتصادی اور سفارتی تعلقات بحال کریں گے، مگر اس معاہدہ میں کشمیر میں گوریلا جنگ نہ کرنے یا آپس میں یعنی پاکستان اور بھات میں جنگ نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد رات کو بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت پُراسرا رانداز میں ہوئی۔
ویسے تو سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اُن کی موت ہارٹ ایٹک کی وجہ سے ہو ئی مگر ساتھ ہی میڈیا نے یہ بھی کہا کہ اُن کو زہر دیا گیا تھا۔ بھارتی سرکار نے اِن رپورٹوں پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ جب کہ میڈیا میں یہ تبصرے ہوئے کہ بھارت نے اس لیے خاموشی اختیار کی کہ اس طرح عالمی سطح پر بھارت کے اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور روس سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔
پاکستان کے بعض اخبارات نے اپنے تبصروں میں یہ لکھا کہ بھارتی وزیر اعظم کی موت انتہائی اور یکدم خوشی کے سبب واقع ہوئی، ان تبصروں کی ایک وجہ یہ تھی کہ واقعی بھارت پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فوجی طاقت رکھتا تھا اور اُسے شکست ہوئی تھی۔
پھر معاہدہ تاشقند پر وزیرِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان سے اختلاف کیا تھا، اُن کا موقف جو انہوں نے بعد میں بیان بھی کیا وہ یہ تھا کہ جہاں تک تعلق دونوں ملکوں کے درمیان امن کے قیام اور فوجوں کی زمانہ امن کی پوزیشن پر واپسی کا تھا تو وہ اس بات پر اتفاق کرتے تھے کہ سندھ اور پنجاب اور سیالکوٹ ورکنگ باونڈری انٹرنیشنل بارڈر ہیں۔
اِن مقامات سے دونوں ملک اپنی انپی فوجیں زمانہ امن کے مقامات پر لے آتے ہیں مگر جہاں تک تعلق کشمیر میں سیزفائر لائن کا ہے تو کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے جس کے عوام نے حق رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت دونوں ملکوں میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا ہے اور پاکستان برسوں سے اس کا تقاضا کرتا رہا ہے، اور پھر 1947-48 کی جنگ میں اقوام متحدہ کی جانب سے جب جنگ بند کراوئی گئی تھی تو جہاں جس مقام پر جنگ بند ہوئی تھی اسے اقوام متحدہ نے جنگ بندی لائن تسلیم کیا تھا۔اس لیے اب کشمیر میں جہاں جنگ بند ہوئی ہے۔
وہاں نئی جنگ بندی لائن کا اعلان کیا جائے، بھٹو اور صدر ایوب خان کے اختلافات بڑھے اور پھر بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا، یا صدر ایوب خان نے اُن سے استعفیٰ لے لیا۔ پھر بھٹو نے 30نومبر 1967 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر ایوب خان کی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر تحریک شروع کردی۔
لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کے بعد نہ صرف پاکستان کی ترقی متاثر ہوئی بلکہ پاکستان کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر سازشیں شروع ہو گئیں، اس جنگ میں ہماری کمزوری یہ رہی کہ ہمارے پاس امریکہ کے علاوہ دوسری کوئی ایسی قوت یا طاقتور ملک نہیں تھا کہ ہم امریکہ سے تعلقات اور اپنی اسٹرٹیجک پو زشن کے حوالے سے کو ئی بارگین کر سکتے۔
1962 میں چین نے لداخ میں بھارت سے جو علاقے چھینے تھے وہ آج بھی اس کے پاس ہیں جب کہ وہاں چین عوامی سطح پر کسی رائے شماری کا پابند بھی نہیں اورچین 2006 میں تبت اور اس علاقے میں سطح سمندر سے 17000 فٹ سے زیادہ بلندی پر 4 ارب ڈالر کی مالیت سے دس سال کے اندر یعنی 2016 تک دنیا کی بلند ترین ریلوے لائن بچھا چکا ہے۔
