پاکستان میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ بڑا آدمی اگر کرپشن کرتا ہے تو سزا غریب عوام کو ملتی ہے۔ سزا کا مطلب صرف قید یا سزائے موت نہیں بلکہ امیر آدمی کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا غریبوں کا معاشی قتل ہی کرتا چلا آیا ہے۔ غریب آدمی کے حق پر ڈاکا ڈال کر، اُن کو بے کس و لاچار ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور کرنا، یہ بھی غریب کےلیے کسی سزا سے کم نہیں۔
بہت سے سیاست دان یہ بیان بازی بھی کرتے ہیں کہ سب کو مل بیٹھ کر سنگین معاشی بحران کا حل تلاش کرنا ہوگا اور عوام کے جذبات اور مسائل پر پوری طرح توجہ دینا ہوگی۔ مگر یہ کرے گا کون؟
ہر دور میں قرض لیے جاتے ہیں اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہر دور میں عوام کی بے بسی بڑھی مگر سیاستدانوں کی زندگیوں اور رہن سہن میں ایک فیصد بھی تبدیلی نہیں آئی۔ کیا یہی جمہوریت کا حسن ہے؟
ملک و قوم کی پرواہ کرنے والے اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر مٹھائیاں بانٹنے والے کب راتوں رات لندن کی فلائٹ لے کر ملک و قوم کو مزید بحرانوں میں دھکیل کر پھر سے الیکشن کے مزے لینے کےلیے پاکستان کی پہلی فلائٹ پکڑ کر ہی پاکستان پہنچ جائیں گے۔ اب قوم کو جاگنا ہوگا۔ سیاستدانوں کے روپ میں ملک کے غداروں کو پہچاننا ہوگا۔ چینی مہنگی، بجلی مہنگی، صنعتی شعبہ خراب، بے روزگاری میں اضافہ، سیاسی عدم استحکام اور کتنے ہی قسم کے بحرانوں نے پاکستان کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ آخر کب تک جمہوریت کے ٹھیکیدار اپنے ہاتھوں ملک کنگال اور قوم کے لیے عذاب لکھتے رہیں گے۔
میرا قارئین سے سوال ہے کہ آپ سب لوگ اپنا کماتے اور کھاتے ہیں، ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں، آپ کا ٹیکس آپ کی سہولیات پر نہیں بلکہ سیاستدانوں اور وزرا کی شاہ خرچیوں پر خرچ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرض لے کر عوام کی بہتری پر خرچ کیا جائے، مگر ہمارے ہاں نظام کو ہی الٹ کر رکھا ہوا ہے۔ وہ قرض عوام پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے بینک بیلنس اور محلات پر توجہ ہوتی ہے اور قوم پر قرض مہنگائی کی صورت میں لاد دیا جاتا ہے۔ کرپشن اتنی کرلی کہ ملک کے اقتصادی اور مالی مسائل کے اختیارات آئی ایم ایف کو سونپ دیے ہیں۔ اب ہمارا وفاق آئی ایم ایف کے تابع ہے۔ یہ ہم سب کےلیے قابل تشویش امر ہے۔
پہلے عمران خان کے دور میں ایک کے بعد دوسرا بحران آیا۔ کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی کھاد اور کبھی ڈالر کا۔ پھر شہباز شریف نے ایک نعرہ بلند کرتے ہوئے پوری قوم کو ایک بار پھر سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا کہ میں اپنے کپڑے بیچ کر عوام کا قرض ادا کروں گا، سستا آٹا فراہم کروں گا۔ یہ تو نہ ہوسکا مگر ان کے اپنے مقاصد تو ضرور پورے ہوگئے۔
پاکستان میں معاشی بدنظمی سے کتنے مسائل جنم لیتے ہیں، جن میں بنیادی ضروریات زندگی اور کھانے پینے کی اشیا میں اضافہ، ٹیکس چوری، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، مصنوعی بحران پیدا کرنا وغیرہ شامل ہے۔ امیر طبقے کی ٹیکس چھوٹ کی مد میں ایک ہزار 275 ارب کی کوئی پوچھ نہیں، اس کا بوجھ بھی عام آدمی پر آیا۔ آخر جمہوری ادوار میں ہی ایسا کیوں؟ مسائل میں اضافہ اور بے انتہا کرپشن کیوں؟ ان جمہوریت کے ٹھیکیداروں کا ابھی تک پیٹ نہیں بھرا؟
اگر پاکستان پر کوئی ناگہانی آفت آئے، زلزلہ یا کسی اور قدرتی وبا کا سامنا ہو تو قوم آرمی کی منتظر ہوتی ہے۔ تب یہ سیاستدان جن کا دماغ قوم کا پیسہ کھانے پر چلتا ہے، ایسے موقع پر یہ بھی آرمی کو پکارتے ہیں۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جنرل ایوب کے دور میں ترقیاتی کام ہوئے اور ڈیم بنے، پرویز مشرف دور میں بھی غربت میں کمی اور بے شمار سرمایہ کار لائے گئے۔ پاکستان کا سائیکل والا آدمی موٹر سائیکل اور موٹر سائیکل والا گاڑی پر آگیا۔
اب موجودہ معاشی صورتحال اتنی گمبھیر ہوگئی ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے کچھ روز پہلے تاجروں سے ملاقات کی، جس میں اُن کی پرپوزل تھی کہ اس وقت ملک کو میثاق جمہوریت کے بجائے میثاق معشیت کی ضرورت ہے۔ کرپشن کے خاتمے اور معاشی نظم و ضبط کےلیے مافیاز کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہوا جس کے بعد ڈالر کی قیمت میں انٹر بینک میں 2 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 6 روپے کمی دیکھی گئی، اور ایک تولہ سونا 5800 روپے سستا ہوا۔ اسی طرح چینی کی قیمتوں میں جو اس قدر اضافہ ہوا تھا ان کے خلاف ایک ہی کریک ڈاؤن کی جھلک نے چینی جس کی قیمت 200 روپے فی کلو، لاہور166 اور مختلف شہروں میں ریٹ کے حساب سے واضح کمی ہوئی۔ ڈیلرز کا کہنا ہے کرشنگ سیزن آچکا ہے جس سے پرچون ریٹ میں مزید کمی متوقع ہے مگر کچھ بھی ہو یہ بات تو سب کو ماننی پڑے گی کہ اس کریک ڈاؤن کا اثر تو مثبت ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہوں گی کہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے بگڑے تگڑوں کا ڈنڈا پیر۔ اس قوم کو سدھارنے کےلیے بھی اب شاید ڈنڈا ہی چلانا پڑے گا کیونکہ یہ نظام اوپر سے لے کر نیچے تک بگڑا ہوا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