حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
امریکا میں کوئی بھی مرد کسی لڑکی کو ہراساں نہیں کر سکتا، اگر ایسا ہو تو لڑکی فوراً پولیس کو بلا لیتی ہے
نجی ٹی وی چینلز 'انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا آنے کے بعد ہمارا معاشرہ کس سمت میں جا رہا ہے، اس کا احساس صرف ان لوگوں کو ہے جو روایتوں کے امین ہیں، سوسائٹی کی نبض پہ ہاتھ رکھتے ہیں، باشعور اور سمجھ دار ہیں، بہاولپور یونیورسٹی کا سانحہ سب کو پتا ہے، لیکن یہ سانحہ صرف بہاولپور یونیورسٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر اس ادارے میں خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے جہاں عورت اور مرد ساتھ کام کرتے ہیں۔
جہاں تک ٹی وی ڈراموں کے موضوعات کا تعلق ہے تو صرف لڑکے اور لڑکی کے درمیان عشق کا چکر چلتا ہے۔ کسی بھی چینل کا کوئی بھی ڈرامہ اٹھا کر دیکھ لیں، وہی فرسودہ رومانس کے قصے، کوئی سبق آموز ڈرامہ آن ایئر نہیں جاتا، دو لڑکے کسی ایک ہی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہیں، یا دو لڑکیاں کسی ایک کے پیچھے پاگل ہو رہی ہیں۔
اداکارائیں وہی کرتی ہیں جو پروڈیوسر اور ڈائریکٹر چاہتے ہیں۔ اگر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی ''بات'' نہ مانی جائے تو کسی اداکارہ کا چہرہ اسکرین پہ نظر نہ آئے، کالج اور یونیورسٹی کا جو ماحول دکھایا جاتا ہے اس سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں صرف رومانس لڑانے تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں کو اخلاقی تربیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اساتذہ اور طلبا و طالبات کا رشتہ روحانی اور تہذیبی ہوا کرتا تھا، لیکن جب سے ڈھیروں ٹی وی چینلز سوسائٹی پر حملہ آور ہوئے ہیں، تب سے کچھ تعلیمی ادارے اخلاقی حدود کی گراوٹ کا شکار ہوگئے ہیں، گومل یونیورسٹی کا واقعہ بھی زیادہ پرانا نہیں، لیکن اس بدبخت باریش پروفیسر کو تو نوکری سے نہیں نکالا گیا، ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں پسماندگی اور جہالت دونوں کا زور ہے۔
غریب گھروں کی لڑکیاں بہک جاتی ہیں یا انھیں ٹریپ کر لیا جاتا ہے، لڑکیاں جب ٹریپ ہوتی ہیں تو بار بار ہوتی ہیں۔ انھیں یہ نہیں سوجھتا کہ وہ اپنے والدین سے بات کریں اور انھیں اعتماد میں لے کر اپنا مسئلہ بتائیں لیکن لڑکیاں ڈر جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔اس عذاب سے چھٹکارے کے لیے حکومت کو نوٹس لینا چاہیے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی کلاسز علیحدہ علیحدہ ہونی چاہئیں، طالبات کو صرف خواتین اساتذہ پڑھائیں۔
فی الوقت کالجز اور یونیورسٹی کو علیحدہ کرنا تو ممکن نہیں۔ البتہ کلاس رومز اور اساتذہ کا تقرر جلد ہو سکتا ہے۔ گورنمنٹ کالجوں میں تو شکر ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے کالجز علیحدہ علیحدہ ہیں، لیکن پرائیویٹ کالجز میں کو ایجوکیشن ہے اگر پہلی فرصت میں یونیورسٹیوں میں الگ الگ کلاسیں شروع کردی جائیں تو ایک نئے سانحے کے وقوع پذیر ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔
بہاولپور یونیورسٹی میں ''سب کچھ'' دس سال سے ہو رہا تھا، لیکن قدرت کی ستم ظریفی کے سب کچھ سامنے آگیا۔ڈراموں میں جو ماحول دکھایا جا رہا ہے اس سے لڑکیاں خاص کر غریب لڑکیاں آنکھوں میں خواب سجا لیتی ہیں، جس ڈرامے کو دیکھیے عالی شان محلات، گاڑیاں، نوکر چاکر اور عیش و عشرت کے تمام سامان، جنھیں دیکھ کر اس ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی احساس محرومی کا شکار ہو جاتی ہے۔
