نئے اقتصادی زاویے

اگر کسی ملک کی معیشت اور اقتصادی حالت بہتر ہو گی تو وہ تب ہی سائنسی میدان میں کوئی کام کر سکتا ہے

اگر کسی ملک کی معیشت اور اقتصادی حالت بہتر ہو گی تو وہ تب ہی سائنسی میدان میں کوئی کام کر سکتا ہے۔ فوٹو : فائل

جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں برکس سمٹ ہوئی، یہ اس گروپ کا پندھرواں اجلاس تھا۔ اس تنظم کی اثرپذیری کا دائرہ مسلسل وسیع ہو رہا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اس کی اہمیت کو سمجھا جا رہا ہے۔

حالیہ اجلاس میں چھ نئے ارکان کو شامل کرنے کی منظوری دی گئی، ان ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، ایران، ایتھوپیا اور ارجنٹائن شامل ہیں۔ یہ مکمل اگلے برس کے شروع میں برکس کے باقاعدہ رکن بن جائیں گے۔ چین، بھارت، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ اس کے گروپ کے ابتدائی ارکان ہیں۔ پاکستان کی بھی خواہش ہے کہ وہ اس گروپ کا حصہ بنے اور اس کے لیے کوشش شروع کردی گئی ہے۔

گزشتہ روز نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے برکس میں مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان کو جامع بریفنگ دی۔ بریفینگ کے دوران انھوں نے کہا کہ برکس کی توسیع اراکین کے اتفاق رائے پر منحصر ہے۔ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل نو اور ڈالر پر انحصار کم کرنے کے اپنے اہداف کی وجہ سے اس گروپ میں شامل ہونے کے امکانات کو تلاش کر رہا ہے۔

اجلاس میں سینیٹرز کی جانب سے برکس میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے بھارت کی جانب سے ممکنہ ویٹو کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا۔ وزیر خارجہ نے یقین دلایا کہ اس طرح کے ویٹو کا سہارا لینے والا کوئی بھی رکن گروپ کے اندر اپنی حیثیت کو خطرے میں ڈالتا ہے، پاکستان کسی بلاک پالیٹیکس میں ملوث نہیں ہوگا جس کا مقصد تمام اقوام کے ساتھ مثبت تعلقات رکھنا ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین کے استفسار پر وزیر خارجہ نے کہا کہ برکس میں رکنیت پاکستان کو ایک اہم بین الاقوامی فورم پر نمایندگی دے گی اور رکن ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو آسان بنائے گی۔ چترال میں امن و امان پر پوچھے گئے سوال پر وزیر خارجہ نے کہا صورت حال قابو میں ہے، پاکستان افغان عبوری حکومت کے ساتھ مصروف عمل ہے، ہمارے سفیر معاملے کو حل کرنے کے لیے افغان حکام سے ملاقات کر رہے ہیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ اب دنیا ملٹی پولرہونے جا رہی ہے۔ سرد جنگ کے ساتھ ہی ٹو پولر کا فیز اختتام کو پہنچا۔ کیونکہ سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا۔ امریکا واحد سپرپاور کے روپ میں سامنے آیا لیکن اب بتدریج عالمی سطح پر جیوپولیٹیکل اور جیو اکنامکس تبدیلیاں آ رہی ہیں جس کی وجہ سے عالمی پاورز کے تصور میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

اب سب سے زیادہ اہمیت معیشت اور اقتصادیات کو حاصل ہو گئی ہے۔ کیونکہ اگر کسی ملک کی معیشت اور اقتصادی حالت بہتر ہو گی تو وہ تب ہی سائنسی میدان میں کوئی کام کر سکتا ہے۔ اس لیے دنیا میں معاشیات اور اقتصادیات کے معیارات کو دیکھ کرنئے بلاک بن رہے ہیں۔

افریقی ممالک نے بھی اپنی ایک تنظیم بنا رکھی ہے، اس تنظیم کابنیادی نقطہ اقتصادی ترقی پر مشتمل ہے۔ یورپی یونین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ یہ تنظیم خالصتاً اقتصادی فوائد کے حوالے سے قائم ہوئی اور مختلف نشیب وفراز سے گزری۔برطانیہ اس تنظیم سے الگ ہوا لیکن اس کے باوجود یہ تنظیم قائم ہے اور اس کے رکن ممالک کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

برکس کا بنیادی نقطہ بھی ملٹی پولر ورلڈ اور اقتصادی مواقع کی تلاش ہے۔ ابتداء میں جب یہ تنظیم یا گروپ قائم ہوا تو اس وقت اس کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا لیکن اب یہ تنظیم اپنی اہمیت کو ثابت کر رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ارجنٹائن اور سعودی عرب جیسے ملک بھی اس کے رکن بن گئے ہیں۔ اس وقت اس گروپ میں گیارہ ملک شامل ہیں۔ اگر ان ممالک کو دیکھا جائے تو عالمی مالیات اور تجارت میں ان کا حصہ بہت زیادہ ہے۔


