بجلی چینی آٹے کا بحران عوام کہاں جائیں
تمام ادارے فیل ہو رہے ہیں، قانون، انصاف، تعلیم، صحت اور رہائش اور روزگار ملنا مشکل ہو گیا ہے
ملک میں عبوری حکومت بنتے ہی سابق حکمران لندن اور دبئی روانہ ہوگئے اور عوام کو بجلی، گیس، چینی اور آٹے کے بحران میں چھوڑ کر ملک بھر میں جلسے، جلوس، مظاہرے اور سابقہ حکومتوں سمیت نگران حکومت کے خلاف سڑکوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
آئے روز مظاہرے ہو رہے ہیں مگر بجلی کے بل 20 تا 60 ہزار روپے کے مل رہے ہیں اور مظاہرین ان بلوں کو آگ لگا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے، جب کہ وزیر خزانہ کا بیان ہے کہ ہم بجلی کے بل کم نہیں کر سکتے ساتھ ہی ایک اور وزیر فرما رہے ہیں کہ پہلے بجلی چوروں کو روکیں گے جو 480 ارب روپے کی بجلی چوری کرتے ہیں۔ اب آپ کو اپنے بجلی کے بل ادا کرنے ہوں گے، بعد میں دیکھیں گے۔
ملک بھر کے غریب عوام اور لوئر مڈل کلاس اس مہنگائی سے تنگ آ کر سڑکوں پر مظاہروں میں مشغول ہو گئے ہیں، دوسری طرف نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ کی طرف سے جلد ہی کوئی فیصلہ ہونے والا ہے، دیکھیں کن کن لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے ان لیڈروں کے نام بھی اخبارات میں شایع ہو چکے ہیں، دیکھیں کیا بنتا ہے دوسری طرف کرپشن کی خبریں بھی عام ہو رہی ہیں۔ لاہور میں 5 ارب روپے پٹواری کھا گئے ہیں۔
کراچی میں ملیر ایکسپریس وے میں کرپشن ہوئی ہے اسی طرح حیدرآباد تا سکھر موٹروے بنانے پر بھی کئی ارب روپے کی کرپشن ہوگئی، جب کہ ایک بڑا ملزم ملک سے ہی فرار ہو گیا ہے جب کہ دیگر 5 یا 6 ملزم نیب کی تحویل میں موجود ہیں گویا ہر طرف ہی گڑبڑ مچی ہوئی ہے۔
تازہ خبر پڑھی کہ چینی کے بڑے اسکینڈلز میں گنے کے مل مالکان اور ان کے رسہ گیروں نے چینی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کرکے عوام کی جیب پر 56 ارب کا ڈاکا ڈال دیا ہے شوگر مل کے مالکان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے اور وہی چینی کی قیمت 5 روپے تا 20 روپے فی کلو میں اضافہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح سولر پینلز درآمد کرنے کی آڑ میں 73 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف بھی ہوا ہے ساتھ ہی 38 ارب روپے کی انوائسنگ کا بھی پتا چلا ہے یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ جب کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ اسمگلنگ کو روکا جائے گا، ایران سے تیل کی غیر قانونی منتقلی اور افغانستان سے ڈالر اور چینی کی اسمگلنگ کو روکا جائے گا اور جلد ہی ڈالر کا ریٹ کم ہوگا۔
باہر کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے اور ملک کو بہتری کی طرف لے کر جائیں گے۔ کاش ایسا ہو جائے تو بہتر ہے جب کہ ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی نے بڑے انکشافات کیے ہیں کہ ملک میں ٹیکس چور بہت طاقتور ہیں۔
نہ جاگیردار ٹیکس دیتے ہیں نہ مل مالکان۔ کارخانہ دار اور بڑے بڑے پلازوں اور ہوٹل مالکان سب ہی اپنی آمدنی چھپاتے ہیں اور ٹیکس کا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے اگر اشرافیہ سے پوچھا جائے تو حکمران جماعتوں کے وزرا اور سینیٹر حضرات خطرے کی گھنٹی بجا دیتے ہیں رہ گئے سرکاری ملازمین جن کی تنخواہوں سے وہ کٹوتی ہو جاتی ہے۔ اس سے قبل وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بڑے پرزور انداز میں کہا تھا کہ ملک میں ایک فیصد اشرافیہ کا قبضہ ہے اور 99 فیصد عوام پریشان حال ہیں۔
