اصحابِ رسول کریم ﷺعقیدۂ ختم نبوتؐ  کی وجدانی دلیل

آپ ﷺ کو حق تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے مبعوث فرمایا اس کا ذکر خیر بھی قرآن حکیم میں موجود ہے


آپ ﷺ کو حق تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے مبعوث فرمایا اس کا ذکر خیر بھی قرآن حکیم میں موجود ہے۔ فوٹو : فائل

انبیائے کرامؑ کو دنیا میں حق تعالیٰ شانہ اُس وقت مبعوث فرماتے ہیں، جب ارض الٰہی کفر، شرک، بدعات، غلیظ رسوم و رواج کی آماج گاہ بن چکی ہوتی ہے۔

جب مسجودِ ملائکہ حضرت ِانسان اخلاقی پستی اور گم راہی کی دَلدَل میں بُری طرح پھنس چکا ہوتا ہے۔ جب عقل و شعور پر آباء و اجداد کی اندھی پیروی سبقت لے جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے آخری کلام مقدس نے ان کی اس بات کو یو ں بیان کیا ہے۔

مفہوم: ''جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کتاب اﷲ نے نازل فرمائی ہے، اس کی پیروی کرو، تو کہتے ہیں کہ ہم اس کی پیروی کریں گے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، بھلا اگرچہ شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو تب بھی۔ ''

(سورۃ لقمان: ترجمہ: مولانا فتح محمد جالندھریؒ)

جب انسانیت تفکر و تدبر کے بہ جائے حیوان ناطق بن جائے، اور رٹی رٹائی پر مستعد ہوجائے۔ جب ہر طرف ظلمات ِکفر پھیل چکا ہو۔ گ

ویا انسانیت جاں بہ لب ہو، ایسے وقت میں حق تعالیٰ شانہ اپنے بندوں پر شفقت فرماتے ہیں، اور انسانیت سے اپنا ایک نمائندہ منتخب فرماتے ہیں، جو اُس سیاہ تاریکی میں نور ِہدایت لے کر انسانیت کو کفر، شرک، گم راہی، ظلم، بدعات غلط رسوم و رواج کی سیاہ شب سے نکالنے کی سعی کرتا ہے۔

انبیائے کرامؑ پر ہر ادوار میں کلمۃ الحق کہنے کی پاداش میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اُن مقدس ہستیوں کو مصائب کی اندھی وادیوں میں دھکیلا گیا۔

ان نفوس قدسیہ پر مشکلات کے کالے بادل چھائے رہتے، ان کی راہوں میں کانٹے بچھائے جاتے۔ لیکن ان سب مشکلات و مصائب کو خندہ پیشانی سے برادشت کرکے انبیائے کرامؑ اپنی قوم کو '' امر بالمعروف و نہی عن المنکر '' کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ انبیائے کرام ؑ میں ''اخلاص فی الدین'' کی نعمت بہ درجہ اتم موجود ہوتی ہے، اور حق جل مجدہ اُنہیں اخلاص فی الدین کے ساتھ '' استقامت علیٰ الدین'' کی نعمت سے بھی نوازتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث اور تاریخ انبیاء میں دیکھتے ہیں کہ کسی بھی آزمائش پر ان کے پائے استقامت میں ذرا سی لغزش واقع نہیں ہوتی، وہ عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، وہ رخصت کی ڈگر پہ نہیں چلتے، انبیا ئے کرام ؑ استقامت کی عملی تفسیر و تصویر ہوتے ہیں۔

ایسے ہی جب مکہ مکرمہ میں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا، تو جیسے ہی اعلائے کلمۃ الحق کی صدا بلند ہوئی، گویا ایک شورش بپا ہوگئی۔

پورے مکہ میں ایک کہرام مچ گیا۔ مخالفتوں کے طوفان امنڈ آئے، کل تک جو لوگ ''صادق و امین '' کے لقب سے پکارتے تھے، آج وہی دشنام پر اتر آئے، بل کہ جوں جوں دعوت حق کا پیغام بڑھتا گیا، ویسے ویسے مخالفتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔

اولاً لالچ زر و زن دیا گیا، جب یہ طریقہ کارآمد ثابت نہ ہوا ، تو دھمکیاں دی گئیں۔ حتیٰ کہ جناب ابوطالب جو آپؐ کے اس وقت سرپرست تھے۔ انہوں نے بھی کفار کی دھمکیوں کی وجہ سے اور آپؐ کی محبت کی بنا پر آپؐ کو سمجھایا۔ لیکن حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح لفظوں میں فرمایا: ''چچا جان! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند رکھ دیں، تب بھی میں پیغام الٰہی دوسروں تک پہنچانا نہیں چھوڑوں گا۔''

اس واضح اور دوٹوک جواب کو سن کر جناب ابوطالب نے کہا: ''بھتیجے! اگر یہ بات ہے، تو تم اپنا کام کرو، جب تک میں زندہ ہوں تم تک کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا۔'' اِدھر پیغام الٰہی کی نشر و اشاعت کا سلسلہ بڑھ رہا تھا۔ اُدھر کفار مکہ سختیوں پر اُتر آئے، ان میں شدت بڑھتی جارہی ہے، کبھی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے، کبھی نماز کی حالت میں ستایا جارہا ہے، کبھی کلام حق کو کلام مجنون، ساحرانہ شعبدہ بازی، اثر جنات کہہ کر اس کا استہزاء کیا جا رہا ہے۔

کلام الہٰی نے کفار کا قول نقل کیا ہے، سورۃ الانبیاء میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''بل کہ ظالم کہنے لگے کہ یہ قرآن پریشان باتیں ہیں، بل کہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے نہیں بل کہ یہ ایک شاعر ہے۔'' (ترجمہ : مولانا فتح محمد جالندھریؒ)

٭ حضور ﷺ کی بعثت کے مقاصد:

آپ ﷺ کو حق تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے مبعوث فرمایا اس کا ذکر خیر بھی قرآن حکیم میں موجود ہے۔ سورۃ الجمعہ میں فرمان باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ''وہی (اﷲ ) جس نے مبعوث فرمایا اُمّیوں میں ایک رسول (ﷺ) انہی میں سے جو پڑھ کر سناتا ہے انہیں اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے ان (کے دِلوں) کو اور سکھاتا ہے انہیں کتاب اور حکمت، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گم راہی میں تھے۔'' ( ترجمہ: پیر کرم شاہ الازہریؒ)

اس آیت الٰہیہ میں حق تعالیٰ حضور ﷺ کے تین مقاصد بیان فرمائے۔

٭ مومنین صادقین (حضرات صحابہ کرام ؓ ) کو آیاتِ الٰہیہ (قرآن مجید) کی تعلیم دینا۔

٭ مومنین صادقین (حضرات صحابہ کرامؓ )کا تزکیہ کرنا۔ (یعنی انہیں پاک کرنا)

٭ مومنین صادقین (حضرات صحابہ کرامؓ ) کو کتاب اور دانائی سکھانا۔

حضور سرور دو عالم ﷺ کی بعثت کے یہ تین وہ عظیم مقاصد تھے۔ جن کی وجہ سے حضور ﷺ کو حق جل مجدہ نے مبعوث فرمایا۔

اس آیت کے ذیل مفسّرین کی آراء بھی ملاحظہ فرمائیے۔

مفتی شفیع عثمانی ؒ تحریر فرماتے ہیں: ''اس آیت میں حق تعالیٰ کی عظیم قدرت کے اظہار کے لیے خاص طور پر عربوں کے لیے یہ لقب اختیار فرمایا، اور یہ بھی کہ جو رسول بھیجا گیا، وہ بھی انہی میں سے ہے، یعنی اُمیّ ہے۔ اس لیے یہ معاملہ بڑا حیرت انگیز ہے، کہ قوم ساری اُمیّ اور جو رسول بھیجا گیا، وہ بھی اُمیّ اور جو فرائض اس رسول کے سپرد کیے گئے، جن کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔

وہ سب علمی، تعلیمی، اصلاحی ایسے ہیں کہ نہ کوئی اُمیّ ان کو سکھا سکتا ہے۔ اور نہ اُمیّ قوم ان کو سیکھنے کے قابل ہے۔ یہ صرف حق جل شانہ کی قدرت کاملہ سے رسول اﷲ ﷺ کا اعجاز ہی ہوسکتا ہے، کہ آپؐ نے جب تعلیم و اصلاح کا کام شروع فرمایا، تو انہی اُمّیین میں وہ علماء اور حکماء پیدا ہوگئے، جن کے علم و حکمت ، عقل و دانش اور ہر کام کی عمدہ صلاحیت نے سارے جہان سے اپنا لوہا منوالیا۔''

(معارف القرآن)

حضور نبی آخرالزماں ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو قرآن حکیم کی کامل تعلیم دی۔ ان کے دلوں کو ہر قسم کی آلائش رسم و رواج سے خوب پاک کیا۔ اور علم کتاب و حکمت عطا فرمایا۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کے قابل ہے، کہ نبی دنیا میں کسی کا شاگرد نہیں ہوتا اور وہ کسی بھی شخص سے تعلیم حاصل نہیں کرتا وہ صرف اﷲ تعالیٰ سے علم پاکر اس کی مخلوق میں وہ پیغام الٰہی پہنچاتا ہے۔

اور دنیا میں کسی سے علم حاصل نہ کرنے میں حکمت یہ ہے کہ استاد اپنے شاگرد سے افضل ہوتا ہے، جب کہ نبی اپنے وقت میں تمام مخلوق سے افضل ہوتا ہے۔ تو نبی کریم ﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے علم پاکر اپنے صحابہ کرامؓ کو دیا، اور کوئی چیز جو حق تعالیٰ نے آپؐ کو عطا فرمائی، نہیں چھپائی پھر حجۃ الوداع پر آپؐ نے فرمایا: ''کیا میں نے تمہیں پیغام ِ الٰہی پہنچا دیا۔ حضرات ِصحابہ ؓ نے یک آواز میں جواب دیا: ''یا رسول اﷲ ﷺ! پہنچا نہیں دیا بل کہ پہنچانے کا حق ادا کردیا۔''

٭ عقیدۂ ختم نبوت وجدانی دلیل:

حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ کیا میں نے تم تک پیغام الہٰی پہنچا دیا ہے اصحاب رسول ؐ نے بہ یک زبان کہا: یا رسول اﷲ ﷺ! آپ ؐ نے پہنچا نہیں دیا بل کہ پہنچانے کا حق ادا کردیا ہے تو پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اب غائبین تک تم پہنچاؤ۔'' ادھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے ذمے ڈیوٹی لگائی ادھر اعلان حق ہُوا: ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے ) پسند کرلیا۔'' (سورۃ المائدۃ، ترجمہ: مفتی تقی عثمانی)

صحابہ کرام ؓ کے بارے میں مزید نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرمایا: ''ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔'' (سورۃ آل عمران) آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرات اصحاب رسول رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد پیغام نبوت ﷺ کو عام کرنا تھا۔ اور جانشین رسالت مآب ﷺ کا کردار ادا کرنا تھا، اس لیے پروردِگار ِ عالم نے ان کی تربیت خود بھی فرمائی اور اپنے پاک پیغمبر ﷺ سے بھی کروائی۔

کیوں کہ جس طرح نبوت کسبی منصب نہیں ہے اسی طرح صحابیت بھی کسبی منصب نہیں ہے۔ جس طرح نبوت وہبی منصب ہے اسی طرح صحابیت بھی وہبی منصب ہے۔ جس طرح حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اسی طرح حضور اکرم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کے بعد کسی کو منصب ِ صحابیت بھی تفویض نہیں کیا جائے گا ۔

تو معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی شخصیات حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کی ایک وجدانی دلیل ہے۔ اور جو کوئی اصحاب رسول ﷺ کا پیرو ہوگا اُس کا عقیدۂ ختم نبوت بھی صحابہ کرامؓ کی طرح پختہ ہوگا، کیوں کہ اصحاب رسول ﷺ سے دو سو دس احادیث اسلام کے عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں مروی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں