یہ ہے زندگی
حکومت کو نظر نہیں آ رہا ہے کیا؟ ایسی حکومت کا کوئی فائدہ ہے، ہمارے لیے تو عذاب بن گئی ہے
دو تین ماہ قبل کی بات ہے جب مارکیٹ سے دکانیں غائب ہونا شروع ہوگئیں اور شٹر پر تالے لگے نظر آئے، ہم نے ایک دو معتبر دکانداروں سے معلوم کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔
انھوں نے جواب دیتے ہوئے بڑے کرب سے کہا۔ باجی! ان لوگوں نے فلیٹوں کے نیچے بنی دکانوں میں اپنا کاروبار جما لیا ہے وہ حالات نہیں رہے ہیں، اب توگاہک سپر مارکیٹ اور دوسری بڑی مارکیٹوں کا رخ کم ہی کرتے ہیں، مہنگائی نے سب کو مار دیا ہے، دکاندارکرایہ نہیں دے سکتا ہے، کرایہ بھی تو دیکھو اورگاہک کے لیے ضروریات زندگی کی چیزیں خریدنا بہت مشکل ہے، لوگوں کے پاس روزگار اور نہ کوئی اور ذریعہ تو کیا کھائیں اور کیا خریدیں، نہ دوا کے پیسے اور بچوں کی تعلیم بھی گئی، بے شمار گھرانوں کے بچے اسکول چھوڑ چکے ہیں، اب آیندہ کے حالات اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے، غیر تعلیم یافتہ، بھوکے پیاسے بچے چوری اور ڈاکا ڈالنے پر مجبور ہو جائیں گے اور جب ذرا بڑے ہوں گے تو عادی مجرم بن جائیں گے، عادی مجرم تو اب بھی گلی کوچوں میں ڈکیتی کرتے پھر رہے ہیں، مزاحمت پر گولی چلا دیتے ہیں۔
باجی! بالکل ایسا ہی ہے۔
حکومت کو نظر نہیں آ رہا ہے کیا؟ ایسی حکومت کا کوئی فائدہ ہے، ہمارے لیے تو عذاب بن گئی ہے، آج حالات ایسے ہوگئے ہیں، رات کے اندھیرے میں اور دن کی روشنی میں سنسان جگہوں پر عزت دار لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں حکومت خود بھی ہاتھ میں کٹورا لے کر بھیک مانگ رہی ہے اور اپنی عوام کو بھی ان کی دیانت داری، محنت و مشقت کا صلہ یہ دیا ہے کہ ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے، اب مائیں بچوں کو دودھ کے بجائے پانی پلا رہی ہیں، صرف چینی ڈال کر۔ ابے چینی کیا مفت مل رہی ہے، پورے 200 روپے کلو ہے، اور چینی کے اسمگلرز خوب اسمگلنگ کر رہے ہیں، اگر پکڑے جاتے ہیں تو کچھ دے دلا کر چھوڑ دیا جاتا ہے، غریب کا بچہ پکڑا جائے تو اس پر باغ یا کھیت کا مالک بھی ظلم کرتا ہے کمرہ بند کرکے مارتا ہے، ڈنڈے برساتا ہے، سر پھاڑ دیتا ہے ، محض ایک آم یا خوشۂ گندم کی خاطر جب ادھ موا ہو جاتا ہے تو پولیس کے حوالے کردیتے ہیں، پولیس اپنی ذمے داری اس طرح نبھاتی ہے کہ تڑپتا ہوا جسم لاش بن جاتا ہے، یہ تیسرا شخص تھا جس نے اپنی چلتی ہوئی اور مال و اسباب سے بھری دکان کو خیر باد کر کے ایک ٹھیلا لگا لیا تھا جس پرگھریلو اشیا کے ساتھ تھوڑے سے پھل کی ڈھیری موجود تھی۔
اسی دوران ایک خاتون اور بھی آگئی اور آتے ہی روہانسی آواز میں بولیں، بے شک مہنگائی نے کہیں کا نہیں چھوڑا اور ساتھ 5 ہزارکا بل ادا کرنے والے کو چالیس، پینتالیس ہزار بنا سوچے سمجھے بھیج دیا ہے،کم ازکم ماہانہ آمدنی کے بارے میں یہ بجلی والے معلومات کر لیا کریں کہ جب تنخواہیں قلیل ہیں، کھانے کے لالے پڑگئے ہیں تو بل کہاں سے ادا کریں گے، یہ بجلی والے اندھے، بہرے ہیں کیا ؟ انھیں عوام کی آہیں اور ہر روز دو، دو خودکشی کرنے والے نظر نہیں آتے ہیں کیا؟ اب ذرا سنو، میری داستان ان تینوں کے کان کھڑے ہوگئے، نہ جانے کون سا قصہ یا خونی کہانی منظر عام پر آنے والی ہے۔