ایوب خان نے بھی آخر '' فرینڈز ناٹ ماسٹرز، کتاب لکھی کیونکہ اُس وقت عجیب سی صورتحال تھی توپوں ٹینکوں کے گولوں، طیاروں کے بموں اور پرزہ جات تمام کا سو فیصد انحصا ر امریکہ پر تھا جس نے فوجی ساز و سامان کی سپلائی روک دی تھی پھر جہاں بات معاہدہ تاشقند کے بعد رات کو ہی بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے انتقا ل کی ہے اور جو یہ کہا گیا تھا کہ اُن کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے تو اس سے فائدہ بھارت کو ہی ہوا تھا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر لال بہادر شاستری جنگ ہارے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت اور کانگریس کے بڑے لیڈر کے طور پر معاہد ہ تاشقند کرکے واپس بھارت آتے تو اُن کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے سوچئے کہ جب سوال وجواب ہوتے تو کانگریس اور بھارت کو کتنا نقصان ہوتا اور اگر خصوصاً کشمیر کے اعتبار سے نئی سیز فائر لائن قرار دی جاتی تو حالات اور بھی خراب ہوتے، یوں ایسا معاہدہ جو صدر ایوب خان سے کر وایا گیا۔
اس میں سوویت یونین اور امریکہ کی چین سے دشمنی واضح تھی کیونکہ اُس وقت امریکہ اور روس دونوں ہی کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں تھے اور جنگ 1965ء سے ایک سال قبل ہی چین نے کامیاب ایٹمی تجربہ کیا تھا اور امریکہ ، برطانیہ، روس اور فرانس کے بعد دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بن گیا تھا۔
اس لیے اس مفروضے کو راقم الحروف دنیا کے سامنے رکھتا ہے کہ جنگ 1965 کے بعد پاکستان، امریکہ اور سوویت یونین دونوں ہی کی نظروںمیں اپنی فوجی صلاحیت اور چین سے تعلقات کے اعتبار سے کھٹکتا تھا۔ بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری سولہ سال کی عمر سے کانگریس کے پلیٹ فارم سے بھارت کی جد وجہد آزادی میں گاندھی اور نہر و کے پیرو کار تھے۔
اُس وقت کے تناظر میں دیکھیں تو بھارتی اژددھامی نفسیات کے اعتبار سے ایک جانب کمزور شخصیت کے حامل بھارتی وزیراعظم شاستری کے مرنے کا بھارتی عوام کو کوئی دکھ نہیں تھا بلکہ اندرا گاندھی کے بطور نئے بھارتی وزیر اعظم بننے کی خوشی تھی، اندراگاندھی بھی اپنے والد نہرو کی طرح نہ صرف طویل عرصے تک بھارت کی وزیر اعظم رہیں بلکہ صر ف چھ سال بعد انہوں نے جنگ ستمبر کا انتقام مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں لے لیا۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اُس کی قیادت اور امریکہ اور سوویت یونین نے بھی ادراک کر لیا تھا کہ اگر پاکستان میں قومی یکجہتی جنگ 1965 کے جوش وجذبے سے قائم رہتی ہے تو ایسی صورت میں کم از کم بھارت کا پاکستان کو شکست دینا ممکن نہیں، پاکستان کی یہی قومی یکجہتی سابق سوویت یونین اور امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی، یوں خصوصاً بھارت ،سوویت یونین اور امریکہ نے یہ طے کرلیا کہ پاکستان کے اندر انتشار پیدا کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کو جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی تھی۔ بد قسمتی سے ہم اب تک یعنی 2023 ء بھی اِن عالمی سازشوں کو نہیں سمجھ سکے۔
چین کے جنوب اور برصغیر بھارت، نیپال، بھوٹان، سکم ، میانمار،کشمیر، لداخ ، پاکستان میں آزاد کشمیر اور خصوصاً گلگت بلتستان کے شمال میں ہمالیائی علاقے میںتبت واقع ہے جو تاریخی، نسلی اور جغرافیائی اعتبار سے ہزاروں سال سے چین کا حصہ رہا ہے۔
31 لاکھ 80 ہزار افراد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سطح سمندر سے انتہائی بلند مقام تبت میں رہتے ہیں جس کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔
اس کی ایک سرحد نیپال، دوسری بھوٹان، تیسری اکسائی چین بھارت سے اور چوتھی سنکیانگ سے ہوتی ہوئی پاکستان سے ملتی ہے۔ چینی تبت اور برصغیر کے درمیان برطانوی سیکر ٹری Mahon Mc میک موہن نے ایک معاہدے کے تحت ایک سرحدی لائن کھینچ دی تھی جس پر میک موہن اور اس وقت کی تبت کی حکومت کے سربراہ Satra Lonchen (لانچین ساترا) نے دستخط کئے اور پھرکچھ عرصے بعد 24 مارچ 1914 کو ایک نقشہ جاری کیا جس میں یہ لائن نقشے پر 8 میل فی انچ کے حساب سے 550 میل یعنی 890 کلومیٹر طویل تھی۔
1935 تک دنیا جیسے اِس میک موہن لائن کو بھول گئی اور جب 1935 میں انڈیا میں تعینات ایک انگریز بیوروکریٹ Caroe Olaf (الاف کارو) نے میک موہن، لانچین مذاکرات کے مطابق نقشہ جاری کیا تو چین، ہندوستان کو اس پر اعتراضات تھے اور چین کا دعویٰ لداخ پر بھی آگے 65000 مربع کلو میٹر رقبے پر ہے۔
چین کا موقف یہ ہے کہ جب معاہدے کے مطابق یہ میک موہن لائن طے کی گئی اُس وقت تبت کوئی آزاد خود مختار ریاست نہیں تھی، چین کا لداخ کے علاقے پر دعویٰ تھا مگر 1949ء میں اشتراکی انقلاب اور آزادی کے فوراً بعد بھارت کے نہرو اور چینی قیادت موزے تنگ اور چو این لائی کے درمیان تعلقات انتہائی مضبوط اور دوستانہ تھے، اس لیے تبت اور لداخ کے مسائل پس پردہ رہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو عالمی صور تحال پر ہمیشہ سے بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔
اُس وقت عالمی سطح پر چین روس تنازعہ کی وجہ سے چین جو پہلے ہی اقوام متحدہ میں اپنی حیثیت کے مطابق پوزیشن نہ ملنے پر رکنیت سے محروم تھا سوویت یونین کی وجہ سے دنیا کے کیمونسٹ بلاک کے ممالک سے بھی قدرے دور ہو گیا تھا۔
جب بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی سے تبت میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوا تو بھارتی حکومت نے بغاوت کے بعد تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو بھارت میں پناہ دیدی اور ساتھ ہی دونوںملکوں کے درمیان لداخ کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا اور یوں تبت کے نزدیک مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ پر پاکستانی علاقے گلگت بلتستان کے قریب بلند ترین علاقہ بھارت اور چین کے درمیان محاذ جنگ بنا، یہ جنگ 1962 میں 20 اکتوبر سے21 نومبر تک جاری رہی، بھارتی فوج کی جنگ میں تعداد 120000 کے قریب تھی اور اس کے مقابلے میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی تعداد 280000 تھی۔
چینی فوج کے چیف جنرل Ruiqing Luo (لُو رُیکینگ) اور محاذ کے کمانڈر Guohua Zhang (زہانگ گْوہا) تھے جب کہ بھارتی آرمی چیف جنرل موہن کاؤل اورجنرل پران ناتھ تھاپر تھے، اِس جنگ میں چین کے 722 فوجی مارے گئے اور 1697 زخمی ہوئے جب کہ اس کے مقابلے میں 1383 بھارتی فوجی ہلاک 1047 زخمی ہوئے جبکہ 1696 فوجی لاپتہ ہوگئے۔
مزید 3968 کو چینی فوج نے جنگی قیدی بنا لیا۔ لداخ کے علاقے میں چین نے 11754 مربع کلومیٹر علاقہ بھارت سے چھین لیا۔ یوں بھارت کو اس جنگ میں عبرت ناک شکست ہوئی۔ پاکستان نے اس موقع پر بھارت سے جنگ نہیں کی، لیکن یہ واضح ہو گیا تھا کہ بھارت جموں وکشمیر اور لداخ کے علاقے پر پہلی جنگ 1947-48 میں پاکستان سے ہارا اور پھر دوسری مرتبہ لداخ میں اُسے چین سے شکست ہوئی۔
یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نہرو ایک زیرک سیاستدان اور خصوصاً امور خارجہ کے ماہر تو ضرور تھے مگر وہ عسکری شعبے میں مقابل کی صلاحیتوں کا ٹھیک سے اندازہ نہیں کر سکتے تھے یا یو ں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی فوج بہادری یا فنِ سپاہ گری کے اعتبار سے کمزور واقع ہوئی۔
