قصہ کراچی کے تیسرے دلیپ کمار کا

وہ اپنے دوستوں کے حلقے میں مکالمہ بول کر اپنی دھاک دوستوں پر بٹھایا کرتا تھا

hamdam.younus@gmail.com

یہ قصہ ہے کراچی کے تیسرے دلیپ کمارکا، جو کالج کے زمانے ہی سے دلیپ کمار بنا ہوا تھا یہ میرا اسلامیہ کالج کا ساتھی بھی رہا اور میری اس سے دوستی بھی رہی ہے۔

کالج میں بھی اورکالج کے بعد بھی، یہ کالج کے زمانے میں پڑھائی سے دلچسپی کم رکھتا تھا اور اپنے چند خاص چمچہ نما دوستوں کے ساتھ ہر وقت دلیپ کمار بنا پھرتا تھا۔ اس نے کالج کے زمانے ہی میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کالج سے فارغ ہو کر اداکاری کی طرف جائے گا اور کراچی کی فلموں میں کام کرے گا۔ دلیپ کمار کی فلمیں اس کے حواس پر چھائی رہتی تھیں۔

دلیپ کمار کی مشہور فلموں کے کچھ مکالمے اس کو بڑے پسند تھے اور وہ اپنے دوستوں کے حلقے میں مکالمہ بول کر اپنی دھاک دوستوں پر بٹھایا کرتا تھا۔ یہ مجھے کبھی سنجیدگی کے ساتھ کلاس روم میں بیٹھا نظر نہیں آتا تھا۔ ہاں کالج کے کینٹین میں اس کے قہقہے گونجتے رہتے تھے۔ یہ کلاس سے کم کالج کینٹین سے زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔

کالج کے زمانے میں یہ بڑا ہی من موجی قسم کا نوجوان تھا فیروز سے جب بھی کبھی کوئی دوست کہتا تھا کہ '' یار تم کبھی کالج کے ڈراموں یا ریڈیو کے ڈراموں سے تو دلچسپی لیتے نہیں ہو پھر تم اداکاری کا تجربہ کیسے حاصل کرو گے'' تو یہ کہتا تھا '' ارے بابا ! ہم کو کسی جگہ سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہم تو پیدائشی فنکار ہیں اور ہمارا استاد بس ایک ہی ہے وہ ہے مہان اداکار دلیپ کمار '' اور پھر اس کے دوست اس کو کینٹین میں لے جاتے تھے اور جو چاہتے تھے وہ کھاتے پیتے تھے۔ ایک بات اور بتاتا چلوں کہ اسلامیہ کالج کا ہمارا ایک اور ساتھی طلعت حسین کالج کے دوران ہی ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگراموں میں حصہ لینے لگا تھا، طلعت حسین کی والدہ محترم صفیہ معینی صاحبہ ریڈیو پاکستان کراچی کی ایک نام ور آرٹسٹ اور صداکارہ تھیں۔

طلعت حسین نے کالج کے زمانے میں کبھی فلموں کا اداکار بننے کے بارے میں نہیں سوچا تھا وہ بہت ہی کم گو تھا اور اس کے ہاتھوں میں کسی نہ کسی مشہور رائٹر کا کوئی نہ کوئی انگریزی ناول یا کتاب ضرور دیکھتے تھے فیروز اور طلعت حسین دونوں میں بڑا فرق تھا ایک شور شرابہ پسند کرتا تھا اور دوسرا اپنی تعلیم پر ہی فوکس کیے رہتا تھا۔

میں نے کالج کے آخری سال میں ایک بار فیروز سے مذاق کے انداز میں پوچھا تھا ''ہاں! بھئی ہیرو کالج کے بعد یونیورسٹی میں جانے کا پروگرام تو بنا لیا ہے نا'' تو فیروز نے بے ساختہ کہا تھا '' ارے بھئی، کالج میں پڑھ لیا ہمارے لیے یہی کافی ہے اب تو ہم نے فلم یونیورسٹی ہی جوائن کرنی ہے۔ ہماری اصلی یونیورسٹی تو فلم انڈسٹری ہے'' اور ہم اس کی مستقل مزاجی پر کھل کر داد دیا کرتے تھے۔