قصہ گو نے اپنا قصہ بیان کرنے کی کوشش کی تو آنسوؤں کی نمی نے اشکوں کا روپ دھار لیا اور پچکے گالوں، جھریاں پڑے چہرے پر اشک بہہ نکلے، وہ تینوں خاموش اور منتظر تھے کہ نہ جانے گرانی کے ہاتھوں کون سا حادثہ پیش آگیا ہے۔
عورت نے ہاتھ میں پکڑے بڑے سے کاٹن کے رومال سے آنسو پونچھے، اب مجھ سمیت ان کی بھی نگاہیں سفید گھر کے سلے ہوئے رومال پر تھیں، جو رومال کم دسترخوان زیادہ نظر آ رہا تھا۔ آنسو بھی تو زیادہ بڑھ گئے ہیں، میں نے کرب سے سوچا۔ اس دوران اس عورت کے لب کھل گئے، دیکھو! کتنی گرمی ہے پسینہ سر سے لے کر چہرے تک آ گیا ہے گویا اس نے آنسوؤں کی کہانی پر پردہ ڈالنا چاہا۔ لیکن کہانی سامنے آ گئی تھی، آنسوؤں نے راز کھولنے کی کوشش کی تھی لیکن عورت کے آگے غیرت اور حیا سامنے آ کر کھڑی ہوگئی تھی، راستہ بند تھا کہانی کیسے سامنا کرتی، اسی اثنا میں عورت نے اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ بھلا شرم کیسی ہے سب ایک ہی راستے کے راہی ہیں جن کی کوئی منزل نہیں، لیکن جب پاکستان بنا تھا تب تو منزل تھی۔
آزادی کی خوشی، اپنے وطن پیارے وطن میں زندگی گزارنے کی خوشی ہر دکھ و تکلیف سے بچنے کی خوشی، اسلام کی روشنی اور حقوق کی حفاظت کی خوشی اور پھر 27 ویں شب عبادات عید کی آمد، بے سروسامانی کے باوجود لوگوں کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ لیکن اب ؟ اپنے ہی لوگوں نے ہمارے جسموں پر، ہمارے گھر پر، ہماری تمناؤں اور خوشیوں پر کیسا بھالا مارا ہے؟ دنیا ہنس رہی ہے، باہر کے لوگ مشورے دے رہے ہیں کہ غریبوں کو بخش دو، ٹیکس اور مہنگائی امیروں کے کھاتے میں ڈالو، جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
یہ ملک اللہ کے نام پر بنا تھا۔ ہم نبی آخرالزماںؐ کے امتی ہیں، ان کی یہ تعلیم تو نہیں۔ ماں جی! کیا سوچ رہی ہو، کچھ بولو تو، کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ؟
''ہاں، ہاں'' کہتے ہوئے وہ عورت ہوش میںآئی، بولی آج اپنا فریج بیچ کر آئی ہوں، بڑے ارمانوں سے خریدا تھا، نیا کا نیا تھا، صرف چالیس ہزار میں، کل سونے کے بُندے بیچنے صرافہ بازار گئی تھی، وہ مجھے اپنی بیٹی سونیا کے جہیز میں دینے تھے۔ آہستہ آہستہ بچی کا جہیز بنایا تھا، اس نے ایک سرد آہ بھری اور ہمت کر کے بولی، اور اب بل بھروں گی بجلی کا، اس ملک کے سب وہ لوگ جو اختیار رکھتے ہیں، ہمدردی اور انسانیت سے بہت دور چلے گئے، انصاف اور قانون بے بس لوگوں کے لیے بنا ہے، اصل مجرموں کو پکڑتے نہیں اور ہمارے بچوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں، ہمارے بیٹوں کو گرفتار کر لیتے ہیں۔
اری اماں! یہ کیسی باتیں کر رہی ہو، خود بھی پھنسوگی اور ہمیں بھی مرواؤ گی، مجمع سے ایک عورت اور ایک مرد بے ساختہ بول اٹھے، عورت نے اشکبار آنکھوں کو اوپر اٹھایا، اس کے اردگرد تو مجمع لگ چکا تھا، یہ دکانوں پر آنے والے گاہک تھے جو سودا سلف کو بھول کر اس بوڑھی عورت کی داستان سن رہے تھے اس بار اس نے شرم اور جھجک کو بالائے طاق رکھا اور غصے سے بولی، میرا شوہر بارہ ماہ سے بستر پر پڑا ہے، بیٹی اسکول میں پڑھا رہی تھی لیکن اسے بھی میں نے گھر بٹھا لیا ہے، فاقے کر لیں گے پر عزت کا سودا نہیں کریں گے اسکولوں، کالجوں میں بھی جوان عورتوں کی عزت محفوظ نہیں رہی ہے۔