بھارت چین جنگ کے ٹھیک تین سال بعد 6 ستمبر1965 کو دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی جو 17 روز جاری رہی۔ اس جنگ سے کچھ عرصہ قبل کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلا ف گوریلا طرز کی جنگ شروع کر دی تھی اور سرد جنگ کے اس دور میں دنیا کے کئی علاقوں میں اس طرح کی حریت پسند تحریکیں جاری تھیں۔
یہاں بعض حلقو ں کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد پر اس تحریک کی پاکستان کی جانب سے امداد جاری تھی اور صدر جنرل ایوب خان کو یہ یقین تھا یا یقین دلایا گیا تھا کہ اس صورتحال میں بھارت متواتر اور دھیر ے دھیرے کمزور ہو گا۔
پھر یہ بھی تھا کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو 1964 میں انتقال کر گئے تھے۔ اس کے بعد لال بہادر شاستری بھارت کے وزیر اعظم بنے جو کمزورشخصیت کے مالک تھے اور عالمی سطح پر جو مقام نہر و کا تھا وہ بہرحال شاستری کا ہرگز نہیں تھا۔
اُس وقت صدر مملکت فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے، بھارتی فوج کی کمان جنرل جے این چوہدری کر رہے تھے۔ تب بھارتی فوجی کی تعداد 700000 تھی، اُن کے پاس 700 لڑا کا طیارے 720 ٹینک اور 680 بڑی توپیں تھیں، پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ خان تھے باقی اہم کمانڈروں میں لیفٹننٹ جنرل بختیار رانا، لیفٹننٹ جنرل عتیق الرحمن، لیفٹننٹ جنرل اے ایچ مالک، میجر جنرل یحییٰ خان، ائیر مارشل نور خان، وائس ایڈ مرل اے آر خان اور ایس ایم احسن شامل تھے۔
پاکستانی فوج کی تعداد 260000 تھی، پاکستان کے پاس 280 لڑاکا طیارے، 756 ٹینک اور552 توپیں تھیں۔اس جنگ میں دونوں جانب سے لڑنے والے فوجی جنرل اور سینئر افسران مقامی تھے یعنی کو ئی انگریز کمانڈر نہیں تھا البتہ یہ ضرور تھا کہ یہ تمام سینئر فوجی افسران وہ تھے جو اگست 1947 سے پہلے برٹش آرمی میں جونیئر افسران کے طور پر ایک ساتھ کام کر چکے تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل تھے۔
بیشتر بھارتی فوجی ایسے بھی تھے جو تقسیم ہند سے قبل پاکستانی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے یا دوران فوجی ملازمت پاکستانی علاقوں میں تعینا ت بھی رہے تھے، یہی صورت بہت سے پاکستانی سینئر فوجی افسران کی تھی یوں بعض بھارتی فوجیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ حملہ کرتے ہی لاہور کو فتح کر لیں گے اور پھر اس کا جشن لاہور کے جم خانہ میں منائیںگے، یہ فوجی افسران ایک دوسرے سے واقف بھی تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل اپنے اپنے ملکوں کی فوج میں شامل اپنی قومی شناخت کے ساتھ کھڑے تھے۔
یہ جنگ 1947-48کی پہلی پاک بھارت جنگ سے مختلف تھی، اس میں فتح اور شکست کی ذمہ داری بھی خودہی اٹھانی تھی، اب دونوں ملک مکمل طور پر آزاد اورخود مختار تھے، اگرچہ یہ جنگ صرف سترا روز جا ری رہی اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی فوج عدد ی اعتبار سے اور اسلحہ اور سامانِ جنگ کے لحاظ سے کم ازکم تین گنا زیادہ تھی، مگر اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان کی افواج نے سندھ، پنجاب سرحد، ورکنگ باونڈری یعنی سیالکوٹ اور کشمیر میں اُس وقت کی سیز فائر لائن اورآج کی کنٹرول لائن پر مجموعی طور پر بھارت سے دو گنی سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔ سیالکوٹ چونڈا کے محاذ پر انڈیا نے اپنے بڑی تعداد میں ٹینکوںکے ساتھ حملہ کیا جس کو پاکستانی افواج نے کامیابی سے پسپا کردیا۔
