سب سے زیادہ جھوٹ سیاست میں کیوں
سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سب کے لیے پیغام ہے کہ وہ جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں پریس ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری میں مزید کہا آئین کے مطابق معلومات تک رسائی ہر شخص کا حق ہے اور جج اور صحافی دونوں سچ کی تلاش میں نکلتے ہیں۔
جج کا کام صحافت سے زیادہ مختلف نہیں، سچ تبدیل نہیں ہوتا۔ رائے دینے کا ہر ایک کو حق اپنی جگہ مگر سچ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ نامزد چیف جسٹس نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہر موقع پر سچ بولیں اور جھوٹ بولنا چھوڑ دیں میرا ہر ایک کے لیے یہی پیغام ہے اور ہمارے نبیؐ نے بھی فرمایا ہے کہ مومن بزدل یا کنجوس تو ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ سچ سچ ہی رہتا ہے اور ذمے دارانہ صحافت وقت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹ سیاست میں ہی بولا جاتا ہے اور سیاستدان ہی سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، جب سچ بولا جاتا ہے تو سچ بولنے کی تکلیف سب سے زیادہ پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین سمیت حکومتی ذمے داروں کو ہوتی ہے اور وہ سچ پر بھی سیاست شروع کر دیتے ہیں اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ٹرول سچ بولنے والوں کے خلاف نئی مذموم مہم شروع کر دیتا ہے کہ ہمیں سچ بولنے کا مشورہ دینے والے سیاست کر رہے ہیں حالانکہ ایسا کرنا سیاست نہیں سچ ہوتا ہے۔
ججوں اور صحافیوں سے زیادہ سچ بولنے کی ضرورت تمام سیاست دانوں اور خصوصاً پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو ہے کہ جنھوں نے ملکی سیاست میں جھوٹ پہ جھوٹ بولنے، غلط و بے بنیاد الزامات لگانے، یوٹرن لینے کا ریکارڈ قائم کیا ہے اور اس کے چیئرمین نے جھوٹ بولنے، عوام کو گمراہ کرنے اور سچ چھپانے کی نہ صرف ترغیب دے رکھی ہے بلکہ اس سلسلے میں اپنا بھی منفرد ریکارڈ بنا رکھا ہے اور پی ٹی آئی کی سیاست میں جھوٹ بولنا، بے بنیاد الزام تراشی،گمراہ کن خبریں پھیلانا اور اپنے مفاد کے لیے سچ چھپانا اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا اپنا فرض اولین بنا رکھا ہے اور دیگر سیاسی جماعتیں اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں سمیت کوئی ایک بھی ایسا رہنما نہیں ہے جو جھوٹ نہ بولتا ہو۔
جس نے حصول اقتدار کے لیے عوام سے جھوٹ نہ بولا ہو۔ جھوٹے وعدے نہ کیے ہوں اور ان کی پارٹی نے جھوٹے وعدوں کو اپنے منشور کا حصہ نہ بنایا ہو۔ بدقسمتی سے ایک سابق چیف جسٹس نے ملک کے سب سے بڑے جھوٹے سیاستدان کو صادق و امین ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رکھا ہے۔
عدلیہ میں ججوں کے ساتھ وکیلوں کے بغیر مقدمات چل ہی نہیں سکتے اور مقدمات جیتنے کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنائے بغیر وکلا حضرات کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا اور اسی چیز کی وہ بھاری فیس وصول کرتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں سردار لطیف کھوسہ نے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی لفٹ بند ہونے کی تحقیقات کرائی جائے۔
کچھ کا خیال ہے کہ یہ تکنیکی مسئلہ تھا کہ جب دس کی جگہ لفٹ میں 19 افراد داخل ہو جائیں تو پرانی لفٹ نے خراب تو ہونا ہی ہے اور یہ معمول ہے کہ کسی لفٹ میں اگر گنجائش سے زیادہ لوگ سوار ہو جائیں گے تو لفٹ نے اضافی وزن برداشت نہیں کرنا۔ لفٹ میں لطیف کھوسہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ 40 منٹ لفٹ میں پھنسے رہے ،انھوں نے اس واقعے کو اپنے قتل کی سازش قرار دے دیا اور چیف جسٹس پاکستان سے لفٹ خراب ہونے کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔
