اینٹی بائیوٹکس اور انسان دوست جراثیم
ان ادویہ کا غلط استعمال آپ کو بہت سی بیماریوں کا شکار بنا سکتا ہے
انسان کے جسم میں اربوں ننھے منے حیوان... جراثیم، وائرس، فنگی، پروٹوزا وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ سائنسی اصطلاح میں یہ ''خرد نامیات ''(Microorganism)کہلاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد ہمارے خلیوں جتنی ہے۔ جدید سائنس ان ننھے جانداروں کو ایک عضو''(organ)قرار دے چکی۔ وجہ یہی کہ یہ خرد نامیات خصوصاً انسان دوست جراثیم ہماری جسمانی و ذہنی صحت برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مثال کے طور پہ جب کوئی صحت دشمن جرثومہ یا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو جائے تو یہی ننھے جاندار پہلے پہل اسے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دورا ن وہ ہمارے مدافعتی نظام کے خلیوں کو بھی ہوشیار خبردار کر دیتے ہیں۔
یوں خلیے حملہ آور کو مارنے دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ جاندار کھائی گئی غذا ہضم کرنے میں ہماری بھرپور مدد کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم فعل ہے کیونکہ اسی کے ذریعے انسانی خلیے توانائی، وٹامن، معدنیات اور دیگر غذائیات (Nutrients) پاتے اور خود کو کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
انسانی بدن میں نظام ہاضمہ (حلق کی نالی، معدہ اور آنتیں)، منہ، جلد، اعضائے تناسل اور پھیپھڑے انسان دوست جراثیم کی آماج گاہیں ہیں۔ ان میں اہم ترین نظام ہاضمہ اور منہ ہیں جہاں جراثیم کی دس ہزار سے زائد اقسام کے اربوں ارکان پائے جاتے ہیں۔ یہ سبھی غذا ہضم کرنے میں اپنی ذمے داری انجام دیتے اور یوں انسان کو تندرست وتوانا رکھتے ہیں۔
ماہرین کی رو سے انسانی جسم میں پائے جانے والے 99 فیصد جراثیم ہمارے دوست ہیں۔ یعنی وہ طبی طور پہ انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ جبکہ 1 فیصد جراثیم انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
ناقص غذا، خراب طرز ِزندگی، دھوئیں سے پُر فضا اور بعض دیگر منفی عوامل انسانی بدن میں صحت دشمن جراثیم کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔ اس باعث انسان زیادہ آسانی سے ان کی پیدا کردہ بیماریوں کا نشانہ بننے لگتا ہے۔
سائنسی تحقیق وتجربات سے دریافت ہوا ہے کہ جراثیم کی تخلیق کردہ بیماریوں کا قلع قمع کرنے والی مخصوص ادویہ ... اینٹی بائیوٹکس بھی انسان دوست جراثیم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ وجہ یہ کہ یہ ادویہ اچھے اور بُرے جراثیم کے درمیان تمیز نہیں کرتیں اور جب کھائی جائیں تو سبھی کا صفایا کر ڈالتی ہیں۔
انسان پچھلی ایک صدی سے اینٹی بائیوٹکس ادویہ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی مدد سے کروڑوں انسانوں کی جانیں بچائی جا چکیں۔ یہ ادویہ مگر دو نمایاں منفی اثرات بھی رکھتی ہیں۔ اول یہی کہ وہ نظام ہاضمہ میں داخل ہو کر وہاں بستے انسان دوست جراثیم بھی مار دیتی ہیں۔ دوم یہ کہ وہ بچ جانے والے صحت دشمن جراثیم کی اولاد میں مدافعت پیدا کر دیتی ہیں۔
مطلب یہ کہ جراثیم کی اولاد قدرتی ارتقائی عمل سے گذر کر اپنے اندر ایسے جین پیدا کر لیتی ہے جنھیں اینٹی بائیوٹک دوا مار نہیں پاتی۔ یوں وہ دوا بے اثر ہو کر ان کے خلاف ناکارہ ہو جاتی ہے۔