چین، امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ برازیل اور ارجنٹائن براعظم جنوبی امریکا کے سب سے بڑے ملک اور اقتصادی طاقت ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بڑی اقتصادی قوتیں ہیں۔

روس یورپ کی طاقت ور فوجی اور معاشی قوت ہے جب کہ جنوبی افریقہ، ایتھوپیا اور مصر براعظم افریقہ کی بڑی معیشتیں ہیں۔ جب کہ بھارت بھی بڑی عالمی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہے۔ ایران کے پاس ترقی کے خاصے مواقع ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ تنظیم معاشی طور پر اپنے رکن ممالک کو بہت زیادہ فوائد دے سکتی ہے اور اس کا مقصد بھی یہی ہے۔

برکس کا اپنا بینک ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرز پر کام کر رہا ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام کے پاس پہلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جانے کے سوا کوئی متبادل نہیں تھا لیکن اب برکس کی صورت میں متبادل سامنے آ رہا ہے۔ عالمی معیشت کو مساوی انداز میں چلانے کے لیے نئے معاشی نظریے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جن معاشی نظریات کے تحت قائم ہوئے تھے، اب ان میں نئی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

امریکا ان اداروں کے ذریعے اپنی ملٹری قوت کو بھی استعمال کر رہا تھا اور اسے ترقی بھی دے رہا تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک مالیات کے جس نظام کو اپنائے ہوئے ہیں، وہ اب ترقی پذیر ملکوں اور پسماندہ ملکوں کے لیے فائدہ مند ہونے کے بجائے مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوتے تو دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کو امداد نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ وابستہ ہیں اور انھی کی مالیاتی پالیسیوں کو لے کر کام کر رہے ہیں۔ ان کے پاس کسی ملک کی ترقی کے لیے متبادل پلان نہیں ہے جب کہ آئی ایم ایف جس حکمت عملی پر کاربند ہے، اس میں ترقی پذیر ملکوں کے لیے اصلاحات کا پہلو بہت کمزور ہے۔

آئی ایم ایف کی توجہ کا مرکز قرض کی وصولی ہوتا ہے۔ اسی کو سامنے رکھ کر آئی ایم ایف کے حکام اپنے رکن ملک کو قرضہ دینے کی منظوری دیتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ وہ جس قرضے کی منظوری دے رہا ہے، اس کی سوفیصد واپسی کیسے ممکن ہے۔ اس کے لیے وہ ایسی اصلاحات یا شرائط سامنے رکھتا ہے، جو سو فیصد قرض کی واپسی کو یقینی بنائیں۔

ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ ان ممالک کا معاشی پیٹرن بھی ٹوٹ پھوٹ اور کرپشن کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو ہی دیکھ لیں۔ پاکستان کا بیشتر حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ خیبرپختونخوا کا سابقہ فاٹا اور پاٹا ایریاز، بلوچستان، دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کا قبائلی ریجن کا قومی ریونیو میں حصہ انتہائی کم ہے جب کہ ان علاقوں پروفاق کا خرچ بہت زیادہ ہے۔

پاکستان میں ادارہ جاتی کک بیکس کی شرح بہت بلند ہے۔ہیلتھ، توانائی کے شعبے میں مہنگائی کی وجہ کک بیکس ہی ہیں۔ جن وزارتوں اور سرکاری ڈیپارٹمنٹس نے توانائی کمپنیوں کے ساتھ مہنگے ریٹس پر معاہدے منظور کیے ہیں، وہی توانائی کے ذرایع کی مہنگائی کے ذمے دار بھی ہیں۔ اسی طرح ادویات کی مہنگائی کی بنیادی وجہ بھی ادارہ جاتی کک بیکس یا تحائف ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری اداروں کے قواعد وضوابط بھی قانون کے لبادے میں کرپشن کو جنم دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر سرکاری افسروں اور دیگر عہدیداروں کو غیرمعمولی حد تک مفت بجلی کے یونٹس دینا، مفت پٹرول کی غیرمعمولی حد مقرر کرنا، ہاؤس رینٹ کی غیرمعمولی حد مقرر کرنا، طاقت ور سرکاری عہدیداروں کو مفت بڑے بڑے پلاٹ الاٹ کرنا، مربعوں کے حساب سے زرعی اراضی الاٹ کرنا، دوسروں کو زمینیں یا مالی فوائد پہنچانے کے صوابدیدی اختیارات تفویذ ہونا، یہ ایک طرح کی ایسی قانونی سہولتیں، مراعات اور رعایتیں ہیں، جن کاکوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔

آئین میں بھی ایسی رعایتوں، سہولتوں اور مراعات درج نہیں ہیں لیکن یہ سب ادارہ جاتی قواعد وضوابط کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی بدحالی کی بنیادی وجہ ایسا کمزورنظام ہے، جو صرف اس ملک کے عوام کے استحصال پر قائم رہتا ہے۔ اس نظام کو آئی ایم ایف چھیڑنے یا تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ برکس اس حوالے سے کیا نظریہ اپناتا ہے اور کیا کردار اپناتا ہے۔
Load Next Story