قریب سے ہی ہارن کی آواز گونجی تھی، آواز سن کر وہ سب تتر بتر ہوگئے اور کاروبار زندگی دھیمی رفتار سے رینگتا رہا۔
انھوں نے جواب دیتے ہوئے بڑے کرب سے کہا۔ باجی! ان لوگوں نے فلیٹوں کے نیچے بنی دکانوں میں اپنا کاروبار جما لیا ہے وہ حالات نہیں رہے ہیں، اب توگاہک سپر مارکیٹ اور دوسری بڑی مارکیٹوں کا رخ کم ہی کرتے ہیں، مہنگائی نے سب کو مار دیا ہے، دکاندارکرایہ نہیں دے سکتا ہے، کرایہ بھی تو دیکھو اورگاہک کے لیے ضروریات زندگی کی چیزیں خریدنا بہت مشکل ہے، لوگوں کے پاس روزگار اور نہ کوئی اور ذریعہ تو کیا کھائیں اور کیا خریدیں، نہ دوا کے پیسے اور بچوں کی تعلیم بھی گئی، بے شمار گھرانوں کے بچے اسکول چھوڑ چکے ہیں، اب آیندہ کے حالات اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے، غیر تعلیم یافتہ، بھوکے پیاسے بچے چوری اور ڈاکا ڈالنے پر مجبور ہو جائیں گے اور جب ذرا بڑے ہوں گے تو عادی مجرم بن جائیں گے، عادی مجرم تو اب بھی گلی کوچوں میں ڈکیتی کرتے پھر رہے ہیں، مزاحمت پر گولی چلا دیتے ہیں۔
باجی! بالکل ایسا ہی ہے۔
حکومت کو نظر نہیں آ رہا ہے کیا؟ ایسی حکومت کا کوئی فائدہ ہے، ہمارے لیے تو عذاب بن گئی ہے، آج حالات ایسے ہوگئے ہیں، رات کے اندھیرے میں اور دن کی روشنی میں سنسان جگہوں پر عزت دار لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں حکومت خود بھی ہاتھ میں کٹورا لے کر بھیک مانگ رہی ہے اور اپنی عوام کو بھی ان کی دیانت داری، محنت و مشقت کا صلہ یہ دیا ہے کہ ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے، اب مائیں بچوں کو دودھ کے بجائے پانی پلا رہی ہیں، صرف چینی ڈال کر۔ ابے چینی کیا مفت مل رہی ہے، پورے 200 روپے کلو ہے، اور چینی کے اسمگلرز خوب اسمگلنگ کر رہے ہیں، اگر پکڑے جاتے ہیں تو کچھ دے دلا کر چھوڑ دیا جاتا ہے، غریب کا بچہ پکڑا جائے تو اس پر باغ یا کھیت کا مالک بھی ظلم کرتا ہے کمرہ بند کرکے مارتا ہے، ڈنڈے برساتا ہے، سر پھاڑ دیتا ہے ، محض ایک آم یا خوشۂ گندم کی خاطر جب ادھ موا ہو جاتا ہے تو پولیس کے حوالے کردیتے ہیں، پولیس اپنی ذمے داری اس طرح نبھاتی ہے کہ تڑپتا ہوا جسم لاش بن جاتا ہے، یہ تیسرا شخص تھا جس نے اپنی چلتی ہوئی اور مال و اسباب سے بھری دکان کو خیر باد کر کے ایک ٹھیلا لگا لیا تھا جس پرگھریلو اشیا کے ساتھ تھوڑے سے پھل کی ڈھیری موجود تھی۔
اسی دوران ایک خاتون اور بھی آگئی اور آتے ہی روہانسی آواز میں بولیں، بے شک مہنگائی نے کہیں کا نہیں چھوڑا اور ساتھ 5 ہزارکا بل ادا کرنے والے کو چالیس، پینتالیس ہزار بنا سوچے سمجھے بھیج دیا ہے،کم ازکم ماہانہ آمدنی کے بارے میں یہ بجلی والے معلومات کر لیا کریں کہ جب تنخواہیں قلیل ہیں، کھانے کے لالے پڑگئے ہیں تو بل کہاں سے ادا کریں گے، یہ بجلی والے اندھے، بہرے ہیں کیا ؟ انھیں عوام کی آہیں اور ہر روز دو، دو خودکشی کرنے والے نظر نہیں آتے ہیں کیا؟ اب ذرا سنو، میری داستان ان تینوں کے کان کھڑے ہوگئے، نہ جانے کون سا قصہ یا خونی کہانی منظر عام پر آنے والی ہے۔
قصہ گو نے اپنا قصہ بیان کرنے کی کوشش کی تو آنسوؤں کی نمی نے اشکوں کا روپ دھار لیا اور پچکے گالوں، جھریاں پڑے چہرے پر اشک بہہ نکلے، وہ تینوں خاموش اور منتظر تھے کہ نہ جانے گرانی کے ہاتھوں کون سا حادثہ پیش آگیا ہے۔