گویا یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو اینٹی بائیوٹکس ادویہ ہر سال لاکھوں انسانوں کی قیمتی زندگیاں بچاتی ہیں، وہی اب نظام ہاضمہ کے باسی انسان دوست جراثیم کو مار کر کروڑوں انسانوں کی صحت خراب کر رہی ہیں۔یہ عجوبہ جنم لینے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اینٹی بائیوٹکس ادویہ پہلے کی نسبت زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں۔
پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ ہمارے ملک کے گلی کوچوں میں کھلے میڈیکل اسٹوروں میں اینٹی بائیوٹکس ادویہ عام دستیاب ہیں۔ ہر کوئی انھیں آسانی سے خرید لیتا ہے۔ آسانی سے میسّر آ جانے کے باعث ہی طبعیت ذرا سی خراب ہو تو اینٹی بائیوٹک دوا کھا لی جاتی ہے۔
اس چلن کی وجہ سے کئی اینٹی بائیوٹکس بیکار ہو چکیں کیونکہ زیادہ استعمال کے باعث صحت دشمن جراثیم میں ان کے خلاف مدافعت نے جنم لے لیا۔ لہٰذا اب یہ ادویہ جراثیم کی کئی اقسام پہ اثر نہیں کرتیں اور وہ بیماریاں پھیلا کر کروڑوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
نئے قسم کی انسان دشمن جراثیم ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹکس ادویہ کی نئی قسمیں تیار کی جائیں تاکہ وہ دشمنوں کے خلاف موثر ثابت ہوں۔ مگر ایک نئی اینٹی بائیوٹک دوا تیار کرنا بڑا مہنگا اور طویل عمل ہے۔ اس کی تشکیل میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اسی لیے بیشتر ادویہ ساز کمپنیاں اینٹی بائیوٹکس بنانے سے کتراتی ہیں۔
جب ایک جنگل صاف کرنا ہو تو مشینیں چلا کر سارے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک اینٹی بائیوٹک انسانی معدے میں پہنچے تو وہ وہاں بستے تمام جراثیم ہلاک کر ڈالتی ہے۔ یہ ان ادویہ کا آج سب سے بڑا نقصان بن چکا۔ ماضی میں طبی سائنس داں خصوصاً نہیں جانتے تھے کہ ہمارے نظام ہاضمہ کے جراثیم کئی انسان دوست سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔
اسی لیے وہ یہ بھی نہ جان پاتے کہ بہت سے مردو زن اینٹی بائیوٹکس کھانے کے بعد معدے کے مسائل کا کیوں نشانہ بن جاتے ہیں۔ اب جدید تحقیق و تجربات نے افشا کیا ہے کہ نظام ہاضمہ کے اچھے جراثیم چل بسیں تو انسان مختلف امراض میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
اسی لیے ماہرین طب اب ایسی اینٹی بائیوٹکس ادویہ ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو صرف بُرے اور بیماریاں جنم دینے والے جراثیم کو ٹارگٹ کریں۔ انسان دوست جرثوموں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں۔ اگر ایسی ادویہ تیار ہو گئیں تو یہ انسان کا ایک اور اہم کارنامہ ہو گا۔
حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ نظام ہاضمہ کے جراثیم انسانی جذبات و احساسات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ معنی یہ کہ اگر انسان دوست جراثیم کی حالت خراب ہے تو لامحالہ انسان بھی خود کو پژمردہ، مایوس اور ناامید محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن جراثیم کی حالت اچھی ہے تو انسان پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ خود کو تازہ دم، پُرامید اور متحرک پاتا ہے۔
