عدالت کے حکم پر آئی جی اسلام آباد نے شیریں مزاری کو جرمانے کی رقم ادا کردی
عدالت نے شیریں مزاری کے خلاف درج مقدمات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی
ہائی کورٹ کے حکم پر آئی جی اسلام آباد نے جرمانے کی رقم شیریں مزاری کو ادا کردی۔
شیریں مزاری کے ای سی ایل میں نام کے حوالے سے کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کی، جس میں انہوں نے استفسار کیا کہ جب مقدمات بنے تب گرفتاری کیوں نہیں کی؟، 2014ء کے مقدمات کا کیا اسٹیٹس ہے؟۔ ان مقدمات کو 10 سال ہوگئے ہیں۔ پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالنے کے لیے کیا وفاقی حکومت سے اجازت لی گئی؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے، جس پر حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ہمیں تفتیشی ایجنسی لکھتی ہے تب ہی نام شامل کیا جاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت منظوری دیتی ہے جب کہ فہرست وزارت داخلہ تیار کرتی ہے۔ وفاقی حکومت اپنا اختیار کسی کو دے ہی نہیں سکتی۔ رولز میں سے وفاقی حکومت کا لفظ ہے ڈی پاسپورٹ کا لفظ نہیں۔
عدالت نے کہا کہ ای سی ایل میں بھی وفاقی حکومت ہی منظوری دیتی ہے۔ وفاقی حکومت کی منظوری سے وزارت داخلہ نام ایف آئی اے کو بھیجا جاتا ہے۔ تھانہ سیکرٹریٹ میں 2014ء کا مقدمہ ہے پولیس نے تب کیوں گرفتار نہیں کیا یہ بھی بتائیں۔ کیا آئی جی اسلام آباد نے 25 ہزار جرمانہ ادا کیا ہے؟۔ آئی جی کو کہیں جرمانہ ادا کریں ورنہ توہین عدالت لگا کر جیل بھیجیں گے۔ آپ نے عدالتی احکامات کو مذاق بنا رکھا ہے۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو 25 ہزار روپے جرمانہ ادا کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا، جس پر آئی جی اسلام آباد نے 25 ہزار روپے کا جرمانہ شیریں مزاری کو کمرہ عدالت میں دے دیا ۔ واضح رہے کہ عدالت نے جواب جمع نہ کرانے پر آئی جی اسلام آباد پر 25 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ شیریں مزاری نے جرمانے کی مد میں آنے والے 25 ہزار روپے شوکت خانم کو دینے کا اعلان کیا۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کے خلاف درج مقدمات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے 19 ستمبر تک ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا اور کیس کی سماعت 19 ستمبر تک ملتوی کردی۔