جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس پرویز الٰہی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
انسداد دہشت گردی عدالت نے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا مسترد کردی، اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم
جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس میں پرویز الٰہی کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کردیا گیا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پرویز الٰہی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین رخصت کے بعد عدالت پہنچ گئے۔ پولیس نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔
پولیس نے تھانہ سی ٹی ڈی میں درج جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس میں چوہدری پرویز الٰہی کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا اور مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ طلب کرلیا۔
چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی نوعیت کا کیس ہے۔ جب 18 مارچ کو واقعہ ہوا تب پرویز الٰہی پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ 18 مارچ کی ایف آئی آر پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج کی گئی تھی۔ پرویز الٰہی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اینٹی کرپشن کورٹ نے بھی مقدمے سے بری کیا ۔ رِہا کرنے کے بجائے دوسرے مقدمے میں پکڑ لیا گیا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب کوئی راستہ نہ رہا تو حراست میں لینے کا ڈی سی لاہور نے آرڈر جاری کردیا۔ بعد ازاں نیب نے گرفتار کرلیا ۔ لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے پر فیصلہ جاری کیا گیا کہ کسی بھی خفیہ مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔لاہور ہائیکورٹ نے واضح حکم دیا کہ کسی اور کیس میں گرفتار نہ کیا جائے۔ لاہور پولیس کو حکم ہوا کہ سکیورٹی دی جائے، گھر پہنچا جائے۔ راستے میں اسلام آباد پولیس پہنچ گئی اور انہیں اغوا کرلیا گیا۔
پرویز الٰہی کے وکیل نے دلائل میں مزید کہا کہ پرویز الٰہی کو لاہور سے اسلام آباد لایا گیا، جہاں ہم نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتاری کا حکم معطل کیا ۔ پھر پولیس لائن سے نکلتے ہوئے اس کیس میں گرفتار کر لیا گیا ۔
وکیل عبدالرزاق نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ کچھ ثبوت ہو تو جسمانی ریمانڈ مانگیں۔ 6 ماہ بعد پرویز الٰہی کو مقدمے میں نامزد کیاگیا۔ وکیل نے کیس ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی کی پاکستان کے لیے خدمات ہیں ۔ چیئرمین پی ٹی آئی ، شاہ محمود قریشی اور دیگر کی اس کیس میں ضمانت کنفرم ہوچکی ہے، لہذا اس کیس میں پرویز الٰہی کو ڈسچارج کیا جائے ۔
اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما اور وکیل بابر اعوان بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ پرویز الٰہی نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ڈسچارج کروا کے جانا ہے، جس پر بابر اعوان نے مسکراتے ہوئے پرویز الٰہی کو گلے لگا لیا۔
وکیل سردار عبدلرازق کے دلائل مکمل ہونے پر بابر اعوان نے دلائل دینا شروع کردیے۔ انہوں نے عدالت میں ایف آئی آر پڑھی اور دلائل میں کہا کہ مارچ کا مقدمہ ہے، ابھی تک پرویز الٰہی کے خلاف کیا ثبوت ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ پراسیکیوشن نے اب تک کیا ثبوت دیا ہے کہ پرویز الٰہی دہشتگرد ہیں۔ رائی کے دانے جتنا بھی ثبوت پراسیکیوشن کے پاس پرویز الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔ جو مقدمے میں نامزد تھے وہ ڈسچارج نہیں ہوئے جو نامعلوم تھے وہ تمام ڈسچارج ہیں۔ وکیل بابر اعوان نے بھی پرویز الٰہی کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کر دی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے بابراعوان کے دلائل کے دوران شعر پڑھا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دوران سماعت طاہر کاظم ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں گرفتاری کی بات کی گئی ہے۔ پنجاب ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ ان کیسز کو ہمارے کیس سے جوڑنا درست نہیں ۔ پرویز الٰہی پر سہولت کاری کا الزام ہے۔ انہوں نے مالی سہولت کاری بھی دی ہے۔ ڈیجیٹل ٹرانزیکشن ہوئی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 2 دن میں کیا تفتیش کی ہے، جس پر پولیس نے جواب دیا کہ گاڑیوں سے متعلق تفتیش کی ہے۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے پرویز الٰہی کے مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ پرویز الٰہی کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے اور فیملی سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔
عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پرویز الٰہی کو روسٹرم پر بلایا اور مکالمہ کیا کہ اللہ تعالیٰ آسانی پیدا کرے۔ اللہ پر یقین رکھیں۔ عدالت نے پرویز الٰہی کی درخواست پر پیر کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