ان سب حقیقتوں کے بعد بھی ہماری اشرافیہ یا حکمران اپنے ہی طبقے کی بات کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں دوسری طرف عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی اسٹوروں سے بھی سامان غائب ہے اور لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر آٹا، چینی، دال، چاول، تیل اور گھی خریدنے کے لیے آتے ہیں تو کہا جاتا ہے ایک 2 آئٹم ملیں گے یعنی ایک کلو گھی یا تیل 5 کلو چینی یا آٹا لے لیں۔
ہر روز ٹی وی پر خبریں چلتی رہتی ہیں اور حکمرانوں اشرافیہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کم ازکم اب تو سابق حکمرانوں سمیت نگراں حکومتوں کو چاہیے کہ مفت گاڑیاں، کاریں، بنگلے، ڈیزل، پٹرول، بجلی کے مفت کے اخراجات لینا ہی بند کر دیں۔ سینیٹ کے سابق اور موجودہ چیئرمین ڈپٹی چیئرمین سمیت تمام سینیٹر تمام وزیر اعظم سمیت وزیروں، مشیروں اور وزرائے اعلیٰ مفت کی مراعات کا کام بند کردیں۔ اسی طرح تاجروں، صنعت کاروں، چیمبر آف کامرس، اسٹاک ایکسچینج کے بیوپاریوں اور دولت اور ڈالر کا کاروبار کرنے والے اپنی دولت پر قانونی ٹیکس ہی ادا کردیں۔
ملک کے بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، پیر، مخدوم زادے، بڑے بڑے خان بہادر اور سردار اپنے غریب ہاریوں، کسانوں، مزدوروں کے حال پر رحم کرتے ہوئے قرضوں میں جکڑے ہوئے اپنے ملک پاکستان اور اس کی معیشت کو بچانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
اسی طرح جج صاحبان انصاف کی تخواہ کے ساتھ ساتھ خصوصی پروٹوکول اور بڑی بڑی گاڑیوں کا پٹرول، بجلی کے بل، ایئرکنڈیشنڈ گھر اور بنگلے کے چوکیدار، مالی، خانساماں کی تنخواہیں بھی حکومت کی طرف مقرر کی گئی تنخواہ 13 لاکھ 20 ہزار 500 میں سے ادا کریں تاکہ وہ بھی دو وقت کی روٹی اپنے بچوں کے ساتھ آرام سے کھا سکیں۔ تعلیم اور علاج کرا سکیں۔
1975 تک یہ ملک ترقی کی طرف گامزن تھا۔ پورے ملک میں ریل کا نظام ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ پی آئی اے کی پروازیں کامیاب ترین تھیں، KESC اور واپڈا کا نظام کتنا بہتر تھا، گیس اور بجلی کی فراہمی تھی، پانی بھی پینے کا ٹھیک تھا، دودھ اور دہی بغیر ملاوٹ کے ملتی تھی، ملوں اور کارخانوں میں لاکھوں مزدور کام کرتے تھے اور خوشحال تھے، اسی طرح منافع خوری بھی کم تھی، بینکوں کا نظام اور ڈاک خانے اور تار گھر (ٹیلی گرام) کا نظام بہتر تھا۔ کے پی ٹی کا ادارہ کتنا منافع کماتا تھا، کے پی ٹی میں تمام مزدور یا لوڈر بھی خوشحال تھے۔
ہمارا اسٹیل ملز کتنا منافع کماتا تھا، شپ یارڈ میں کتنے بحری جہاز تیار ہوتے تھے، حکمرانوں میں اتنی لوٹ مار اور کرپشن نہیں تھی، ہمارے تعلیمی ادارے کتنے مضبوط تھے، جو سب سرکاری تھے، ہمارے اسپتال کتنے بہتر تھے، ہمارے ڈاکٹر اور انجینئر کتنے فعال تھے، ملک میں بینکوں کا جال بچھا ہوا تھا، انشورنس کمپنیاں کتنی فعال تھیں، بے روزگاری برائے نام تھی، کس کس ادارے کا نام لکھوں سب ہی بہتر تھے۔
ہمارے پولیس اسٹیشن بہتر تھے، روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ کتنی ہوتی تھی، کراچی سرکلر ریلوے کتنے بہتر انداز میں چلتی تھی، لیکن اب تمام ادارے فیل ہو رہے ہیں، قانون، انصاف، تعلیم، صحت اور رہائش اور روزگار ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ کاش ہمارے حکمران کچھ تو سوچ لیں، حبیب جالب یاد آگئے۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
