پاکستانی سیاست اور بیوروکریسی کا کردار

tauceeph@gmail.com

پروفیسر حمزہ علوی ایک حقیقی سوشل سائنٹسٹ ہیں۔ انھوں نے انیسویں اور بیسویں صدی میں ہندوستانی سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کیا اور ہندوستان میں چلائی جانے والی تحریکوں کے پس پردہ محرکات کا بغور جائزہ لیا، یوں حمزہ صاحب نے آل انڈیا مسلم لیگ' انڈین نیشنل کانگریس کے پس منظر اور ان جماعتوں میں متحرک قوتوں کے مفادات کا تجزیہ کیا۔

پروفیسر حمزہ علوی نے اپنی تحقیق میں ہندوستان کی سیاسی جماعتوں، بیوروکریسی کے بارے میں جو حقائق پیش کیے ان موضوعات پر تحقیق کرنے والے محققین ان حقائق پر توجہ نہیں دے سکے تھے۔ حمزہ صاحب نے ان موضوعات پر جامع تحقیقی مشاہدات تحریرکیے ہیں۔

ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے سوشیالوجی میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد سول بیوروکریسی کو اپنا کیریئر بنایا مگر مارکسٹ ہونے کی بناء پرنوکری میں ان کا دل نہ لگا اور تدریس و تحقیق کی دنیا میں آگئے۔ ڈاکٹر ریاض شیخ نے حمزہ صاحب کے ریسرچ پیپر کو اردو میں منتقل کیا، یوں پاکستان کے حالات میں ایک کتاب'' پاکستانی سیاست اور نوکر شاہی کا کردار'' مرتب کی۔

معروف دانش ور ڈاکٹر سیدجعفر احمد نے اس کتاب کی تقریب رونمائی میں کہا کہ پروفیسر حمزہ علوی نے 90ء کی دہائی کے آخری برسوں میں یہ پیپر تحریر کیا مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیپر اس سال لکھا گیا۔

مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ حمزہ علوی نے اس مختصر مضمون میں فوج اور نوکرشاہی کی ابتدائی تاریخ کو بیان کیا ہے۔ حمزہ صاحب کا خیال ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ اور سیاست دانوں کے ساتھ ان کے تعلقات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے تاریخی پس منظر میں جا کر ان دونوں کے تعلقات کے قیام اور خصوصاً اس گٹھ جوڑ کے پیمانہ پر حاصل شدہ خودمختاری کو باقاعدہ ادارہ جاتی شکل دے کر باریک بینی سے جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ بیوروکریسی کے طاقتور ہونے کی ایک وجہ انگریز دور میں برطانیہ کی طرف سے عائد کردہ طرزِ حکمرانی جس کے تحت عوام کا اپنے روزمرہ کاموں کے لیے ہروقت سرکاری اہلکاروں سے رابطہ پڑتا تھا۔ مسلم لیگ کی سیاست جوکہ اپنے قیام سے لے کر کم از کم ایک دہائی تک مسلمان اقلیتی صوبوں تک محدود رہی تھی اس میں مسلمان اکثریتی صوبے (موجودہ پاکستان) نظرانداز کیے گئے تھے۔

وہ اب تک مسلمان اقلیتی صوبوں کی تنخواہ دار، پیشہ ور اور جاگیر دار طبقوں تک محدود تھی لیکن پالیسی میں نمایاں تبدیلی مونٹیگو چمس فورڈ اصلاحات کے بعد آئی۔ مسلم لیگ کی سیاست کا محور اقلیتی صوبوں سے (مثلاً یوپی) سے منتقل ہو کر مسلمان اکثریتی صوبوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اس صورتحال میں نمایاں تبدیلی اس وقت آئی جب دوسری جنگ عظیم میں برطانوی سرکار سے برسر اقتدار کانگریس حکومت (جس نے 1937کے انتخابات میں واضح برتری حاصل کر کے ہندوستان کے اکثریتی صوبوں میں حکومت قائم کرلی تھی) سے مشورہ کے بغیر جنگ عظیم میں شمولیت کا اعلان کیا۔

برطانوی حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف احتجاجاً کانگریس نے صوبائی حکومتوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ ہندوستانیوں کو برطانوی سرکار سے عدم تعاون اور خصوصاً فوج میں بھرتی ہونے سے منع کردیا تھا۔ کانگریس کا یہ فیصلہ انتہائی غیر متوقع اور پریشان کردینے والا تھا۔ اس بناء پر انگریز بیرسٹر محمد علی جناح اور مسلم لیگ کے قریب ہوئے۔ مسلم لیگ والے کانگریس کی حکومت سے سخت خفا ہوئے۔

اس مرحلہ پر برطانوی سرکار اور مسلم لیگ نے ایک دوسرے کو رعایتیں دینے کا فیصلہ سوچا۔ برطانیہ کی مجبوری تھی کہ مسلم لیگ برطانیہ کی جنگ میں شمولیت کی حمایت کرے۔

حمزہ علوی مزید لکھتے ہیں کہ 1946 کے انتخابات میں سندھ اور پنجاب کے پیروں اور گدی نشینوں کے لیے مسلم لیگ ن کی حمایت میں واضح کردار کو دیکھتے ہوئے کچھ تاریخ دان غلطی سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ پاکستان کی تحریک کے پس پشت مذہب کام کررہا تھا۔ پیر اور گدی نشین کانگریس کی زرعی اصلاحات کے ایجنڈا سے سخت پریشان تھے۔

