عمران خان کو سزا معطلی کے باوجود جیل میں رکھنے کے فیصلے کا ریکارڈ طلب

چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے تو آگاہ کریں، عدالت کا حکم

(فوٹو: فائل)

ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کرنے سے متعلق کیس کی سماعت میں سزا معطلی کے باوجود عمران خان کو جیل میں رکھنے کے فیصلے کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو جیل میں سہولیات سے متعلق درخواست پر سماعت کی، جس میں اٹک جیل کی طرف سے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ حسرت عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے حکم دیا کہ چیئرمین پی ٹی ٹی کی سزا معطل ہونے کے بعد اٹک جیل میں رکھنے کا کوئی نوٹی فکیشن جاری ہوا ہے تو آگاہ کیا جائے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ جگہ نہ ہونے کے باعث اٹک جیل منتقل کیا گیا ۔ صرف اور صرف زیادہ تکلیف دینے کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کیا گیا ۔ اڈیالہ جیل میں سکیورٹی انتظامات بہتر ہیں ،بی کلاس بھی موجود ہے ۔ ہمارا حق ہے ہمیں اڈیالہ جیل منتقل کرکے بی کلاس فراہم کی جائے ۔ بشری بی بی جیل میں ملنے گئیں تو ان پر بھی مقدمہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ الزام لگایا گیا کہ بشریٰ بی بی نے جیل اہلکار کو 20ہزار روپے رشوت دینے کی کوشش کی ۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے فاضل دوست نے جو باتیں کی ہیں وہ درست نہیں ۔ جیل میں اب بی کلاس ختم کردی گئی ہے، صرف آرڈنری اور بہتر کلاس موجود ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو بہتر کلاس فراہم کی گئی ہے ۔ باتھ روم کی دیواریں اونچی کراکے کموڈ لگوا دیا گیا ہے ۔ 21 انچ کا ٹی وی بھی انسٹال کردیا گیا ہے ۔ 5 اخبار بھی جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ جو سہولیات یہ اڈیالہ جیل میں لینا چاہتے ہیں، وہ ہم اٹک میں بھی دے رہے ہیں ۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بیڈ، کرسی، 21 انچ ٹی وی اور 5 اخبار فراہم کیے گئے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو کھانا بھی ان کی مرضی سے دیا جاتا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے 5 ڈاکٹر تعینات کیے گئے ہیں۔ انہیں 2 دن چکن اور مٹن دیسی گھی میں بنا کر دیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ ساری باتیں بتائیں لیکن درخواست گزار کا بنیادی اعتراض کچھ اور ہے۔ ٹرائل کورٹ نے اڈیالہ جیل میں رکھنے کا کہا تو اٹک جیل منتقل کیوں کیا گیا؟۔ کیا اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کی درخواست کی؟


اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی کے پاس کسی بھی قیدی کو ایک سے دوسری جیل میں منتقل کرنے کا اختیار ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کی اپنی کوئی جیل نہیں تو قیدیوں کو اڈیالہ جیل میں رکھا جاتا ہے۔ وکیل شیر افضل نے کہا کہ جب یہ درخواست دائر کی گئی تب چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا ہوئی تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا اب معطل ہو چکی اور ضمانت مل چکی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا دوران حراست اسٹیٹس اب تبدیل ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت سزا نہیں کاٹ رہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی ایک اور انڈر ٹرائل کیس میں حراست میں ہیں۔ اسلام آباد کے اندر ٹرائل قیدیوں کو اڈیالہ جیل میں ہی رکھا جاتا ہے۔ اگر اٹک سے اٹھا کر کوٹ لکھپت لے جاتے ہیں تو کیا ہر پیشی پر لایا جا سکتا ہے؟۔ کوٹ لکھپت سے تو 5، 6 گھنٹے کا سفر ہے۔ اٹک جیل سے اسلام آباد کا سفر کتنا ہے؟

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اٹک سے اسلام آباد کا ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس گاڑی میں یہ لاتے ہیں اس میں 10، 15 منٹ زیادہ ہی لگتے ہوں گے۔ کیا سزا معطل ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل رکھنے کا کوئی فیصلہ ہوا؟

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ میں اس حوالے سے ہدایات لے کر آگاہ کر سکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی بھی ہمارے تمام انڈرٹرائل قیدی اڈیالہ جیل ہی سے لائے جاتے ہیں۔ میں اس درخواست پر آرڈر جاری کروں گا۔ سائفر کیس میں تو وہ انڈر ٹرائل ملزم ہیں۔ کیا دوران ٹرائل بھی جیل تبدیل ہوسکتی ہے۔ ٹرائل تو اسلام آباد میں ہونا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وکیل شیر افضل مروت کو جمعرات کو چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے عمران خان کو جیل میں سہولیات اور جیل منتقلی کی درخواست پر سماعت ملتوی کردی۔ عدالت نے حکم دیا کہ چیئرمین پی ٹی ٹی کی سزا معطل ہونے کے بعد اٹک جیل میں رکھنے کا کوئی نوٹی فکیشن جاری ہوا ہے تو آگاہ کریں۔ بعد ازاں سماعت 11 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔
Load Next Story