یہ دوسری جنگ عظیم کی نارمنڈی کی ٹینکوں کی لڑائی کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی۔ اسی طرح پاکستان کی فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو بالکل ناکام کر دیا اور اور 116 سے زیادہ بھارتی طیارے تباہ کئے، اس کو پوری دنیا نے تسلیم کیا، اس جنگ میں پاکستانی پائیلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں پانچ طیارے گرانے کا ایسا عالمی ریکارڈ قائم کیا جو اب تک دنیا کا کو ئی اور پائلٹ نہیں توڑ سکا۔ اس جنگ میں میجر عزیر بھٹی شہید نے محاذ پر دفاعِ وطن کا ایسا دلیرانہ ریکارڈ قائم کیا جو جنگی تاریخ میں یادگار بن گیا۔ اس عظیم قربانی اور جذبہ شجاعت پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔
یوں 1965 تک بھارت نے تین جنگیں لڑیں اور شکستیں کھائیں، بدقسمتی سے ہمیں 17روز بعد جنگ روکنی پڑی کہ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا حکمنامہ جاری کر دیا، اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی امداد اور فوجی سازوسامان کی سپلائی روکنے کا اعلان کردیا تھا،اب جہاں تک تعلق بھارت کا تھا تو وہ سوویت یونین اور فرانس سے بھی اسلحہ اور فوجی ساز وسامان لیتا تھا اور اِن ملکوں کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
یہ پاکستان کے لیے مشکل وقت تھا، ایک دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ اُس وقت پاکستان کی آبادی دس کروڑ اور بھارت کی آبادی تقریباً ساٹھ سے پینسٹھ کروڑ کے درمیان ہو گئی تھی اور اُس زمانے میں اِن دونوں ملکوں میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار بہت ہی کم تھی اور خطرہ تھا کہ برصغیر میں قحط نہ پڑ جا ئے اور اسی سال امریکہ کے سائنسدانوں نے میکسی پاک کے نام سے گندم کا ایک ایسا بیج ایجاد کیا تھا جس سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار تین گنا ہو گئی تھی۔
گندم کے بیج بحری جہاز امریکہ سے لے کر بھارت اور پاکستا ن آرہے تھے کہ جنگ کیوجہ سے سمندر میں روک دئیے گئے تھے، یہاں تک بھی اندازے تھے کہ اگر یہ صورتحال ایک دو برس مزید رہتی تو قحط کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کے اندیشے تھے۔
یہ جنگ مغربی پاکستان اور کشمیر میں لڑی گئی اور مشرقی پاکستان کے محاذ نہیں کھولے گئے یعنی بھارت نے اس جنگ کو مشرقی پاکستان کے محاذ پر نہیں لڑا، یوں بھارت نے ایک تاثر یہ دیا کہ اُس کی یہ جنگ صرف مغربی پاکستا ن سے تھی۔ اگر چہ پاکستان اس جنگ میں مشرقی محاذ سے بھی بالکل بے خبر نہیں تھا مگر جنگ کا مثالی جوش وجذبہ مغربی پاکستان میں کہیں زیادہ تھا۔
اس جنگ میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے بائیں بازو کے ادیب و شاعر بھی بطور پاکستانی پورے جو ش وجذبے سے شامل تھے۔ بچہ بچہ روزانہ اپنے جیب خرچ میں سے ایک پیسہ ضرور دیتا تھا کہ یہ بتایا گیا تھا ایک ٹینک کی قیمت دس لاکھ روپے ہے اور اگر دس کروڑ پاکستانی ایک پیسہ فی کس دیں تو ہر روز ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے۔
جوش وجذبے کا یہ عالم تھا کہ پوری قوم محاذ ِجنگ پر لڑنے کے لیے تیار تھی، وہ بچیاں جن کی شادیاں ہونے والی تھیں اور جہیز کے لیے والدین نے زیورات خریدے تھے اُنہوں نے وہ زیور تک قومی دفاعی فنڈ میں دے دئیے۔
پاکستان کے میڈیا نے بھی مثالی کردار ادا کیا، ریڈیو پاکستا ن اور ملک کے واحد پی ٹی وی اسٹیشن لاہور نے ایسا جوش ولولہ پیدا کیا کہ دیدنی تھا، ملکہ ترنم نور جہاں، شہنشاہ غزل مہدی حسن سمیت کئی گلوکاروں نے وہ لازوال قومی نغمات گائے کہ آج بھی وہ کانوںمیں رس گھولتے ہیں۔
جنگ کے خاتمے پر پاکستان کے عوام اس جنگ کے جیتنے پر خوشیاں منا رہے تھے کہ جنوری1966 میں اقوام متحدہ امریکہ اورسوویت یونین کے مشترکہ اور شدید دباؤ کے تحت پاکستان کو اُس وقت کی سوویت یونین کی ریاست ازبکستان کے شہر تاشقند میں 4 جنوری تا10 جنوری1966 مذاکرات کرنا پڑے۔ پاکستا ن کی جانب سے صدر ایوب خا ن اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم لال بہادر شاستری اور وزیرخارجہ سردار سورن سنگھ نے شرکت کی۔