عورت نے ہاتھ میں پکڑے بڑے سے کاٹن کے رومال سے آنسو پونچھے، اب مجھ سمیت ان کی بھی نگاہیں سفید گھر کے سلے ہوئے رومال پر تھیں، جو رومال کم دسترخوان زیادہ نظر آ رہا تھا۔ آنسو بھی تو زیادہ بڑھ گئے ہیں، میں نے کرب سے سوچا۔ اس دوران اس عورت کے لب کھل گئے، دیکھو! کتنی گرمی ہے پسینہ سر سے لے کر چہرے تک آ گیا ہے گویا اس نے آنسوؤں کی کہانی پر پردہ ڈالنا چاہا۔ لیکن کہانی سامنے آ گئی تھی، آنسوؤں نے راز کھولنے کی کوشش کی تھی لیکن عورت کے آگے غیرت اور حیا سامنے آ کر کھڑی ہوگئی تھی، راستہ بند تھا کہانی کیسے سامنا کرتی، اسی اثنا میں عورت نے اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ بھلا شرم کیسی ہے سب ایک ہی راستے کے راہی ہیں جن کی کوئی منزل نہیں، لیکن جب پاکستان بنا تھا تب تو منزل تھی۔
آزادی کی خوشی، اپنے وطن پیارے وطن میں زندگی گزارنے کی خوشی ہر دکھ و تکلیف سے بچنے کی خوشی، اسلام کی روشنی اور حقوق کی حفاظت کی خوشی اور پھر 27 ویں شب عبادات عید کی آمد، بے سروسامانی کے باوجود لوگوں کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ لیکن اب ؟ اپنے ہی لوگوں نے ہمارے جسموں پر، ہمارے گھر پر، ہماری تمناؤں اور خوشیوں پر کیسا بھالا مارا ہے؟ دنیا ہنس رہی ہے، باہر کے لوگ مشورے دے رہے ہیں کہ غریبوں کو بخش دو، ٹیکس اور مہنگائی امیروں کے کھاتے میں ڈالو، جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
یہ ملک اللہ کے نام پر بنا تھا۔ ہم نبی آخرالزماںؐ کے امتی ہیں، ان کی یہ تعلیم تو نہیں۔ ماں جی! کیا سوچ رہی ہو، کچھ بولو تو، کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ؟
''ہاں، ہاں'' کہتے ہوئے وہ عورت ہوش میںآئی، بولی آج اپنا فریج بیچ کر آئی ہوں، بڑے ارمانوں سے خریدا تھا، نیا کا نیا تھا، صرف چالیس ہزار میں، کل سونے کے بُندے بیچنے صرافہ بازار گئی تھی، وہ مجھے اپنی بیٹی سونیا کے جہیز میں دینے تھے۔ آہستہ آہستہ بچی کا جہیز بنایا تھا، اس نے ایک سرد آہ بھری اور ہمت کر کے بولی، اور اب بل بھروں گی بجلی کا، اس ملک کے سب وہ لوگ جو اختیار رکھتے ہیں، ہمدردی اور انسانیت سے بہت دور چلے گئے، انصاف اور قانون بے بس لوگوں کے لیے بنا ہے، اصل مجرموں کو پکڑتے نہیں اور ہمارے بچوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں، ہمارے بیٹوں کو گرفتار کر لیتے ہیں۔
اری اماں! یہ کیسی باتیں کر رہی ہو، خود بھی پھنسوگی اور ہمیں بھی مرواؤ گی، مجمع سے ایک عورت اور ایک مرد بے ساختہ بول اٹھے، عورت نے اشکبار آنکھوں کو اوپر اٹھایا، اس کے اردگرد تو مجمع لگ چکا تھا، یہ دکانوں پر آنے والے گاہک تھے جو سودا سلف کو بھول کر اس بوڑھی عورت کی داستان سن رہے تھے اس بار اس نے شرم اور جھجک کو بالائے طاق رکھا اور غصے سے بولی، میرا شوہر بارہ ماہ سے بستر پر پڑا ہے، بیٹی اسکول میں پڑھا رہی تھی لیکن اسے بھی میں نے گھر بٹھا لیا ہے، فاقے کر لیں گے پر عزت کا سودا نہیں کریں گے اسکولوں، کالجوں میں بھی جوان عورتوں کی عزت محفوظ نہیں رہی ہے۔
قریب سے ہی ہارن کی آواز گونجی تھی، آواز سن کر وہ سب تتر بتر ہوگئے اور کاروبار زندگی دھیمی رفتار سے رینگتا رہا۔