عمران کی تحریک حکومت کے سر پر تلوار کی طرح لٹکتی رہے گی
دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں تحریک انصاف ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے مزید حلقوں میں تحقیقات کا مطالبہ کر سکتی ہے
ISLAMABAD:
اتوار کے جلسے سے عمران خان نے ایک پُرامن لیکن خطرناک تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کی شایدیہ انوکھی تحریک ہو جو ہر دم تلوار کی طرح منتخب سیاسی اکابرین خصوصاً حکومت کے سر پر لٹکتی رہے گی۔ انتخابی دھاندلی کے ازالے اور مستقبل کے انتخابات شفاف کرانے کے بے ضرر مطالبات اپنے اندر ایک طوفان سموئے ہوئے ہیں۔
گزشتہ سال کے انتخابات میں جن چار حلقوں پر تحقیقات کا مطالبہ عمران خان ایک سال سے کر رہے ہیں، ان پر تحقیقات نہ ہونے کی صورت میں سیاسی فائدہ تحریک انصاف اٹھا رہی ہے اور اگر تحقیقات مکمل ہوتی ہے اور جس طرح کی شہادت بیان کی جا رہی ہے دھاندلی کا ثابت ہونا ممکنات میں نظر آتا ہے، ایسی صورت میں بھی تحریک انصاف ہی فائدے میں ہوگی۔ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں تحریک انصاف ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے مزید حلقوں میں تحقیقات کا مطالبہ کر سکتی ہے اور یہ ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہو گا جو سڑکوں، گلیوں میں تحریک کے بجائے الیکشن ٹربیونل، الیکشن کمیشن یا نادرا کے دفاتر کی حدود میں برپا ہو گا لیکن اثرات کے حوالے سے حکومت کیلئے بہت بڑی مصیبت کا پیش خیمہ، اس کے ساتھ ساتھ اس مطالبے پر مکمل عملدرآمد کی صورت میں ان شخصیات اور اداروں کیلئے بھی مشکلات بڑھ سکتی ہیں جن پر عمران خان اس تمام دھاندلی میں ملوث ہونے کا بارہا الزام لگا چکے ہیں۔
عمران خان کے اعلانات اور مطالبات سے یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگرچہ وہ موجودہ جمہوری نظام کو فوری دھچکا پہنچانے کے حق میں نہیں لیکن بتدریج معاملات اس نہج پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں حکومت کی ساکھ انتخابات کی حد تک خراب کی جا سکے اور اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز بھی چیلنج ہو سکے، دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں عمران خان کا پہلا مطالبہ تو پورا ہو جائے گا، اس کا منطقی نتیجہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہو گا، اگر 35 پنکچروں والی بات بھی عمران خان ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کم از کم پنجاب کی حد تک انتخابات کی ساکھ کیلئے ایسا دھچکا ہو گا جس کو موجودہ سیاسی نظام برداشت نہیں کر پائے گا۔
اور بالآخر انتخابات کے شفاف انعقاد کیلئے ایسے اقدامات کرنا ناگزیر ہو جائیں گے جن کیلئے مطالبہ اور کوششیں بڑے عرصہ سے جاری ہیں اس کے ساتھ ہی عمران خان کے نگران حکومتوں کی غیر جانبداری کے حوالے سے مطالبات بھی ماننا ہونگے، خصوصاً نگران حکومت کے عہدیداروں کو سرکاری عہدوں سے دو سال تک نہ نوازنے کی پابندی کی شرط بہت مناسب ہے اور امید ہے کہ اس کو آئندہ انتخابات سے قبل اصولی طور پر طے کر لیا جائے گا اور قانون کے ذریعے اس کا اطلاق یقینی بنایا جائے گا۔
اتوار کے جلسے سے عمران خان نے ایک پُرامن لیکن خطرناک تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کی شایدیہ انوکھی تحریک ہو جو ہر دم تلوار کی طرح منتخب سیاسی اکابرین خصوصاً حکومت کے سر پر لٹکتی رہے گی۔ انتخابی دھاندلی کے ازالے اور مستقبل کے انتخابات شفاف کرانے کے بے ضرر مطالبات اپنے اندر ایک طوفان سموئے ہوئے ہیں۔
گزشتہ سال کے انتخابات میں جن چار حلقوں پر تحقیقات کا مطالبہ عمران خان ایک سال سے کر رہے ہیں، ان پر تحقیقات نہ ہونے کی صورت میں سیاسی فائدہ تحریک انصاف اٹھا رہی ہے اور اگر تحقیقات مکمل ہوتی ہے اور جس طرح کی شہادت بیان کی جا رہی ہے دھاندلی کا ثابت ہونا ممکنات میں نظر آتا ہے، ایسی صورت میں بھی تحریک انصاف ہی فائدے میں ہوگی۔ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں تحریک انصاف ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے مزید حلقوں میں تحقیقات کا مطالبہ کر سکتی ہے اور یہ ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہو گا جو سڑکوں، گلیوں میں تحریک کے بجائے الیکشن ٹربیونل، الیکشن کمیشن یا نادرا کے دفاتر کی حدود میں برپا ہو گا لیکن اثرات کے حوالے سے حکومت کیلئے بہت بڑی مصیبت کا پیش خیمہ، اس کے ساتھ ساتھ اس مطالبے پر مکمل عملدرآمد کی صورت میں ان شخصیات اور اداروں کیلئے بھی مشکلات بڑھ سکتی ہیں جن پر عمران خان اس تمام دھاندلی میں ملوث ہونے کا بارہا الزام لگا چکے ہیں۔
عمران خان کے اعلانات اور مطالبات سے یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگرچہ وہ موجودہ جمہوری نظام کو فوری دھچکا پہنچانے کے حق میں نہیں لیکن بتدریج معاملات اس نہج پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں حکومت کی ساکھ انتخابات کی حد تک خراب کی جا سکے اور اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز بھی چیلنج ہو سکے، دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں عمران خان کا پہلا مطالبہ تو پورا ہو جائے گا، اس کا منطقی نتیجہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہو گا، اگر 35 پنکچروں والی بات بھی عمران خان ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کم از کم پنجاب کی حد تک انتخابات کی ساکھ کیلئے ایسا دھچکا ہو گا جس کو موجودہ سیاسی نظام برداشت نہیں کر پائے گا۔
اور بالآخر انتخابات کے شفاف انعقاد کیلئے ایسے اقدامات کرنا ناگزیر ہو جائیں گے جن کیلئے مطالبہ اور کوششیں بڑے عرصہ سے جاری ہیں اس کے ساتھ ہی عمران خان کے نگران حکومتوں کی غیر جانبداری کے حوالے سے مطالبات بھی ماننا ہونگے، خصوصاً نگران حکومت کے عہدیداروں کو سرکاری عہدوں سے دو سال تک نہ نوازنے کی پابندی کی شرط بہت مناسب ہے اور امید ہے کہ اس کو آئندہ انتخابات سے قبل اصولی طور پر طے کر لیا جائے گا اور قانون کے ذریعے اس کا اطلاق یقینی بنایا جائے گا۔