جب کہ سہو لت کار یا ثالث کے طور پر روسی وزیراعظم Kosygin Alexei ایلکسی کوسیجن تھے۔اس تاشقند اعلانیے میں یہ کہا گیا کہ دونوں ملکوں کی فوجیں اگست 1965 کے امن کے مقامات پر واپس جائیں۔کشمیر میں بھی فوجیں 1949 ء میں اقوام متحد ہ کی طے کردہ سیز فائر لائن یعنی جنگ بندی لائن پر واپس ہو جائیں اور یہ عمل 25 فروری 1966 تک ہر صورت میں مکمل کر لیا جائے۔
اس تاشقند معاہدہ میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملا ت میں مداخلت نہیں کریں گے، فوری طور پر آپس کے اقتصادی اور سفارتی تعلقات بحال کریں گے، مگر اس معاہدہ میں کشمیر میں گوریلا جنگ نہ کرنے یا آپس میں یعنی پاکستان اور بھات میں جنگ نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد رات کو بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت پُراسرا رانداز میں ہوئی۔
ویسے تو سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اُن کی موت ہارٹ ایٹک کی وجہ سے ہو ئی مگر ساتھ ہی میڈیا نے یہ بھی کہا کہ اُن کو زہر دیا گیا تھا۔ بھارتی سرکار نے اِن رپورٹوں پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ جب کہ میڈیا میں یہ تبصرے ہوئے کہ بھارت نے اس لیے خاموشی اختیار کی کہ اس طرح عالمی سطح پر بھارت کے اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور روس سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔
پاکستان کے بعض اخبارات نے اپنے تبصروں میں یہ لکھا کہ بھارتی وزیر اعظم کی موت انتہائی اور یکدم خوشی کے سبب واقع ہوئی، ان تبصروں کی ایک وجہ یہ تھی کہ واقعی بھارت پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فوجی طاقت رکھتا تھا اور اُسے شکست ہوئی تھی۔
پھر معاہدہ تاشقند پر وزیرِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان سے اختلاف کیا تھا، اُن کا موقف جو انہوں نے بعد میں بیان بھی کیا وہ یہ تھا کہ جہاں تک تعلق دونوں ملکوں کے درمیان امن کے قیام اور فوجوں کی زمانہ امن کی پوزیشن پر واپسی کا تھا تو وہ اس بات پر اتفاق کرتے تھے کہ سندھ اور پنجاب اور سیالکوٹ ورکنگ باونڈری انٹرنیشنل بارڈر ہیں۔
اِن مقامات سے دونوں ملک اپنی انپی فوجیں زمانہ امن کے مقامات پر لے آتے ہیں مگر جہاں تک تعلق کشمیر میں سیزفائر لائن کا ہے تو کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے جس کے عوام نے حق رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت دونوں ملکوں میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا ہے اور پاکستان برسوں سے اس کا تقاضا کرتا رہا ہے، اور پھر 1947-48 کی جنگ میں اقوام متحدہ کی جانب سے جب جنگ بند کراوئی گئی تھی تو جہاں جس مقام پر جنگ بند ہوئی تھی اسے اقوام متحدہ نے جنگ بندی لائن تسلیم کیا تھا۔اس لیے اب کشمیر میں جہاں جنگ بند ہوئی ہے۔
وہاں نئی جنگ بندی لائن کا اعلان کیا جائے، بھٹو اور صدر ایوب خان کے اختلافات بڑھے اور پھر بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا، یا صدر ایوب خان نے اُن سے استعفیٰ لے لیا۔ پھر بھٹو نے 30نومبر 1967 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر ایوب خان کی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر تحریک شروع کردی۔
لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کے بعد نہ صرف پاکستان کی ترقی متاثر ہوئی بلکہ پاکستان کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر سازشیں شروع ہو گئیں، اس جنگ میں ہماری کمزوری یہ رہی کہ ہمارے پاس امریکہ کے علاوہ دوسری کوئی ایسی قوت یا طاقتور ملک نہیں تھا کہ ہم امریکہ سے تعلقات اور اپنی اسٹرٹیجک پو زشن کے حوالے سے کو ئی بارگین کر سکتے۔
