حکام وعدے کرتے رہیں گے…
حالات ظاہر کررہے ہیں کہ کندھ کوٹ اور دیگر شہروں میں شہری اغواء ہوتے رہیں گے اور حکام وعدے کرتے رہیں گے
کندھ کوٹ کی مکین شادی شدہ نازیہ بی بی کو سات ماہ قبل ڈاکو اغواء کر کے کچے کے علاقہ میں لے گئے۔ نازیہ کے ساتھ اس کی معصوم بچی کوثر بھی تھی۔
نازیہ کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اغواء کے وقت نازیہ سات (7) ماہ کی حاملہ تھی مگر نازیہ اور اس کی بچی ابھی تک بازیاب نہ ہوئی۔ نازیہ کا شوہر اور قریبی عزیز بے بس ہیں مگر کندھ کوٹ سے صرف ایک نازیہ ہی نہیں بلکہ کئی اور لڑکیاں بھی اغواء کی گئی ہیں۔ روزانہ کسی نہ کسی فرد کو ڈاکو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
اغواء ہونے والوں میں بچے،جوان بوڑھے سب شامل ہیں۔ ڈاکوؤں نے کندھ کوٹ،جیکب آباد اور اطراف کے علاقوں میں آباد ہندو برادری کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے۔ کندھ کوٹ کے حالات اتنے خراب ہیں کہ ہندو برادری نے کشمور اور دیگر مقامات پر دھرنے دینے شروع کیے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے فعال کارکن امداد کھوسہ برسوں سے اس علاقہ میں انسانی حقوق کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔ امداد کھوسہ اور سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں اور وکلاء تنظیموں کی حمایت سے ہندو برادری نے کشمور ڈیرہ موڑ پر احتجاجی دھرنا شروع کیا۔
پولیس اہلکاروں نے شروع میں دھرنے کے شرکاء کو منتشر ہونے کو کہا۔ جب دھرنے کے شرکاء نے ان کا کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کیا تو پولیس کے ایک افسر نے دھمکیاں دیں مگر کندھ کوٹ کشمور قومی شاہراہ پر دھرنے کے مناظر ٹی وی اسکرین اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر وائرل ہوئے۔ اس دھرنے کی حمایت میں کراچی، حیدرآباد ، سکھر اور دیگر مقامات پر سول سوسائٹی کی تنظیموں نے دھرنے دیے۔
ان دھرنوں کی خبر ریاست کے اداروں تک پہنچ گئی۔ پولیس کے ایس پی امجد شیخ نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس سے جھڑپوں میں دو مغویوں مکھی اور جے دیپ کو بازیاب کرایا گیا۔ ایس پی نے کہا کہ ڈاکوؤں نے مزید افراد کو رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پیپلز پارٹی اقلیتی ونگ کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ ابھی تک تین لڑکیوں نازیہ، ہرنا کماری اور کوثر کا کوئی سراغ نہیں لگ سکا ہے۔ ہندو برادری کے ایک اور رہنما ڈاکٹر مہر چاند (جو اس دھرنا کے قائدین میں شامل تھے) کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ 40کے قریب افراد ڈاکوؤں کا شکار ہوئے۔ کندھ کوٹ اور اطرف کے علاقوں میں کاروبار زندگی مکمل ٹھپ ہوگیا ہے۔
ہندو برادری اور سول سوسائٹی کے اس دھرنے کی کئی سیاسی جماعتوں نے جن میں قوم پرست تنظیمیں بھی شامل ہیں بھرپور حمایت کی۔ حتیٰ کہ جمعیت علمائے اسلام کی صوبائی قیادت نے بھی دھرنے کے شرکاء کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ مزید یہ کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق گزشتہ دنوں اپر سندھ کے دورے پر تھے۔
انھوں نے بھی ڈاکوؤںکی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس معاملہ پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ ن تنظیمی طور پر بکھر گئی ہے، یوں وہاں بھی اس معاملہ پر خاموشی پائی جاتی ہے۔ڈاکوؤں کی ان سرگرمیوںکی بنیاد پر ہندو برادری کے افراد علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا یہ بیانیہ ہے کہ جیکب آباد، شکارپور، کندھ کوٹ اور دیگر اضلاع میں ہندو برادری صدیوں سے آباد ہے۔ ہندو برادری کے زیادہ افراد آڑھت کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ہندو برادری کے ارکان ڈاکٹر،وکیل، صحافی ، استاد اور انجینئر وغیرہ کے طور پر پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر چند عشروں سے ہندو برادری کو اغوائ، ڈکیتی اور تاوان کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔
ان کی لڑکیوں کو جن میں کم سن لڑکیاں بھی شامل ہوئی ہیں زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ڈاکوؤں کی ان وارداتوں کے بڑھنے سے ان کا کاروبار مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ ہندو برادری کے افراد اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ایچ آر سی پی کی کونسل کے رکن امداد کھوسہ نے ہندو برادری کے علاقہ سے منتقل ہونے کے معاملہ کا بغور جائزہ لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ بارہ کے قریب خاندان بھارت چلے گئے۔
بہت سے افراد نے یورپ، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا کا رخ کیا ہے۔ اس برادری کے نوجوانوں کی اکثریت اپنا وطن چھوڑنے پر تیار ہے۔ امداد کھوسہ کا کہنا ہے کہ جو خاندان بھارت ، یورپ اور امریکا جانے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ کراچی اور حیدرآباد منتقل ہوگئے ہیں۔
دریائے سندھ کے کنارے کے ساتھ کچے کا علاقہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کچے کے علاقہ میں مختلف بلوچ اور سندھی قبائل آباد ہیں۔
ان قبائل کے سردار ان ڈاکوؤں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سردار مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں، یوںیہ سردار قومی اور صوبائی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کے اراکین بھی منتخب ہوجاتے ہیں۔ سرکاری اہلکاروں اور پولیس سے ان کے قریبی روابط ہمیشہ سے قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپر سندھ مستقل ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ہے مگر کبھی سندھ اسمبلی میں اس مسئلہ پر تفصیلی بحث نہیں ہوئی۔
پنجاب اور سندھ کی حکومتیں اپنی عملداری کے لیے پولیس آپریشن کا اعلان کرتی ہیں۔ گزشتہ مہینوں بھی سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے کروڑوں روپے کی گرانٹ منظورکی تھی۔ دونوں حکومتوں کے تعلقات عامہ کے شعبوں کے اراکین کی طرف سے آپریشن کی کامیابی کے اعلان کے ساتھ کئی ڈاکوؤں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
کچھ ہی دنوں بعد ڈاکوؤں کی ہلاکتوں کی تصاویر بھی شایع کی جاتی ہیں مگر ان خبروں اور تصاویر کی اشاعت کے چند ہی روز بعد ڈا کو پھر کسی نہ کسی فرد کو اغواء کرلیتے ہیں، یوں پولیس کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کی کامیابی کی خبریں شایع ہوتی ہیں۔
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے خاص طور پر کندھ کوٹ اور جیکب آباد وغیرہ میں ایسے ڈاکوؤں کے خلا ف کامیاب آپریشن میں نمایاں کردار ادا کرنے والے افسروں میں انعامات تقسیم کیے تھے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سول سوسائٹی کے رہنما شیما کرمانی کی قیادت میں متاثرین کے وفد کے وزیر داخلہ سے مذاکرات کے بعد پانچ روز سے جاری دھرنا ختم ہوا۔
حکام نے مزید افراد کو بازیاب کرانے کی یقین دہانی کرائی مگر ہندو پنچایت کے ایک رہنما لال موتانی نے یہ موقف اختیار کیا کہ بااثر افراد کے دباؤ پر دھرنا ختم ہوا تھا مگر مغویوں کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری رہے گا۔ پولیس نے احتجاجی مظاہرین پر تشدد کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے، یوں صورتحال خراب ہوتی نظر آرہی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر جے پال چھاپریا نے سوال اٹھایا ہے کہ جگدیپ اور جے دیپ تو مل گئے مگر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اغواء کرنے والے کون ہیں اور نہ ہی اغواء کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا۔ حالات ظاہر کررہے ہیں کہ کندھ کوٹ اور دیگر شہروں میں شہری اغواء ہوتے رہیں گے اور حکام وعدے کرتے رہیں گے۔
