ہزاروں قریب المرگ مریضوں کا احوال زندگی بعد الموت کا ثبوت ہے امریکی ڈاکٹر

امریکی کینسر ماہر کے مطابق 35 سال میں 5 ہزار مریضوں پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موت کے بعد زندگی ہوسکتی ہے

امریکی ڈاکٹر جیفری لونگ کہتے ہیں کہ ان کے تجربات بتاتے ہیں کہ موت کے بعد بھی حیات کا وجود ہوسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

امریکہ میں کینسر کے ماہر ڈاکٹر نے مسلسل 35 برس تک 5000 قریب المرگ مریضوں کےتجربات اور مشاہدات کے بعد وثوق سے کہا کہ موت کے بعد زندگی موجود ہوسکتی ہے۔

کینٹکی کے پروفیسر جیفری لونگ کہتے ہیں کہ وہ کینسر کے مریضوں کے ساتھ ان کے آخری وقت تک موجود رہے۔ کئی کیسز پر غور کرنے سے ان کی زندگی یکسربدل گئی ہے۔ ان کے ساتھ دیگر ماہرین بھی موجود تھے۔ ایک ماہرِ قلب نے جیفری کو بتایا کہ دل کا ایک مریض کچھ دیر کے لیے مرگیا تھا لیکن ڈاکٹروں کی کوششوں سے دوبارہ زندگی بحال ہوگئی۔ اس کے بعد موت کے تجربات میں جیفری کی دلچسپی بڑھ گئی۔ انہوں نے 'نیئر ڈیتھ (موت کے قریب) انسانی تجربات پر ایک فاؤنڈیشن' قائم کیا۔ اس کے تحت ہزاروں واقعات نوٹ کئے گئے اور کئی مواقع پر وہ خود مرنے والے کے پاس موجود رہے تھے۔

ڈاکٹرجیفری کے مطابق موت کےوقت مریضوں کو روشنی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی وہ خود کو ہلکا محسوس کرتے ہیں اور کبھی سرنگ کے اس پار انہیں خوشنما روشنی دکھائی دیتی ہے۔ بعض افراد موت کے غرغرے میں اپنے فوت شدہ عزیزوں سے بھی ملتے ہیں۔


'میں 25 سال تک ہزاروں مریضوں سے حقائق جمع کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر مریض کو اپنے سماجی اور ثقافتی پس منظر کے تحت تجربات اور واقعات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پانچ سال کےبچوں نے بھی مرتے ہوئے سرنگ کے کنارے تیز روشنی کا بتایا حالانکہ وہ اس کے لفظ سےبھی ناواقف تھے اور نہ ہی انہوں نے سرنگ دیکھی تھی۔

ڈاکٹر جیفری نے بتایا کہ ساڑھے تین عشروں میں مرنے والے ہزاروں افراد میں سے 45 فیصد ایسےتھے جنہوں نے خود اپنا وجود اپنے جسم سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا یا محسوس کیا۔ بعض افراد نے بتایا کہ ان کا شعور جسم سے آزاد ہوا ہے اور جسم کے اوپر منڈلارہاہے۔

ایک خاتون نے بہت ہی دلچسپ احوال پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک گھوڑے پر سوار تھیں کہ ان کی روح باہرنکلی اور شعورواحساس بھی غائب ہوگیا۔ جبکہ کچھ دیر بعد شعور دوبارہ لوٹ آیا۔ ڈاکٹر جیفری کا خیال ہے کہ موت کے بعد زندگی ختم نہیں ہوتی اور اس کے پراسرار پہلوؤں کو اب بھی کھوجنا ضروری ہے۔
Load Next Story