ماہرین طب کہتے ہیں کہ ہمارے نظام ہاضمہ میں اچھے جراثیم کی جتنی زیادہ اقسام ہوں ، اتنا ہی صحت کے لیے اچھا ہے۔ ان کی مدد سے انسان تندرست اور امراض سے دور رہتا ہے۔ یہ اقسام بڑھانے کے لیے تازہ سبزیاں، پھل، اناج اور دہی کھائیے۔ مزید براں اینٹی بائیوٹکس صرف اشد ضرورت کے وقت استعمال کیجیے۔ انھیں بے وجہ نہ لیں کہ یہ انسان دوست خردنامیات کی سب سے بڑی دشمن بن چکیں۔ انھیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق استعمال کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد ہمارے خلیوں جتنی ہے۔ جدید سائنس ان ننھے جانداروں کو ایک عضو''(organ)قرار دے چکی۔ وجہ یہی کہ یہ خرد نامیات خصوصاً انسان دوست جراثیم ہماری جسمانی و ذہنی صحت برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مثال کے طور پہ جب کوئی صحت دشمن جرثومہ یا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو جائے تو یہی ننھے جاندار پہلے پہل اسے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دورا ن وہ ہمارے مدافعتی نظام کے خلیوں کو بھی ہوشیار خبردار کر دیتے ہیں۔
یوں خلیے حملہ آور کو مارنے دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ جاندار کھائی گئی غذا ہضم کرنے میں ہماری بھرپور مدد کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم فعل ہے کیونکہ اسی کے ذریعے انسانی خلیے توانائی، وٹامن، معدنیات اور دیگر غذائیات (Nutrients) پاتے اور خود کو کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
انسانی بدن میں نظام ہاضمہ (حلق کی نالی، معدہ اور آنتیں)، منہ، جلد، اعضائے تناسل اور پھیپھڑے انسان دوست جراثیم کی آماج گاہیں ہیں۔ ان میں اہم ترین نظام ہاضمہ اور منہ ہیں جہاں جراثیم کی دس ہزار سے زائد اقسام کے اربوں ارکان پائے جاتے ہیں۔ یہ سبھی غذا ہضم کرنے میں اپنی ذمے داری انجام دیتے اور یوں انسان کو تندرست وتوانا رکھتے ہیں۔
ماہرین کی رو سے انسانی جسم میں پائے جانے والے 99 فیصد جراثیم ہمارے دوست ہیں۔ یعنی وہ طبی طور پہ انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ جبکہ 1 فیصد جراثیم انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
ناقص غذا، خراب طرز ِزندگی، دھوئیں سے پُر فضا اور بعض دیگر منفی عوامل انسانی بدن میں صحت دشمن جراثیم کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔ اس باعث انسان زیادہ آسانی سے ان کی پیدا کردہ بیماریوں کا نشانہ بننے لگتا ہے۔
سائنسی تحقیق وتجربات سے دریافت ہوا ہے کہ جراثیم کی تخلیق کردہ بیماریوں کا قلع قمع کرنے والی مخصوص ادویہ ... اینٹی بائیوٹکس بھی انسان دوست جراثیم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ وجہ یہ کہ یہ ادویہ اچھے اور بُرے جراثیم کے درمیان تمیز نہیں کرتیں اور جب کھائی جائیں تو سبھی کا صفایا کر ڈالتی ہیں۔
انسان پچھلی ایک صدی سے اینٹی بائیوٹکس ادویہ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی مدد سے کروڑوں انسانوں کی جانیں بچائی جا چکیں۔ یہ ادویہ مگر دو نمایاں منفی اثرات بھی رکھتی ہیں۔ اول یہی کہ وہ نظام ہاضمہ میں داخل ہو کر وہاں بستے انسان دوست جراثیم بھی مار دیتی ہیں۔ دوم یہ کہ وہ بچ جانے والے صحت دشمن جراثیم کی اولاد میں مدافعت پیدا کر دیتی ہیں۔
مطلب یہ کہ جراثیم کی اولاد قدرتی ارتقائی عمل سے گذر کر اپنے اندر ایسے جین پیدا کر لیتی ہے جنھیں اینٹی بائیوٹک دوا مار نہیں پاتی۔ یوں وہ دوا بے اثر ہو کر ان کے خلاف ناکارہ ہو جاتی ہے۔
گویا یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو اینٹی بائیوٹکس ادویہ ہر سال لاکھوں انسانوں کی قیمتی زندگیاں بچاتی ہیں، وہی اب نظام ہاضمہ کے باسی انسان دوست جراثیم کو مار کر کروڑوں انسانوں کی صحت خراب کر رہی ہیں۔یہ عجوبہ جنم لینے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اینٹی بائیوٹکس ادویہ پہلے کی نسبت زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں۔
پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ ہمارے ملک کے گلی کوچوں میں کھلے میڈیکل اسٹوروں میں اینٹی بائیوٹکس ادویہ عام دستیاب ہیں۔ ہر کوئی انھیں آسانی سے خرید لیتا ہے۔ آسانی سے میسّر آ جانے کے باعث ہی طبعیت ذرا سی خراب ہو تو اینٹی بائیوٹک دوا کھا لی جاتی ہے۔
اس چلن کی وجہ سے کئی اینٹی بائیوٹکس بیکار ہو چکیں کیونکہ زیادہ استعمال کے باعث صحت دشمن جراثیم میں ان کے خلاف مدافعت نے جنم لے لیا۔ لہٰذا اب یہ ادویہ جراثیم کی کئی اقسام پہ اثر نہیں کرتیں اور وہ بیماریاں پھیلا کر کروڑوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
نئے قسم کی انسان دشمن جراثیم ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹکس ادویہ کی نئی قسمیں تیار کی جائیں تاکہ وہ دشمنوں کے خلاف موثر ثابت ہوں۔ مگر ایک نئی اینٹی بائیوٹک دوا تیار کرنا بڑا مہنگا اور طویل عمل ہے۔ اس کی تشکیل میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اسی لیے بیشتر ادویہ ساز کمپنیاں اینٹی بائیوٹکس بنانے سے کتراتی ہیں۔
جب ایک جنگل صاف کرنا ہو تو مشینیں چلا کر سارے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک اینٹی بائیوٹک انسانی معدے میں پہنچے تو وہ وہاں بستے تمام جراثیم ہلاک کر ڈالتی ہے۔ یہ ان ادویہ کا آج سب سے بڑا نقصان بن چکا۔ ماضی میں طبی سائنس داں خصوصاً نہیں جانتے تھے کہ ہمارے نظام ہاضمہ کے جراثیم کئی انسان دوست سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔
اسی لیے وہ یہ بھی نہ جان پاتے کہ بہت سے مردو زن اینٹی بائیوٹکس کھانے کے بعد معدے کے مسائل کا کیوں نشانہ بن جاتے ہیں۔ اب جدید تحقیق و تجربات نے افشا کیا ہے کہ نظام ہاضمہ کے اچھے جراثیم چل بسیں تو انسان مختلف امراض میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
اسی لیے ماہرین طب اب ایسی اینٹی بائیوٹکس ادویہ ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو صرف بُرے اور بیماریاں جنم دینے والے جراثیم کو ٹارگٹ کریں۔ انسان دوست جرثوموں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں۔ اگر ایسی ادویہ تیار ہو گئیں تو یہ انسان کا ایک اور اہم کارنامہ ہو گا۔
حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ نظام ہاضمہ کے جراثیم انسانی جذبات و احساسات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ معنی یہ کہ اگر انسان دوست جراثیم کی حالت خراب ہے تو لامحالہ انسان بھی خود کو پژمردہ، مایوس اور ناامید محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن جراثیم کی حالت اچھی ہے تو انسان پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ خود کو تازہ دم، پُرامید اور متحرک پاتا ہے۔
ماہرین طب کہتے ہیں کہ ہمارے نظام ہاضمہ میں اچھے جراثیم کی جتنی زیادہ اقسام ہوں ، اتنا ہی صحت کے لیے اچھا ہے۔ ان کی مدد سے انسان تندرست اور امراض سے دور رہتا ہے۔ یہ اقسام بڑھانے کے لیے تازہ سبزیاں، پھل، اناج اور دہی کھائیے۔ مزید براں اینٹی بائیوٹکس صرف اشد ضرورت کے وقت استعمال کیجیے۔ انھیں بے وجہ نہ لیں کہ یہ انسان دوست خردنامیات کی سب سے بڑی دشمن بن چکیں۔ انھیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق استعمال کریں۔