میں نے یونیورسٹی کے دوران ہی صحافت کے شعبہ کو اپنا لیا تھا، انھی دنوں اخبار میں فیروز کی طرف سے ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ فیروز نے اپنی ذاتی فلم ''السلام علیکم'' کے نام سے بنانے کا اعلان کیا ہے یہ خبر پڑھ کر ہمیں خوشی بھی ہوئی اور تجسس بھی کہ فیروز نے اپنے سرمائے سے فلم کیوں شروع کی ہے، اسے پہلے ایک دو ہدایت کاروں کی فلم میں آنا چاہیے تھا۔

بہرحال ایک دن فیروز سے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ملاقات ہوگئی فیروز سے جب ہم نے پوچھا کہ '' یار تم خود فلم ساز، اداکار اور خود ہی ہدایت کار بھی ہو پہلے کسی تجربہ کار ہدایت کار کی فلم میں کام کرتے تو تمہارے لیے آسانی ہو جاتی'' تو فیروز نے کہا '' ارے یونس بھائی فلمی دنیا میں کسی شوقین اداکار کو کون منہ لگاتا ہے ہم نے بھی بہت کوشش کی کہ کوئی فلم ساز و ہدایت کار ہماری طرف نظر کرے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو ہم نے پھر خود ہی پروڈیوسر اور ہدایت کار بننے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ہاں اب تو فلم کی کاسٹ بھی سائن کرلی ہے۔

نئی اداکارہ روزینہ کو ہیروئن لیا ہے۔ ساتھ میں کمال ایرانی، لطیف چارلی، قربان جیلانی اور مزاحیہ آرٹسٹ نرالا کو بھی شامل کر لیا ہے۔


اس مہینے فلم کے گیت ریکارڈ کر لیے جائیں گے اسی ہفتے گیت رونا لیلیٰ اور احمد رشدی کی آوازوں میں گانے ریکارڈ کر رہا ہوں، اس کے بعد ایک گیت مشہور عظیم پریم راگی قوال کے بیٹے سنگر سلیم شہزاد کی آواز میں ایک گیت احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ ہوگا اور پھر دو ماہ کے بعد فلم کی مسلسل شوٹنگ کردی جائے گی۔

میں نے فیروز کی فلم کے گیتوں کی ریکارڈ نگ میں بھی شرکت کی تھی احمد رشدی کی آواز میں ایک گانا شبی فاروقی کا لکھا ہوا تھا اور سلیم شہزاد کی آواز میں ایک گانا مسرور انور کا لکھا ہوا تھا جب کہ فلم کے موسیقار نذر صابر تھے، یہ دوستوں کی ایک موسیقار جوڑی تھی جو ریڈیو کے لیے بھی گیت کمپوز کرتے تھے اور کراچی کمرشل فلموں کے لیے بھی کام کرتے تھے۔

کچھ دن بعد فیروز نے آؤٹ ڈور میں روزینہ کے ساتھ خود پر ایک کورس گیت فلم بند کیا تھا۔ جس میں اداکار نرالا اور ایک درجن کے قریب کورس کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ گیت کے بول تھے:

محبت کے دیے جلا لو

وفا کے گیت گنگنا لو

تقاضا ہے یہ زندگی کا

یہ گیت سنگر سلیم شہزاد کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا، پھر ایک اور گیت احمد رشدی کی آواز میں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول تھے۔

الف سے اپنا ب سے بہتر پ سے پاکستان

پاکستان کی خاطر بچوں سب کچھ ہے قربان

یہ گیت کراچی کے ایک شاعر مسرور زیدی نے لکھا تھا جب کہ باقی گیت مسرور انور احمد شبی فاروقی نے بھی لکھے تھے، فلم کے گیت بھی ریڈیو سے کافی نشر ہوتے تھے اور فلم کی موسیقی بھی اچھی تھی مگر فلم کی کہانی، ہدایت کاری کمزور تھی اسکرین پلے بھی فیروز نے خود لکھا تھا اور اس میں بڑا جھول تھا۔

یہ 1969 میں کراچی میں ریلیز ہوئی تھی اور فلاپ ہوگئی تھی یہ فلم کسی تقسیم کار نے خریدی نہیں تھی بلکہ ایڈوانس پر سینما میں ریلیز کی گئی تھی فلم ناکام ہوئی تو فیروز کی ساری رقم ڈوب گئی تھی۔
Load Next Story