چند اہم تبدیلیاں
بھارت سے آنے والی اطلاعات اچھی نہیں اور زبوں حال معیشت نے خطرات بہت بڑھا دیئے ہیں
ستمبر کا مہینہ گزرتے گزرتے پاکستان کے اندر چند ایک بہت ہی اہم تبدیلیاں کر جائے گا۔ابھی اگلے ایک دو روز میں صدرِ پاکستان جناب عارف علوی اپنی مدتِ صدارت مکمل کر لیں گے۔
ان کو قصرِ صدارت سے رخصت ہو جانا چاہیے لیکن ابھی وہ نہیں جائیں گے۔وہ بظاہر بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کو تحریکِ انصاف نے اس عہدۂ جلیلہ کے لیے منتخب کروایا۔ سیاسی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اہم ترین عہدوں کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ہر صوبے کی وفاق میں نمائندگی ہو۔
پچھلے کچھ عرصے سے عہدۂ صدارت کراچی کے حصے میں آتا رہا ہے۔ جناب عارف علوی سے پہلے جناب ممنون حسین پانچ سال صدر رہے۔وہ بھی کراچی سے تھے۔جناب عارف علوی یوں بھی خوش قسمت ہیں کہ ان کی مدتِ صدارت ایک ایسے موقع پر مکمل ہوئی جب نئے صدر کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج موجود نہیں ہے۔ صدر کا انتخاب قومی اسمبلی،سینیٹ آف پاکستان اور چاروں صوبائی اسمبلیاں کرتی ہیں۔
تحریکِ انصاف نے فروری میں پنجاب اور خیبرپختون خوا کی اسمبلیاں توڑ دی تھیں اس لیے الیکٹورل کالج مکمل نہ رہا۔ایسی صورت میں حکومت کے پاس دو ماہ پہلے صدر کے انتخاب کا چوائس باقی نہ رہا۔اگست کے دوسرے ہفتے میں قومی اور سندھ و بلوچستان کی اسمبلیوں نے بھی اپنی مدت پوری کر لی۔اب صرف سینیٹ آف پاکستان موجود ہے۔
بہرحال اب صورت یہ ہے کہ جب نئے انتخابات ہوں گے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا حلف ہو جائے گا تو تب الیکٹورل کالج مکمل ہونے پر نئے صدر کا انتخاب ممکن ہو پائے گا۔نئے صدر کے منتخب ہونے تک آئین کے مطابق جناب عارف علوی اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ جناب عارف علوی 2018میں بننے والی تحریکِ انصاف حکومت کے واحد عہدے دار رہ گئے ہیں۔
قصرِ صدارت میں ان کی موجودگی پی ٹی آئی چیئرمین کے لیے کافی سود مند ہے۔حال ہی میں پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے ہاتھ سے ایک خط لکھ کر،ملاقات کے لیے آئی ہوئی اپنی بہن کو جناب عارف علوی کے لیے دیا جس سے لگتا ہے کہ چیئر مین پی ٹی آئی کو عارف علوی پر بہت اعتماد ہے۔
جناب عارف علوی اچھا کھیل رہے ہیں اور وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے نظر آتے ہیں۔ان کی پوری کوشش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی ریڈ لائن کراس نہ کریں۔ ان کی احتیاط کی وجہ سے ان کے اوپر عہدۂ صدارت چھوڑنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے۔
یہ قیاس آرائیاں ضرور ہو رہی ہیں کہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ از خود چھوڑ کر چلے جائیں لیکن اس میں بالکل کوئی صداقت نہیں۔ان کا عہدے پر رہنا ان کے اپنے لیے اور پارٹی کے فائدے میں ہے۔
ویسے چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی کی یہی خواہش ہوگی کہ جناب عارف علوی خود ہی صدارت کے عہدے سے الگ ہو جائیں اور جناب سنجرانی نئے انتخابات تک قائم مقام صدر کے طور پر عہدہ سنبھال لیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال 16ستمبر کو اپنی مدتِ ملازمت مکمل کرکے رخصت ہو جائیں گے۔وہ بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے بہت بڑے سپورٹر دکھائی دیتے رہے ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے ان کے جذبات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ ان کے پاس ڈیڑھ ہفتہ باقی ہے اور وہ چند بہت ہی اہم فیصلوں سے مستقبل کی سیاست پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کے اندر اپنا ایک ہم خیال گروپ بنایا اس لیے آنے والے کچھ سالوں کے لیے جناب بندیال کی چھاپ دکھائی دیتی رہے گی۔