کتاب کے باب اول کا عنوان ''پاکستانی سیاست ،فوج اور نوکر شاہی کا کردار ہے۔ حمزہ علوی اس باب میں لکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد نئے وجود میں آنے والے ملک کی سیاسی تاریخ میں فوج اور نوکرشاہی نے ملک کی سیاست میں انتہائی کلیدی کردار ادا کیا۔


اگرچہ 1958میں اس بحرانی کیفیت میں ملک کے سیاست منظرنامہ میں فوج ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی لیکن بیوروکریسی پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی اول دن سے پھر سیاسی منظرنامہ میں سب سے بااثر کردار کے طور پر حاوی تھی۔

بعداز آزادی پہلی دہائی میں پاکستان کی پارلیمانی حکومت پر سول بیوروکریسی مکمل طور پر حاوی تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ حکومت بیوروکریسی کی نامزد کردہ تھی اور اس کے رحم و کرم پر ہی تھی۔

50ء کی دہائی کے اواخر میں متشدد سیاست کا آغاز ہوا اور یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کرائے جائیں۔ اس مطالبہ نے بیوروکریسی کی بالادستی کو خطرہ میں ڈال دیا اور انھوں نے پارلیمانی نظام کو اپنی لپیٹ میںلے کر اقتدار پر براہِ راست قبضہ کرلیا۔

عموماً تصور کیا جاتا تھا کہ ملک کی اقتصادی تباہی کے ذمے داری سیاست دان ہی ہیں، ملک کی ترقی کا کام صرف بیوروکریسی کے ذریعہ ہی ممکن ہوتی ہے۔ حمزہ علوی ایک اور تاریخ دان خالد بن سعید کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ 1951 میں پاکستان کی بیوروکریسی انتہائی طاقتور بن کر ابھری اور بیوروکریسی اتنی طاقتور تھی کہ انگریزوں کے دور میں بھی نہیں تھی۔

قائد اعظم اور ان کے جانشین لیاقت علی خان کی حامی شخصیتوں کے زیرِ سایہ نوکرشاہی نے صوبوں کے انتظامی امور پر گرفت حاصل کرلی۔ جب صنعت کاری کے عمل کا آغاز ہوا تو مختلف علاقوں ،ثقافتوں اور لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کی۔

حمزہ مشرقی پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس وقت مشرقی پاکستان کے کاشت کاروں کی ایک واضح اکثریت کا تعلق چھوٹے کاشت کاروں سے تھا۔ وہاں اوسط زمینی ملکیت ساڑھے 3 ایکڑ پر مشتمل تھی، 51 فیصد کے پاس سوا دو ایکڑ سے کم زمین تھی۔ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی طرز کا نمبردار کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔

وہاں کسان اور حکومت کے درمیان رابطہ کا روایتی رواج نہیں تھا۔ زمیندار جو زیادہ تر ہندو تھے بڑی وسیع زمینوں کے مالک تھے۔ حمزہ علوی لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں جہاں تعلیم یافتہ درمیانہ طبقہ نے دیہی معاشرہ کے لیے روابطہ برقرار رکھے تھے ان کے توسط سے بنگالی زبان کی تحریک کو تقویت حاصل ہوئی۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1954 کے انتخابات میں جگتو فرنٹ نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ حکمراں جماعت مسلم لیگ 309 میں سے 10نشستیں حاصل کرسکی تھی ۔ حمزہ علوی پاکستان کے امریکا سے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان میں امریکی سرمایہ دار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امریکا نے پاکستان میں سرمایہ کاری صنعت کی فروغ کے لیے نہیں کی تھی بلکہ یہ سرمایہ کاری دراصل دفاعی اخراجات کی مد میں تھی۔

ترقیاتی اخراجات حکومت پاکستان نے ہمیشہ خود برداشت کیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد صوبائی سیکریٹریوں نے بھی اپنی پرانی روایات کو نظراندازکرتے ہوئے متعلقہ وزیر کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے فیصلوں کی منظوری گورنر صاحب سے حاصل کرنا شروع کی۔ حمزہ علوی نے آزادی کے بعد اعلیٰ ملازمتوں میں تقرریوں کے طریقہ کار کا بھی تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ بعد از آزادی پاکستانی گورنر جنرل کو لامحدود اختیارات حاصل تھے۔

درحقیقت انڈیا آزادی ایکٹ 1947 کی شق کے تحت عبوری عرصہ کے لیے جس کی مدت سات ماہ تھی گورنر جنرل کلی اختیارات کے مالک تھے۔ گورنر جنرل ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 1935 کے قانون کو بھی تبدیل کرسکتے تھے۔

گورنر جنرل کے ان اختیارات کا خاتمہ 29 مارچ 1948 کو ہونا تھا لیکن اس کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردی گئی۔

وہ لکھتے ہیں کہ یہ پاکستانی سیاست دان تھے جن کو بیوروکریسی کی خدمت کرنی پڑی اور 1958کے بعد جب سیاست دان یہ مقصد پورا کرچکے تو ان کو منظرنامہ سے ہٹادیا گیا۔ حمزہ علوی کے ریسرچ پیپر پر مبنی یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو اس ریاست کے بحران کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔
Load Next Story