اس موقع پر پرویز الٰہی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میرا قریبی رشتے دار ہے اور میرے خلاف ہے، جس پر جج نے جواب دیا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین رخصت کے بعد عدالت پہنچ گئے۔ پولیس نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔
پولیس نے تھانہ سی ٹی ڈی میں درج جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس میں چوہدری پرویز الٰہی کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا اور مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ طلب کرلیا۔
چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی نوعیت کا کیس ہے۔ جب 18 مارچ کو واقعہ ہوا تب پرویز الٰہی پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ 18 مارچ کی ایف آئی آر پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج کی گئی تھی۔ پرویز الٰہی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اینٹی کرپشن کورٹ نے بھی مقدمے سے بری کیا ۔ رِہا کرنے کے بجائے دوسرے مقدمے میں پکڑ لیا گیا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب کوئی راستہ نہ رہا تو حراست میں لینے کا ڈی سی لاہور نے آرڈر جاری کردیا۔ بعد ازاں نیب نے گرفتار کرلیا ۔ لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے پر فیصلہ جاری کیا گیا کہ کسی بھی خفیہ مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔لاہور ہائیکورٹ نے واضح حکم دیا کہ کسی اور کیس میں گرفتار نہ کیا جائے۔ لاہور پولیس کو حکم ہوا کہ سکیورٹی دی جائے، گھر پہنچا جائے۔ راستے میں اسلام آباد پولیس پہنچ گئی اور انہیں اغوا کرلیا گیا۔
پرویز الٰہی کے وکیل نے دلائل میں مزید کہا کہ پرویز الٰہی کو لاہور سے اسلام آباد لایا گیا، جہاں ہم نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتاری کا حکم معطل کیا ۔ پھر پولیس لائن سے نکلتے ہوئے اس کیس میں گرفتار کر لیا گیا ۔
وکیل عبدالرزاق نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ کچھ ثبوت ہو تو جسمانی ریمانڈ مانگیں۔ 6 ماہ بعد پرویز الٰہی کو مقدمے میں نامزد کیاگیا۔ وکیل نے کیس ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی کی پاکستان کے لیے خدمات ہیں ۔ چیئرمین پی ٹی آئی ، شاہ محمود قریشی اور دیگر کی اس کیس میں ضمانت کنفرم ہوچکی ہے، لہذا اس کیس میں پرویز الٰہی کو ڈسچارج کیا جائے ۔
اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما اور وکیل بابر اعوان بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ پرویز الٰہی نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ڈسچارج کروا کے جانا ہے، جس پر بابر اعوان نے مسکراتے ہوئے پرویز الٰہی کو گلے لگا لیا۔
وکیل سردار عبدلرازق کے دلائل مکمل ہونے پر بابر اعوان نے دلائل دینا شروع کردیے۔ انہوں نے عدالت میں ایف آئی آر پڑھی اور دلائل میں کہا کہ مارچ کا مقدمہ ہے، ابھی تک پرویز الٰہی کے خلاف کیا ثبوت ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ پراسیکیوشن نے اب تک کیا ثبوت دیا ہے کہ پرویز الٰہی دہشتگرد ہیں۔ رائی کے دانے جتنا بھی ثبوت پراسیکیوشن کے پاس پرویز الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔ جو مقدمے میں نامزد تھے وہ ڈسچارج نہیں ہوئے جو نامعلوم تھے وہ تمام ڈسچارج ہیں۔ وکیل بابر اعوان نے بھی پرویز الٰہی کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کر دی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے بابراعوان کے دلائل کے دوران شعر پڑھا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دوران سماعت طاہر کاظم ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں گرفتاری کی بات کی گئی ہے۔ پنجاب ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ ان کیسز کو ہمارے کیس سے جوڑنا درست نہیں ۔ پرویز الٰہی پر سہولت کاری کا الزام ہے۔ انہوں نے مالی سہولت کاری بھی دی ہے۔ ڈیجیٹل ٹرانزیکشن ہوئی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 2 دن میں کیا تفتیش کی ہے، جس پر پولیس نے جواب دیا کہ گاڑیوں سے متعلق تفتیش کی ہے۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے پرویز الٰہی کے مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ پرویز الٰہی کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے اور فیملی سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔
عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پرویز الٰہی کو روسٹرم پر بلایا اور مکالمہ کیا کہ اللہ تعالیٰ آسانی پیدا کرے۔ اللہ پر یقین رکھیں۔ عدالت نے پرویز الٰہی کی درخواست پر پیر کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
اس موقع پر پرویز الٰہی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میرا قریبی رشتے دار ہے اور میرے خلاف ہے، جس پر جج نے جواب دیا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