پاکستان میں ہر ایک کی نظر16ستمبر کو ہونے والی اس تبدیلی پر لگی ہوئی ہے۔ جناب بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جناب جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا عہدۂ جلیلہ سنبھالیں گے۔ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے جناب جسٹس فائز عیسیٰ سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
تین سال پہلے F-8اسلام آباد میں ایک جگہ کھانے پر چند سیشن ججوں و ایڈیشنل سیشن ججوں سے گپ شپ کے دوران یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ لوئر جوڈیشری کے یہ سینئر عہدے داران جناب فائز عیسیٰ کو اپنا رول ماڈل گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو ہائر جوڈیشری میں کسی بھی جج کو اس معیار پر پرکھتے ہیں کہ وہ جناب فائز عیسیٰ کا کتنے فی صد ہے۔میں خود جب پاک سیکریٹیریٹ میں کام کر رہا تھا تو ڈیڑھ دو سال کے لیے قائدِ اعظم مزار کے امور کی نگرانی بھی میرے فرائض میں شامل تھی۔
قائد کے مزار کو بنیادی طور پر ایک مینیجمنٹ بورڈ چلاتا ہے جب کہ روزمرہ امورانجینئر عارف صاحب نبٹاتے تھے۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ جناب کاوس جی اور جناب فائز عیسیٰ بھی اس بورڈ میں شامل تھے۔ جناب کاوس جی کی دبنگ لیکن انتہائی مخلص شخصیت کا بورڈ میں ہونا ہی باعثِ عزت تھا۔جناب فائز عیسیٰ اس وقت کراچی میں قانون کی پریکٹس کرتے تھے۔معاشرے میں دونوں حضرات کو خاصی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جب بھی بورڈ کی میٹنگ ہوتی جناب فائز عیسیٰ میٹنگ سے کچھ دیر قبل تشریف لاتے۔
تمام ایجنڈا پوائنٹس پر تیاری کر کے آتے اور ہمیں صائب اور اچھے مشوروں سے نوازتے جس کی وجہ سے میٹنگ میں اچھے فیصلے کرنے میں مدد ملتی۔میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ انھیں پاکستان اور قائدِ اعظم سے بہت لگاؤ ہے۔ مجھے اس کے بعد کبھی ان سے ہم کلام ہونے کا موقع نہیں ملا لیکن قائد کے مزار کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں کو دیکھتے ہوئے بہت امید ہے کہ وہ قانون و آئین پر عملداری کو یقینی بنائیں گے اور کسی بھی طرف جھکاؤ رکھے بغیر انصاف کریں گے۔
اسی ستمبر کے مہینے میں ایک اور بہت اہم تبدیلی ہو سکتی ہے۔آئی ایس آئی کے سربراہ اسی مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ویسے تو یہ ایک معمول کی کارروائی ہے اور جو بھی ان کی جگہ لے گا وہ بھی اتنی ہی قابلیت و خلوص سے اپنے فرائض انجام دے گا لیکن پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بہت گدلا ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ موجودہ آرمی چیف کی موجودہ ٹیم کچھ اور عرصے کے لیے اپنا کام جاری رکھے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات جیتنے کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی بھی ایڈونچر کر سکتے ہیں۔
بھارت سے آنے والی اطلاعات اچھی نہیں اور زبوں حال معیشت نے خطرات بہت بڑھا دئے ہیں۔مزید یہ کہ جب تک انتخابات کے بعد تمام اسمبلیاں اپنا کام نہ شروع کر دیں اور نئی حکومت کو اقتدار منتقل نہ ہو جائے،موجودہ ٹیم کا کام جاری رکھنا بہتر ہے۔آرمی چیف نے حال ہی میں کراچی اور لاہور کے بزنس مینوں کے ساتھ کافی وقت گزار کر انھیں اعتماد دیا۔ان ملاقاتوں کا نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ڈالر کی اڑان کچھ تھم گئی ہے اور مارکیٹ sentimenyمثبت ہو چلا ہے۔
