نئے بایوپروٹونِک سسٹم سے امراض کی شناخت مزید آسان
اس سسٹم میں حیاتیاتی نظام اور برقی نظام کے امتزاج سے بیماریوں کی شناخت تیز اور درست ترین ہوسکتی ہے
ہم جانتے ہیں کہ جسم کے اندر خلیات (سیلز) برقی سگنل اور آئن خارج کرکے اپنی خیریت یا بیماری کی اطلاع دیتےہیں۔ لیکن اب ماہرین نے اب ایک بالکل نیا بایوپروٹونک سسٹم بنایا ہے جو زندہ خلیات کی خبر لے کر ان کے تندرست اور بیمار ہونے کا پتہ دے سکتےہیں۔
جامعہ کیلیفورنیا سانٹا کروز نے کے سائنسدانوں نے ایک 'بایوپروٹونک' آلہ بنایا ہے جو برقی اور حیاتیاتی نظام کو آپس میں جوڑتا ہے۔ یہ خلوی سطح کی برقی سرگرمی کو نوٹ کرکے انسانی بیماریوں کا پتا لگاسکتےہیں۔ اس اہم کام کی تفصیلات نیچر کمیونکیشن میں شائع ہوئی ہے۔
خلیات ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں اور خود سے باہر بھی سگنل بھیجتے رہتے ہیں۔ اب جامعہ کیلیفورنیا کے مارکو رولینڈی اور ان کے ساتھیوں نے ایم آئی ٹی کے اشتراک سے یہ اہم آلہ تیار کیا ہے۔ درحقیقت یہ ایک مصنوعی آئن چینل (چارج شدہ ذرات کے بہاؤ کے راستے والا نظام) ہے جسے حسبِ ضرورت سیٹ کیا جاسکتا ہے۔
اس تکنیک کا ایک اور نام ہے جسے ڈی این اے اوریگامی کہا گیا ہے۔ اس میں ڈی این اے کا ایک ریشہ لے کر اسے جینیاتی انجینیئرنگ سے گزار کر اس قابل بنایا ہے اس میں پروٹون (ایچ پلس) گزرکرآسکیں۔ ایک طرح سے یہ قدرتی خلوی راہ گزر کا کام کرتا ہے جس میں آئن گزرتے رہتے ہیں۔
اس طرح یہ بایوسینسر بن جاتا ہے جو پروٹون سگنل کو برقی اشاروں میں ترجمہ کرتا ہے جسے سائنسداں پڑھ سکتے ہیں۔ تجرباتی طور پر اس نے جسم میں بی ٹائپ نیٹری یوریٹک پیپٹائڈ شناخت کیا جو امراضِ قلب میں عام پایا جاتا ہے۔ یوں اسے کئی بیماریوں کی شناخت میں کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جامعہ کیلیفورنیا سانٹا کروز نے کے سائنسدانوں نے ایک 'بایوپروٹونک' آلہ بنایا ہے جو برقی اور حیاتیاتی نظام کو آپس میں جوڑتا ہے۔ یہ خلوی سطح کی برقی سرگرمی کو نوٹ کرکے انسانی بیماریوں کا پتا لگاسکتےہیں۔ اس اہم کام کی تفصیلات نیچر کمیونکیشن میں شائع ہوئی ہے۔
خلیات ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں اور خود سے باہر بھی سگنل بھیجتے رہتے ہیں۔ اب جامعہ کیلیفورنیا کے مارکو رولینڈی اور ان کے ساتھیوں نے ایم آئی ٹی کے اشتراک سے یہ اہم آلہ تیار کیا ہے۔ درحقیقت یہ ایک مصنوعی آئن چینل (چارج شدہ ذرات کے بہاؤ کے راستے والا نظام) ہے جسے حسبِ ضرورت سیٹ کیا جاسکتا ہے۔
اس تکنیک کا ایک اور نام ہے جسے ڈی این اے اوریگامی کہا گیا ہے۔ اس میں ڈی این اے کا ایک ریشہ لے کر اسے جینیاتی انجینیئرنگ سے گزار کر اس قابل بنایا ہے اس میں پروٹون (ایچ پلس) گزرکرآسکیں۔ ایک طرح سے یہ قدرتی خلوی راہ گزر کا کام کرتا ہے جس میں آئن گزرتے رہتے ہیں۔
اس طرح یہ بایوسینسر بن جاتا ہے جو پروٹون سگنل کو برقی اشاروں میں ترجمہ کرتا ہے جسے سائنسداں پڑھ سکتے ہیں۔ تجرباتی طور پر اس نے جسم میں بی ٹائپ نیٹری یوریٹک پیپٹائڈ شناخت کیا جو امراضِ قلب میں عام پایا جاتا ہے۔ یوں اسے کئی بیماریوں کی شناخت میں کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