1962 میں چین نے لداخ میں بھارت سے جو علاقے چھینے تھے وہ آج بھی اس کے پاس ہیں جب کہ وہاں چین عوامی سطح پر کسی رائے شماری کا پابند بھی نہیں اورچین 2006 میں تبت اور اس علاقے میں سطح سمندر سے 17000 فٹ سے زیادہ بلندی پر 4 ارب ڈالر کی مالیت سے دس سال کے اندر یعنی 2016 تک دنیا کی بلند ترین ریلوے لائن بچھا چکا ہے۔
ایوب خان نے بھی آخر '' فرینڈز ناٹ ماسٹرز، کتاب لکھی کیونکہ اُس وقت عجیب سی صورتحال تھی توپوں ٹینکوں کے گولوں، طیاروں کے بموں اور پرزہ جات تمام کا سو فیصد انحصا ر امریکہ پر تھا جس نے فوجی ساز و سامان کی سپلائی روک دی تھی پھر جہاں بات معاہدہ تاشقند کے بعد رات کو ہی بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے انتقا ل کی ہے اور جو یہ کہا گیا تھا کہ اُن کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے تو اس سے فائدہ بھارت کو ہی ہوا تھا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر لال بہادر شاستری جنگ ہارے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت اور کانگریس کے بڑے لیڈر کے طور پر معاہد ہ تاشقند کرکے واپس بھارت آتے تو اُن کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے سوچئے کہ جب سوال وجواب ہوتے تو کانگریس اور بھارت کو کتنا نقصان ہوتا اور اگر خصوصاً کشمیر کے اعتبار سے نئی سیز فائر لائن قرار دی جاتی تو حالات اور بھی خراب ہوتے، یوں ایسا معاہدہ جو صدر ایوب خان سے کر وایا گیا۔
اس میں سوویت یونین اور امریکہ کی چین سے دشمنی واضح تھی کیونکہ اُس وقت امریکہ اور روس دونوں ہی کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں تھے اور جنگ 1965ء سے ایک سال قبل ہی چین نے کامیاب ایٹمی تجربہ کیا تھا اور امریکہ ، برطانیہ، روس اور فرانس کے بعد دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بن گیا تھا۔
اس لیے اس مفروضے کو راقم الحروف دنیا کے سامنے رکھتا ہے کہ جنگ 1965 کے بعد پاکستان، امریکہ اور سوویت یونین دونوں ہی کی نظروںمیں اپنی فوجی صلاحیت اور چین سے تعلقات کے اعتبار سے کھٹکتا تھا۔ بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری سولہ سال کی عمر سے کانگریس کے پلیٹ فارم سے بھارت کی جد وجہد آزادی میں گاندھی اور نہر و کے پیرو کار تھے۔
اُس وقت کے تناظر میں دیکھیں تو بھارتی اژددھامی نفسیات کے اعتبار سے ایک جانب کمزور شخصیت کے حامل بھارتی وزیراعظم شاستری کے مرنے کا بھارتی عوام کو کوئی دکھ نہیں تھا بلکہ اندرا گاندھی کے بطور نئے بھارتی وزیر اعظم بننے کی خوشی تھی، اندراگاندھی بھی اپنے والد نہرو کی طرح نہ صرف طویل عرصے تک بھارت کی وزیر اعظم رہیں بلکہ صر ف چھ سال بعد انہوں نے جنگ ستمبر کا انتقام مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں لے لیا۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اُس کی قیادت اور امریکہ اور سوویت یونین نے بھی ادراک کر لیا تھا کہ اگر پاکستان میں قومی یکجہتی جنگ 1965 کے جوش وجذبے سے قائم رہتی ہے تو ایسی صورت میں کم از کم بھارت کا پاکستان کو شکست دینا ممکن نہیں، پاکستان کی یہی قومی یکجہتی سابق سوویت یونین اور امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی، یوں خصوصاً بھارت ،سوویت یونین اور امریکہ نے یہ طے کرلیا کہ پاکستان کے اندر انتشار پیدا کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کو جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی تھی۔ بد قسمتی سے ہم اب تک یعنی 2023 ء بھی اِن عالمی سازشوں کو نہیں سمجھ سکے۔