قارئینِ کرامG-20ممالک کا سربراہی اجلاس دہلی میں ہونے جا رہا ہے۔پہلے اطلاع تھی کہ صدر پیوٹن شرکت نہیں کر رہے،اب معلوم ہوا ہے کہ چینی صدر جناب شی بھی شریک نہیں ہوں گے۔بھارت کی عالمی وقار بڑھانے کی خواہش کو یہ بہت بڑا دھچکا ہے۔
ان کو قصرِ صدارت سے رخصت ہو جانا چاہیے لیکن ابھی وہ نہیں جائیں گے۔وہ بظاہر بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کو تحریکِ انصاف نے اس عہدۂ جلیلہ کے لیے منتخب کروایا۔ سیاسی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اہم ترین عہدوں کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ہر صوبے کی وفاق میں نمائندگی ہو۔
پچھلے کچھ عرصے سے عہدۂ صدارت کراچی کے حصے میں آتا رہا ہے۔ جناب عارف علوی سے پہلے جناب ممنون حسین پانچ سال صدر رہے۔وہ بھی کراچی سے تھے۔جناب عارف علوی یوں بھی خوش قسمت ہیں کہ ان کی مدتِ صدارت ایک ایسے موقع پر مکمل ہوئی جب نئے صدر کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج موجود نہیں ہے۔ صدر کا انتخاب قومی اسمبلی،سینیٹ آف پاکستان اور چاروں صوبائی اسمبلیاں کرتی ہیں۔
تحریکِ انصاف نے فروری میں پنجاب اور خیبرپختون خوا کی اسمبلیاں توڑ دی تھیں اس لیے الیکٹورل کالج مکمل نہ رہا۔ایسی صورت میں حکومت کے پاس دو ماہ پہلے صدر کے انتخاب کا چوائس باقی نہ رہا۔اگست کے دوسرے ہفتے میں قومی اور سندھ و بلوچستان کی اسمبلیوں نے بھی اپنی مدت پوری کر لی۔اب صرف سینیٹ آف پاکستان موجود ہے۔
بہرحال اب صورت یہ ہے کہ جب نئے انتخابات ہوں گے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا حلف ہو جائے گا تو تب الیکٹورل کالج مکمل ہونے پر نئے صدر کا انتخاب ممکن ہو پائے گا۔نئے صدر کے منتخب ہونے تک آئین کے مطابق جناب عارف علوی اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ جناب عارف علوی 2018میں بننے والی تحریکِ انصاف حکومت کے واحد عہدے دار رہ گئے ہیں۔
قصرِ صدارت میں ان کی موجودگی پی ٹی آئی چیئرمین کے لیے کافی سود مند ہے۔حال ہی میں پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے ہاتھ سے ایک خط لکھ کر،ملاقات کے لیے آئی ہوئی اپنی بہن کو جناب عارف علوی کے لیے دیا جس سے لگتا ہے کہ چیئر مین پی ٹی آئی کو عارف علوی پر بہت اعتماد ہے۔
جناب عارف علوی اچھا کھیل رہے ہیں اور وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے نظر آتے ہیں۔ان کی پوری کوشش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی ریڈ لائن کراس نہ کریں۔ ان کی احتیاط کی وجہ سے ان کے اوپر عہدۂ صدارت چھوڑنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے۔
یہ قیاس آرائیاں ضرور ہو رہی ہیں کہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ از خود چھوڑ کر چلے جائیں لیکن اس میں بالکل کوئی صداقت نہیں۔ان کا عہدے پر رہنا ان کے اپنے لیے اور پارٹی کے فائدے میں ہے۔
ویسے چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی کی یہی خواہش ہوگی کہ جناب عارف علوی خود ہی صدارت کے عہدے سے الگ ہو جائیں اور جناب سنجرانی نئے انتخابات تک قائم مقام صدر کے طور پر عہدہ سنبھال لیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال 16ستمبر کو اپنی مدتِ ملازمت مکمل کرکے رخصت ہو جائیں گے۔وہ بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے بہت بڑے سپورٹر دکھائی دیتے رہے ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے ان کے جذبات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ ان کے پاس ڈیڑھ ہفتہ باقی ہے اور وہ چند بہت ہی اہم فیصلوں سے مستقبل کی سیاست پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کے اندر اپنا ایک ہم خیال گروپ بنایا اس لیے آنے والے کچھ سالوں کے لیے جناب بندیال کی چھاپ دکھائی دیتی رہے گی۔پاکستان میں ہر ایک کی نظر16ستمبر کو ہونے والی اس تبدیلی پر لگی ہوئی ہے۔ جناب بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جناب جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا عہدۂ جلیلہ سنبھالیں گے۔ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے جناب جسٹس فائز عیسیٰ سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
تین سال پہلے F-8اسلام آباد میں ایک جگہ کھانے پر چند سیشن ججوں و ایڈیشنل سیشن ججوں سے گپ شپ کے دوران یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ لوئر جوڈیشری کے یہ سینئر عہدے داران جناب فائز عیسیٰ کو اپنا رول ماڈل گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو ہائر جوڈیشری میں کسی بھی جج کو اس معیار پر پرکھتے ہیں کہ وہ جناب فائز عیسیٰ کا کتنے فی صد ہے۔میں خود جب پاک سیکریٹیریٹ میں کام کر رہا تھا تو ڈیڑھ دو سال کے لیے قائدِ اعظم مزار کے امور کی نگرانی بھی میرے فرائض میں شامل تھی۔
قائد کے مزار کو بنیادی طور پر ایک مینیجمنٹ بورڈ چلاتا ہے جب کہ روزمرہ امورانجینئر عارف صاحب نبٹاتے تھے۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ جناب کاوس جی اور جناب فائز عیسیٰ بھی اس بورڈ میں شامل تھے۔ جناب کاوس جی کی دبنگ لیکن انتہائی مخلص شخصیت کا بورڈ میں ہونا ہی باعثِ عزت تھا۔جناب فائز عیسیٰ اس وقت کراچی میں قانون کی پریکٹس کرتے تھے۔معاشرے میں دونوں حضرات کو خاصی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جب بھی بورڈ کی میٹنگ ہوتی جناب فائز عیسیٰ میٹنگ سے کچھ دیر قبل تشریف لاتے۔
تمام ایجنڈا پوائنٹس پر تیاری کر کے آتے اور ہمیں صائب اور اچھے مشوروں سے نوازتے جس کی وجہ سے میٹنگ میں اچھے فیصلے کرنے میں مدد ملتی۔میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ انھیں پاکستان اور قائدِ اعظم سے بہت لگاؤ ہے۔ مجھے اس کے بعد کبھی ان سے ہم کلام ہونے کا موقع نہیں ملا لیکن قائد کے مزار کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں کو دیکھتے ہوئے بہت امید ہے کہ وہ قانون و آئین پر عملداری کو یقینی بنائیں گے اور کسی بھی طرف جھکاؤ رکھے بغیر انصاف کریں گے۔
اسی ستمبر کے مہینے میں ایک اور بہت اہم تبدیلی ہو سکتی ہے۔آئی ایس آئی کے سربراہ اسی مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ویسے تو یہ ایک معمول کی کارروائی ہے اور جو بھی ان کی جگہ لے گا وہ بھی اتنی ہی قابلیت و خلوص سے اپنے فرائض انجام دے گا لیکن پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بہت گدلا ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ موجودہ آرمی چیف کی موجودہ ٹیم کچھ اور عرصے کے لیے اپنا کام جاری رکھے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات جیتنے کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی بھی ایڈونچر کر سکتے ہیں۔
بھارت سے آنے والی اطلاعات اچھی نہیں اور زبوں حال معیشت نے خطرات بہت بڑھا دئے ہیں۔مزید یہ کہ جب تک انتخابات کے بعد تمام اسمبلیاں اپنا کام نہ شروع کر دیں اور نئی حکومت کو اقتدار منتقل نہ ہو جائے،موجودہ ٹیم کا کام جاری رکھنا بہتر ہے۔آرمی چیف نے حال ہی میں کراچی اور لاہور کے بزنس مینوں کے ساتھ کافی وقت گزار کر انھیں اعتماد دیا۔ان ملاقاتوں کا نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ڈالر کی اڑان کچھ تھم گئی ہے اور مارکیٹ sentimenyمثبت ہو چلا ہے۔
قارئینِ کرامG-20ممالک کا سربراہی اجلاس دہلی میں ہونے جا رہا ہے۔پہلے اطلاع تھی کہ صدر پیوٹن شرکت نہیں کر رہے،اب معلوم ہوا ہے کہ چینی صدر جناب شی بھی شریک نہیں ہوں گے۔بھارت کی عالمی وقار بڑھانے کی خواہش کو یہ بہت بڑا دھچکا ہے۔