سچ کی ضد جھوٹ اور جھوٹ کی ضد سچ ہے مگر سیاست میں جھوٹ اتنا سرائیت کر چکا ہے کہ جھوٹ کے بغیر سیاست کی ہی نہیں جا سکتی۔ اسی لیے ہر پارٹی کے منشور میں جھوٹے وعدے ضرور ہوتے ہیں اور سیاستدان اگر جھوٹے دعوے نہ کریں تو ان کی پارٹی کو مقبولیت مل ہی نہیں سکتی اور عوام بھی زیادہ سے زیادہ جھوٹ بولنے والے رہنماؤں کے دعوؤں اور تقاریر پر تالیاں بجاتے ہیں خواہ وہ سب جھوٹ ہو۔
پاکستانی سیاست میں پی پی کے قیام کے وقت ذوالفقار علی بھٹو نے ہر شخص کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا جس پر نہ صرف وہ وزیر اعظم بنے اور پیپلز پارٹی 50 سالوں میں بیس پچیس سال اقتدار میں رہی مگر منشور پر عمل نہ ہوا۔
پی پی کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین نے عوام کو خواب دکھایا کہ وہ اقتدار میں آ کر لوگوں کو 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ پونے 4 سالوں میں وہ کچھ نہ کرسکے۔ کرپشن کا خاتمہ بھی ان کا منشور تھا اور اب وہ خود کرپشن کے الزام پر جیل میں ہیں۔
تیسری بار وزیر اعظم بننے کے لیے نواز شریف نے 2013 میں ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا جو پورا بھی ہوا مگر شہباز شریف کی حکومت میں سردیوں میں بجلی ہوتی تھی نہ گرمیوں میں گیس اور پونے چار سالہ پی ٹی آئی حکومت نہ کرپشن ختم کرا سکی نہ لوگوں کو یکساں انصاف ملا البتہ مہنگائی و بے روزگاری میں ضرور اضافہ ہوا۔
جھوٹ کے بغیر سیاست چل سکتی ہے نہ وکالت۔ اور جب جج پاناما کے بجائے اقامہ پر وزیر اعظم کو نااہل کردیں اور پاناما میں نام ہونے کے باوجود نام نہ ہونے والے نواز شریف کو سزا اور بھٹو کو پھانسی کی سزا دیں تو جھوٹ کیسے ختم ہو سکتا ہے۔
جج کا کام صحافت سے زیادہ مختلف نہیں، سچ تبدیل نہیں ہوتا۔ رائے دینے کا ہر ایک کو حق اپنی جگہ مگر سچ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ نامزد چیف جسٹس نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہر موقع پر سچ بولیں اور جھوٹ بولنا چھوڑ دیں میرا ہر ایک کے لیے یہی پیغام ہے اور ہمارے نبیؐ نے بھی فرمایا ہے کہ مومن بزدل یا کنجوس تو ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ سچ سچ ہی رہتا ہے اور ذمے دارانہ صحافت وقت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹ سیاست میں ہی بولا جاتا ہے اور سیاستدان ہی سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، جب سچ بولا جاتا ہے تو سچ بولنے کی تکلیف سب سے زیادہ پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین سمیت حکومتی ذمے داروں کو ہوتی ہے اور وہ سچ پر بھی سیاست شروع کر دیتے ہیں اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ٹرول سچ بولنے والوں کے خلاف نئی مذموم مہم شروع کر دیتا ہے کہ ہمیں سچ بولنے کا مشورہ دینے والے سیاست کر رہے ہیں حالانکہ ایسا کرنا سیاست نہیں سچ ہوتا ہے۔