جن کی تربیت اچھی ہے اور جن کا ایمان مضبوط ہے، وہ ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ لیکن لڑکیوں کی اکثریت ان آسائشات کو اپنی زندگی کا محور بنا لیتی ہے۔ دولت کمانے کے ہر ذریعے کو وہ آزماتی ہیں اور پھر عیاش امیر زادوں اور بارسوخ کرپٹ لوگوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں یوٹیوب پر ایک واقعہ رپورٹ ہوا، یہ بھی جنسی ہراسانی کا کیس تھا۔
کسی بینک میں ایک خوبصورت لڑکی کام کرتی تھی، وہاں آنے والے کسٹمرز میں ایک امیر شخص بھی شامل تھا، جو بینک آتے ہی اس لڑکی کی ٹیبل پر جا بیٹھتا اور ادھر ادھر کی باتیں کرتا، لڑکی اس صورت حال سے گھبرا گئی، اس نے بینک منیجر سے شکایت کی تو انھوں نے اس لڑکی کی جگہ بدل دی، لیکن اسے حیرت ہوئی جب ایک ہی دن کے بعد وہ شخص اس لڑکی تک پہنچ گیا اور اس سے کہا کہ ''وہ ایک بڑا بزنس مین ہے، اگر وہ لڑکی چاہے تو وہ اس کا آفس جوائن کر سکتی ہے۔ وہ اسے بینک کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تنخواہ دے گا۔''
اس نے اس لڑکی کو دو دن کا ٹائم دیا تھا، تیسرے دن اس نے جواب لینے آنا تھا۔ اس شخص کے جانے کے بعد اس لڑکی نے بینک کی تنخواہ اور اس امیر آدمی کی پیشکش کا موازنہ کیا اور فیصلہ کر لیا، تیسرے دن وہ شخص آیا اور لڑکی نے بینک کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ جب اس لڑکی نے اس شخص کا آفس جوائن کیا تو اس کی ذمے داری صرف یہ تھی کہ اس شخص کو جوکہ کمپنی کا مالک تھا، اس کے لیے چائے بنانا اور پلانا اور اس کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔
اس عرصے میں اس کمپنی نے وہاں کے ملازمین کے لیے مختلف کورسز کروائے، لیکن اس لڑکی نے کوئی کورس نہ کیا۔ پھر اس نے کمپنی کے مالک سے شادی کے لیے کہا تو اس نے کہا کہ وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔
اس لیے وہ شادی نہیں کرسکتا، پھر یوں ہوا کہ ایک دن اسے نوکری سے نکال دیا گیا اور اس کی جگہ ایک نئی خوبصورت لڑکی آگئی۔ متاثرہ لڑکی اب بے روزگار تھی، گھر کی ذمے داری اسی پر تھی، اس نے یہ بے وقوفی کی کہ کمپنی کی طرف سے کرائے جانے والے کورسز اور ٹریننگ میں سے کوئی نہ کیا، نتیجہ یہ کہ وہ جہاں جاتی کامیابی نہ ہوتی، پھر بڑی مشکل سے ایک اسکول میں صرف بارہ ہزار کی نوکری ملی۔ ہمارے ملک میں خواتین کا استحصال بہت ہوتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں صرف آزاد خیالی اور خوبصورتی دیکھی جاتی ہے۔
اہل اور قابل خواتین کو اول تو ملازمت ہی نہیں ملتی اور اگر مل بھی جائے تو ان کا پروموشن اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے باس کی بات نہ مانیں۔ کرپشن دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے پہلے بھی اپنے کالموں میں اس جانب توجہ دلائی ہے، آج بھی آپ کسی پیزا پوائنٹ پہ چلے جائیں، یونیفارم میں ملبوس لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ مختلف ٹیبلز پر بیٹھی نظر آئیں گی۔ ماؤں سے یہ لڑکیاں یہ کہہ کر آتی ہیں کہ پریکٹیکل میں دیر ہو جائے گی اور وہ بھروسہ بھی کر لیتی ہیں۔
امریکا میں کوئی بھی مرد کسی لڑکی کو ہراساں نہیں کر سکتا، اگر ایسا ہو تو لڑکی فوراً پولیس کو بلا لیتی ہے۔ وہ بات بعد میں سنتے ہیں، جیل میں پہلے ڈالتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں خود پولیس ان دھندوں میں ملوث ہوتی ہے اور لڑکی ہی کو قصوروار ٹھہراتی ہے، لیکن لڑکیوں کو اب عقل آ جانی چاہیے اگر وہ خود اپنی غلطی سے یا انھیں کسی نے ٹریپ کرکے ویڈیو بنا کر اسے بلیک میل کرنے کو کہا، تب بھی لڑکیوں کو فوراً ماں باپ کو اعتماد میں لے کر ساری بات بتا دینی چاہیے کہ ماں باپ کبھی دشمن نہیں ہوتے، وہ بات سنبھال لیتے ہیں اور لڑکیاں تباہ ہونے سے بچ جاتی ہیں۔
لیکن لڑکیوں کو خود بھی اپنے کردار کو سنبھال کر رکھنا چاہیے۔ عزت ایک بار چلی جائے تو واپس نہیں آتی، اس لیے لڑکیوں کو ہوشیار رہنا چاہیے، یہاں ہر قدم پر بھیڑیے موجود ہیں۔