نازیہ کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اغواء کے وقت نازیہ سات (7) ماہ کی حاملہ تھی مگر نازیہ اور اس کی بچی ابھی تک بازیاب نہ ہوئی۔ نازیہ کا شوہر اور قریبی عزیز بے بس ہیں مگر کندھ کوٹ سے صرف ایک نازیہ ہی نہیں بلکہ کئی اور لڑکیاں بھی اغواء کی گئی ہیں۔ روزانہ کسی نہ کسی فرد کو ڈاکو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
اغواء ہونے والوں میں بچے،جوان بوڑھے سب شامل ہیں۔ ڈاکوؤں نے کندھ کوٹ،جیکب آباد اور اطراف کے علاقوں میں آباد ہندو برادری کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے۔ کندھ کوٹ کے حالات اتنے خراب ہیں کہ ہندو برادری نے کشمور اور دیگر مقامات پر دھرنے دینے شروع کیے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے فعال کارکن امداد کھوسہ برسوں سے اس علاقہ میں انسانی حقوق کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔ امداد کھوسہ اور سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں اور وکلاء تنظیموں کی حمایت سے ہندو برادری نے کشمور ڈیرہ موڑ پر احتجاجی دھرنا شروع کیا۔
پولیس اہلکاروں نے شروع میں دھرنے کے شرکاء کو منتشر ہونے کو کہا۔ جب دھرنے کے شرکاء نے ان کا کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کیا تو پولیس کے ایک افسر نے دھمکیاں دیں مگر کندھ کوٹ کشمور قومی شاہراہ پر دھرنے کے مناظر ٹی وی اسکرین اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر وائرل ہوئے۔ اس دھرنے کی حمایت میں کراچی، حیدرآباد ، سکھر اور دیگر مقامات پر سول سوسائٹی کی تنظیموں نے دھرنے دیے۔
ان دھرنوں کی خبر ریاست کے اداروں تک پہنچ گئی۔ پولیس کے ایس پی امجد شیخ نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس سے جھڑپوں میں دو مغویوں مکھی اور جے دیپ کو بازیاب کرایا گیا۔ ایس پی نے کہا کہ ڈاکوؤں نے مزید افراد کو رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پیپلز پارٹی اقلیتی ونگ کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ ابھی تک تین لڑکیوں نازیہ، ہرنا کماری اور کوثر کا کوئی سراغ نہیں لگ سکا ہے۔ ہندو برادری کے ایک اور رہنما ڈاکٹر مہر چاند (جو اس دھرنا کے قائدین میں شامل تھے) کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ 40کے قریب افراد ڈاکوؤں کا شکار ہوئے۔ کندھ کوٹ اور اطرف کے علاقوں میں کاروبار زندگی مکمل ٹھپ ہوگیا ہے۔
ہندو برادری اور سول سوسائٹی کے اس دھرنے کی کئی سیاسی جماعتوں نے جن میں قوم پرست تنظیمیں بھی شامل ہیں بھرپور حمایت کی۔ حتیٰ کہ جمعیت علمائے اسلام کی صوبائی قیادت نے بھی دھرنے کے شرکاء کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ مزید یہ کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق گزشتہ دنوں اپر سندھ کے دورے پر تھے۔
انھوں نے بھی ڈاکوؤںکی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس معاملہ پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ ن تنظیمی طور پر بکھر گئی ہے، یوں وہاں بھی اس معاملہ پر خاموشی پائی جاتی ہے۔ڈاکوؤں کی ان سرگرمیوںکی بنیاد پر ہندو برادری کے افراد علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا یہ بیانیہ ہے کہ جیکب آباد، شکارپور، کندھ کوٹ اور دیگر اضلاع میں ہندو برادری صدیوں سے آباد ہے۔ ہندو برادری کے زیادہ افراد آڑھت کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ہندو برادری کے ارکان ڈاکٹر،وکیل، صحافی ، استاد اور انجینئر وغیرہ کے طور پر پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر چند عشروں سے ہندو برادری کو اغوائ، ڈکیتی اور تاوان کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔
ان کی لڑکیوں کو جن میں کم سن لڑکیاں بھی شامل ہوئی ہیں زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ڈاکوؤں کی ان وارداتوں کے بڑھنے سے ان کا کاروبار مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ ہندو برادری کے افراد اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ایچ آر سی پی کی کونسل کے رکن امداد کھوسہ نے ہندو برادری کے علاقہ سے منتقل ہونے کے معاملہ کا بغور جائزہ لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ بارہ کے قریب خاندان بھارت چلے گئے۔
بہت سے افراد نے یورپ، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا کا رخ کیا ہے۔ اس برادری کے نوجوانوں کی اکثریت اپنا وطن چھوڑنے پر تیار ہے۔ امداد کھوسہ کا کہنا ہے کہ جو خاندان بھارت ، یورپ اور امریکا جانے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ کراچی اور حیدرآباد منتقل ہوگئے ہیں۔
دریائے سندھ کے کنارے کے ساتھ کچے کا علاقہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کچے کے علاقہ میں مختلف بلوچ اور سندھی قبائل آباد ہیں۔
ان قبائل کے سردار ان ڈاکوؤں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سردار مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں، یوںیہ سردار قومی اور صوبائی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کے اراکین بھی منتخب ہوجاتے ہیں۔ سرکاری اہلکاروں اور پولیس سے ان کے قریبی روابط ہمیشہ سے قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپر سندھ مستقل ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ہے مگر کبھی سندھ اسمبلی میں اس مسئلہ پر تفصیلی بحث نہیں ہوئی۔
پنجاب اور سندھ کی حکومتیں اپنی عملداری کے لیے پولیس آپریشن کا اعلان کرتی ہیں۔ گزشتہ مہینوں بھی سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے کروڑوں روپے کی گرانٹ منظورکی تھی۔ دونوں حکومتوں کے تعلقات عامہ کے شعبوں کے اراکین کی طرف سے آپریشن کی کامیابی کے اعلان کے ساتھ کئی ڈاکوؤں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
کچھ ہی دنوں بعد ڈاکوؤں کی ہلاکتوں کی تصاویر بھی شایع کی جاتی ہیں مگر ان خبروں اور تصاویر کی اشاعت کے چند ہی روز بعد ڈا کو پھر کسی نہ کسی فرد کو اغواء کرلیتے ہیں، یوں پولیس کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کی کامیابی کی خبریں شایع ہوتی ہیں۔
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے خاص طور پر کندھ کوٹ اور جیکب آباد وغیرہ میں ایسے ڈاکوؤں کے خلا ف کامیاب آپریشن میں نمایاں کردار ادا کرنے والے افسروں میں انعامات تقسیم کیے تھے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سول سوسائٹی کے رہنما شیما کرمانی کی قیادت میں متاثرین کے وفد کے وزیر داخلہ سے مذاکرات کے بعد پانچ روز سے جاری دھرنا ختم ہوا۔
حکام نے مزید افراد کو بازیاب کرانے کی یقین دہانی کرائی مگر ہندو پنچایت کے ایک رہنما لال موتانی نے یہ موقف اختیار کیا کہ بااثر افراد کے دباؤ پر دھرنا ختم ہوا تھا مگر مغویوں کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری رہے گا۔ پولیس نے احتجاجی مظاہرین پر تشدد کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے، یوں صورتحال خراب ہوتی نظر آرہی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر جے پال چھاپریا نے سوال اٹھایا ہے کہ جگدیپ اور جے دیپ تو مل گئے مگر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اغواء کرنے والے کون ہیں اور نہ ہی اغواء کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا۔ حالات ظاہر کررہے ہیں کہ کندھ کوٹ اور دیگر شہروں میں شہری اغواء ہوتے رہیں گے اور حکام وعدے کرتے رہیں گے۔