ججوں اور صحافیوں سے زیادہ سچ بولنے کی ضرورت تمام سیاست دانوں اور خصوصاً پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو ہے کہ جنھوں نے ملکی سیاست میں جھوٹ پہ جھوٹ بولنے، غلط و بے بنیاد الزامات لگانے، یوٹرن لینے کا ریکارڈ قائم کیا ہے اور اس کے چیئرمین نے جھوٹ بولنے، عوام کو گمراہ کرنے اور سچ چھپانے کی نہ صرف ترغیب دے رکھی ہے بلکہ اس سلسلے میں اپنا بھی منفرد ریکارڈ بنا رکھا ہے اور پی ٹی آئی کی سیاست میں جھوٹ بولنا، بے بنیاد الزام تراشی،گمراہ کن خبریں پھیلانا اور اپنے مفاد کے لیے سچ چھپانا اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا اپنا فرض اولین بنا رکھا ہے اور دیگر سیاسی جماعتیں اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں سمیت کوئی ایک بھی ایسا رہنما نہیں ہے جو جھوٹ نہ بولتا ہو۔
جس نے حصول اقتدار کے لیے عوام سے جھوٹ نہ بولا ہو۔ جھوٹے وعدے نہ کیے ہوں اور ان کی پارٹی نے جھوٹے وعدوں کو اپنے منشور کا حصہ نہ بنایا ہو۔ بدقسمتی سے ایک سابق چیف جسٹس نے ملک کے سب سے بڑے جھوٹے سیاستدان کو صادق و امین ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رکھا ہے۔
عدلیہ میں ججوں کے ساتھ وکیلوں کے بغیر مقدمات چل ہی نہیں سکتے اور مقدمات جیتنے کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنائے بغیر وکلا حضرات کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا اور اسی چیز کی وہ بھاری فیس وصول کرتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں سردار لطیف کھوسہ نے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی لفٹ بند ہونے کی تحقیقات کرائی جائے۔
کچھ کا خیال ہے کہ یہ تکنیکی مسئلہ تھا کہ جب دس کی جگہ لفٹ میں 19 افراد داخل ہو جائیں تو پرانی لفٹ نے خراب تو ہونا ہی ہے اور یہ معمول ہے کہ کسی لفٹ میں اگر گنجائش سے زیادہ لوگ سوار ہو جائیں گے تو لفٹ نے اضافی وزن برداشت نہیں کرنا۔ لفٹ میں لطیف کھوسہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ 40 منٹ لفٹ میں پھنسے رہے ،انھوں نے اس واقعے کو اپنے قتل کی سازش قرار دے دیا اور چیف جسٹس پاکستان سے لفٹ خراب ہونے کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔
سچ کی ضد جھوٹ اور جھوٹ کی ضد سچ ہے مگر سیاست میں جھوٹ اتنا سرائیت کر چکا ہے کہ جھوٹ کے بغیر سیاست کی ہی نہیں جا سکتی۔ اسی لیے ہر پارٹی کے منشور میں جھوٹے وعدے ضرور ہوتے ہیں اور سیاستدان اگر جھوٹے دعوے نہ کریں تو ان کی پارٹی کو مقبولیت مل ہی نہیں سکتی اور عوام بھی زیادہ سے زیادہ جھوٹ بولنے والے رہنماؤں کے دعوؤں اور تقاریر پر تالیاں بجاتے ہیں خواہ وہ سب جھوٹ ہو۔
پاکستانی سیاست میں پی پی کے قیام کے وقت ذوالفقار علی بھٹو نے ہر شخص کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا جس پر نہ صرف وہ وزیر اعظم بنے اور پیپلز پارٹی 50 سالوں میں بیس پچیس سال اقتدار میں رہی مگر منشور پر عمل نہ ہوا۔
پی پی کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین نے عوام کو خواب دکھایا کہ وہ اقتدار میں آ کر لوگوں کو 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ پونے 4 سالوں میں وہ کچھ نہ کرسکے۔ کرپشن کا خاتمہ بھی ان کا منشور تھا اور اب وہ خود کرپشن کے الزام پر جیل میں ہیں۔
تیسری بار وزیر اعظم بننے کے لیے نواز شریف نے 2013 میں ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا جو پورا بھی ہوا مگر شہباز شریف کی حکومت میں سردیوں میں بجلی ہوتی تھی نہ گرمیوں میں گیس اور پونے چار سالہ پی ٹی آئی حکومت نہ کرپشن ختم کرا سکی نہ لوگوں کو یکساں انصاف ملا البتہ مہنگائی و بے روزگاری میں ضرور اضافہ ہوا۔
جھوٹ کے بغیر سیاست چل سکتی ہے نہ وکالت۔ اور جب جج پاناما کے بجائے اقامہ پر وزیر اعظم کو نااہل کردیں اور پاناما میں نام ہونے کے باوجود نام نہ ہونے والے نواز شریف کو سزا اور بھٹو کو پھانسی کی سزا دیں تو جھوٹ کیسے ختم ہو سکتا ہے۔