سفید رنگ اور اقلیتیں
انتہا پسندی کی روک تھام میں مساجد کے ساتھ سب سے اہم کردار ہماری جامعات کا بھی ہے
پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں واضح کردیا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں رنگ،نسل،مذہب اور فرقے کی تفریق کیے بغیر تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔
قیام پاکستان کے بعد 20 فیصد سے زائد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری بھی پاکستان کا حصہ تھی۔پاکستان کے پرچم میں سفید رنگ کے ذریعے اقلیتی برادری کو نمایندگی دی گئی۔
پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر پنجاب میں کرسچین کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایس پی سنگھا، فضل الٰہی اورسیسل گبن پنجاب اسمبلی سے پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے تو پنجاب پاکستان کا حصہ نہ ہوتا۔
جدوجہد آزادی سے لے کر پاکستان کی تعمیر و ترقی تک اقلیتی برادری نے ہر شعبہ زندگی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ چاہے وہ پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والے سفیر پاکستان جمشید مارکر ہوں یا عدلیہ سے جسٹس دراب پٹیل کرسچین کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس کارنیلئس ہوں یا ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جسٹس رانا بھگوان داس۔ ہر شعبہ زندگی میں اقلیتی برادری نے اپنے نمایاں کارناموں سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔
آج پاکستان کی اقلیتیں کس حال میں ہیں اس کی ایک جھلک سانحہ جڑانوالہ سے نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اچانک اقلیتوں کے خلاف پرتشدد ہجوم کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو شہریوں کو اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف پرتشدد حملوں پر اکساتے ہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر جگہ اقلیتوں پر تشدد ہو رہا ہے،اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد آج ماضی سے بہتر زندگی گزار رہی ہے۔
آج اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے،ان میں ڈاکٹر بھی ہیں،انجینئر بھی ہیں ،کاروباری اور صعنت کار بھی ہیں،استاد اور ٹیکنیشن بھی ہیں۔اس وقت ملک پاکستان میں متعدد مشنری ادارے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کر رہی اور ملکی ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی ہے۔
اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں بھارت میں بھی ہوتی ہیں اور بڑے پیمانے پر ہوتی ہیں،لیکن اس کے خلاف عالمی میڈیا اتنا شور نہیں مچاتا جتنا پاکستان میں کسی بھی واقعہ پر مچایا جاتا ہے۔پاکستان میں اقلیتیں پرامن طور پر رہ رہی ہیں ،کسی ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔ پُرتشدد ہجوم کی ذہنیت ایک جامع سائنس ہے، جس کے مطابق لوگ ہجُوم میں اپنے کسی بھی رویے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
جب آپ ہجوم کا حصہ بن جائیں تو آپ کی انفرادی پہچان تو ختم ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ کی سوچنے سمجھنے کی انفرادی صلاحیت بھی دب جاتی ہے۔ اب آپ وہی کرتے ہیں جو ہجوم کر رہا ہے ۔ آپ خود درست اور غلط میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ خود کو بہتر سمجھنے والا مشتعل ہجوم آپ کو کنٹرول کر رہا ہے۔کسی بھی تشدد کو روکنے کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کے تمام افراد آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔
اکثریتی اور اقلیتی آبادی کے بااثر اور رسوخ والے افراد اور مذہبی طبقات کو باہم مل کر محلے کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینی چاہیے تاکہ کسی بھی واقعہ پر تشدد کا مل کر انسداد کیا جا سکے۔ہر کوئی ملک میں امن چاہتا ہے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ملک میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جس سے امن اور شہریوں کی جان و مال کو خطرات لاحق ہوں۔
پاکستان میں ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لیں اور 'فوری انصاف' فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ ہجوم میں ان کی اور ان کے فعل کی پہچان اب ختم ہو گئی ہے اس لیے انھیں علم ہے کہ ان کی پکڑ نہیں ہو گی۔
بدقسمتی سے ابھی تک پاکستان میں موب وائلنس یعنی پرتشدد ہجوم کے خلاف موثر قانونی سازی نہیں کی گئی۔ پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں جلاؤ گھیراؤ یا حملوں کے خلاف پرانے قوانین کے تحت ہی مقدمات قائم کیے جاتے ہیں ہجوم کا حصہ بننے پر الگ سے کوئی قوانین موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور قوانین، ناقص تفتیش،شواہد کی عدم دستیابی اور پراسیکوشن کی غلطیوں کی وجہ سے ملزمان ٹرائیل کے دوران عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔
2017 میں سانحہ جوزف کالونی کے 115 ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت نے ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے رہا کردیا۔کمزور قوانین اور ناقص تفتیش کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر سماج میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، انتہا پسندی اور موب وائلنس کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔اب تک اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تمام حملوں میں سب سے اہم ترین نکتہ اشتعال انگیز اعلانات اور تقاریر تھیں۔ جڑانوالہ سانحے میں بھی ایسے ہی اعلانات کیے گئے۔
انتہا پسندی کی روک تھام میں مساجد کے ساتھ سب سے اہم کردار ہماری جامعات کا بھی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے موجودہ نصاب کے ہوتے ہوئے تعلیمی ترقی تو دور کی بات اس نصاب کے ساتھ ہم 21 ویں صدی کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔ چلیں اسکول اور کالج لیول تک تو پھر بھی نصاب اور معیار تعلیم پر پھر بھی کسی حد تک چیک اینڈ بیلنس موجود ہے۔یونیورسٹی لیول پر پاکستان بھر کی جامعات میں نہ تو نصاب پر نظر رکھنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ ہماری جامعات میں کس نظریات کی ترویج کی جارہی ہے؟
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جس طرح اسلاموفوبیا اور اسلامی شعائر کی توہین کے خلاف پورا عالم اسلام یکجا ہوکر او آئی سی اور دیگر پلیٹ فارمز سے آواز بلند کرتا ہے بلکہ اسی طرح پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں پر مغربی ممالک سے بھی سفارتی دبائو آسکتا ہے۔سفارتی دبائو کے ساتھ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس انسانی حقوق کی آزادیوں اور اقلیتوں کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔
اکثریتی اور اقلیتی آبادی کے مذہبی افراد باہم مل کر محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنائیں اور لوگوں کو پرامن رہنے کی ترغیب دیں۔کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں یہ کمیٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں جس سے جڑانوالہ جیسے سانحات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ہمہ جہت اقدامات شروع کرے۔
قیام پاکستان کے بعد 20 فیصد سے زائد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری بھی پاکستان کا حصہ تھی۔پاکستان کے پرچم میں سفید رنگ کے ذریعے اقلیتی برادری کو نمایندگی دی گئی۔
پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر پنجاب میں کرسچین کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایس پی سنگھا، فضل الٰہی اورسیسل گبن پنجاب اسمبلی سے پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے تو پنجاب پاکستان کا حصہ نہ ہوتا۔
جدوجہد آزادی سے لے کر پاکستان کی تعمیر و ترقی تک اقلیتی برادری نے ہر شعبہ زندگی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ چاہے وہ پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والے سفیر پاکستان جمشید مارکر ہوں یا عدلیہ سے جسٹس دراب پٹیل کرسچین کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس کارنیلئس ہوں یا ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جسٹس رانا بھگوان داس۔ ہر شعبہ زندگی میں اقلیتی برادری نے اپنے نمایاں کارناموں سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔
آج پاکستان کی اقلیتیں کس حال میں ہیں اس کی ایک جھلک سانحہ جڑانوالہ سے نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اچانک اقلیتوں کے خلاف پرتشدد ہجوم کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو شہریوں کو اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف پرتشدد حملوں پر اکساتے ہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر جگہ اقلیتوں پر تشدد ہو رہا ہے،اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد آج ماضی سے بہتر زندگی گزار رہی ہے۔
آج اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے،ان میں ڈاکٹر بھی ہیں،انجینئر بھی ہیں ،کاروباری اور صعنت کار بھی ہیں،استاد اور ٹیکنیشن بھی ہیں۔اس وقت ملک پاکستان میں متعدد مشنری ادارے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کر رہی اور ملکی ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی ہے۔
اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں بھارت میں بھی ہوتی ہیں اور بڑے پیمانے پر ہوتی ہیں،لیکن اس کے خلاف عالمی میڈیا اتنا شور نہیں مچاتا جتنا پاکستان میں کسی بھی واقعہ پر مچایا جاتا ہے۔پاکستان میں اقلیتیں پرامن طور پر رہ رہی ہیں ،کسی ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔ پُرتشدد ہجوم کی ذہنیت ایک جامع سائنس ہے، جس کے مطابق لوگ ہجُوم میں اپنے کسی بھی رویے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
جب آپ ہجوم کا حصہ بن جائیں تو آپ کی انفرادی پہچان تو ختم ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ کی سوچنے سمجھنے کی انفرادی صلاحیت بھی دب جاتی ہے۔ اب آپ وہی کرتے ہیں جو ہجوم کر رہا ہے ۔ آپ خود درست اور غلط میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ خود کو بہتر سمجھنے والا مشتعل ہجوم آپ کو کنٹرول کر رہا ہے۔کسی بھی تشدد کو روکنے کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کے تمام افراد آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔
اکثریتی اور اقلیتی آبادی کے بااثر اور رسوخ والے افراد اور مذہبی طبقات کو باہم مل کر محلے کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینی چاہیے تاکہ کسی بھی واقعہ پر تشدد کا مل کر انسداد کیا جا سکے۔ہر کوئی ملک میں امن چاہتا ہے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ملک میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جس سے امن اور شہریوں کی جان و مال کو خطرات لاحق ہوں۔
پاکستان میں ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لیں اور 'فوری انصاف' فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ ہجوم میں ان کی اور ان کے فعل کی پہچان اب ختم ہو گئی ہے اس لیے انھیں علم ہے کہ ان کی پکڑ نہیں ہو گی۔
بدقسمتی سے ابھی تک پاکستان میں موب وائلنس یعنی پرتشدد ہجوم کے خلاف موثر قانونی سازی نہیں کی گئی۔ پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں جلاؤ گھیراؤ یا حملوں کے خلاف پرانے قوانین کے تحت ہی مقدمات قائم کیے جاتے ہیں ہجوم کا حصہ بننے پر الگ سے کوئی قوانین موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور قوانین، ناقص تفتیش،شواہد کی عدم دستیابی اور پراسیکوشن کی غلطیوں کی وجہ سے ملزمان ٹرائیل کے دوران عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔
2017 میں سانحہ جوزف کالونی کے 115 ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت نے ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے رہا کردیا۔کمزور قوانین اور ناقص تفتیش کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر سماج میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، انتہا پسندی اور موب وائلنس کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔اب تک اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تمام حملوں میں سب سے اہم ترین نکتہ اشتعال انگیز اعلانات اور تقاریر تھیں۔ جڑانوالہ سانحے میں بھی ایسے ہی اعلانات کیے گئے۔
انتہا پسندی کی روک تھام میں مساجد کے ساتھ سب سے اہم کردار ہماری جامعات کا بھی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے موجودہ نصاب کے ہوتے ہوئے تعلیمی ترقی تو دور کی بات اس نصاب کے ساتھ ہم 21 ویں صدی کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔ چلیں اسکول اور کالج لیول تک تو پھر بھی نصاب اور معیار تعلیم پر پھر بھی کسی حد تک چیک اینڈ بیلنس موجود ہے۔یونیورسٹی لیول پر پاکستان بھر کی جامعات میں نہ تو نصاب پر نظر رکھنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ ہماری جامعات میں کس نظریات کی ترویج کی جارہی ہے؟
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جس طرح اسلاموفوبیا اور اسلامی شعائر کی توہین کے خلاف پورا عالم اسلام یکجا ہوکر او آئی سی اور دیگر پلیٹ فارمز سے آواز بلند کرتا ہے بلکہ اسی طرح پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں پر مغربی ممالک سے بھی سفارتی دبائو آسکتا ہے۔سفارتی دبائو کے ساتھ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس انسانی حقوق کی آزادیوں اور اقلیتوں کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔
اکثریتی اور اقلیتی آبادی کے مذہبی افراد باہم مل کر محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنائیں اور لوگوں کو پرامن رہنے کی ترغیب دیں۔کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں یہ کمیٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں جس سے جڑانوالہ جیسے سانحات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ہمہ جہت اقدامات شروع کرے۔