آئے روز مظاہرے ہو رہے ہیں مگر بجلی کے بل 20 تا 60 ہزار روپے کے مل رہے ہیں اور مظاہرین ان بلوں کو آگ لگا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے، جب کہ وزیر خزانہ کا بیان ہے کہ ہم بجلی کے بل کم نہیں کر سکتے ساتھ ہی ایک اور وزیر فرما رہے ہیں کہ پہلے بجلی چوروں کو روکیں گے جو 480 ارب روپے کی بجلی چوری کرتے ہیں۔ اب آپ کو اپنے بجلی کے بل ادا کرنے ہوں گے، بعد میں دیکھیں گے۔
ملک بھر کے غریب عوام اور لوئر مڈل کلاس اس مہنگائی سے تنگ آ کر سڑکوں پر مظاہروں میں مشغول ہو گئے ہیں، دوسری طرف نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ کی طرف سے جلد ہی کوئی فیصلہ ہونے والا ہے، دیکھیں کن کن لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے ان لیڈروں کے نام بھی اخبارات میں شایع ہو چکے ہیں، دیکھیں کیا بنتا ہے دوسری طرف کرپشن کی خبریں بھی عام ہو رہی ہیں۔ لاہور میں 5 ارب روپے پٹواری کھا گئے ہیں۔
کراچی میں ملیر ایکسپریس وے میں کرپشن ہوئی ہے اسی طرح حیدرآباد تا سکھر موٹروے بنانے پر بھی کئی ارب روپے کی کرپشن ہوگئی، جب کہ ایک بڑا ملزم ملک سے ہی فرار ہو گیا ہے جب کہ دیگر 5 یا 6 ملزم نیب کی تحویل میں موجود ہیں گویا ہر طرف ہی گڑبڑ مچی ہوئی ہے۔
تازہ خبر پڑھی کہ چینی کے بڑے اسکینڈلز میں گنے کے مل مالکان اور ان کے رسہ گیروں نے چینی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کرکے عوام کی جیب پر 56 ارب کا ڈاکا ڈال دیا ہے شوگر مل کے مالکان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے اور وہی چینی کی قیمت 5 روپے تا 20 روپے فی کلو میں اضافہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح سولر پینلز درآمد کرنے کی آڑ میں 73 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف بھی ہوا ہے ساتھ ہی 38 ارب روپے کی انوائسنگ کا بھی پتا چلا ہے یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ جب کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ اسمگلنگ کو روکا جائے گا، ایران سے تیل کی غیر قانونی منتقلی اور افغانستان سے ڈالر اور چینی کی اسمگلنگ کو روکا جائے گا اور جلد ہی ڈالر کا ریٹ کم ہوگا۔
باہر کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے اور ملک کو بہتری کی طرف لے کر جائیں گے۔ کاش ایسا ہو جائے تو بہتر ہے جب کہ ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی نے بڑے انکشافات کیے ہیں کہ ملک میں ٹیکس چور بہت طاقتور ہیں۔
نہ جاگیردار ٹیکس دیتے ہیں نہ مل مالکان۔ کارخانہ دار اور بڑے بڑے پلازوں اور ہوٹل مالکان سب ہی اپنی آمدنی چھپاتے ہیں اور ٹیکس کا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے اگر اشرافیہ سے پوچھا جائے تو حکمران جماعتوں کے وزرا اور سینیٹر حضرات خطرے کی گھنٹی بجا دیتے ہیں رہ گئے سرکاری ملازمین جن کی تنخواہوں سے وہ کٹوتی ہو جاتی ہے۔ اس سے قبل وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بڑے پرزور انداز میں کہا تھا کہ ملک میں ایک فیصد اشرافیہ کا قبضہ ہے اور 99 فیصد عوام پریشان حال ہیں۔
ان سب حقیقتوں کے بعد بھی ہماری اشرافیہ یا حکمران اپنے ہی طبقے کی بات کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں دوسری طرف عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی اسٹوروں سے بھی سامان غائب ہے اور لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر آٹا، چینی، دال، چاول، تیل اور گھی خریدنے کے لیے آتے ہیں تو کہا جاتا ہے ایک 2 آئٹم ملیں گے یعنی ایک کلو گھی یا تیل 5 کلو چینی یا آٹا لے لیں۔
ہر روز ٹی وی پر خبریں چلتی رہتی ہیں اور حکمرانوں اشرافیہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کم ازکم اب تو سابق حکمرانوں سمیت نگراں حکومتوں کو چاہیے کہ مفت گاڑیاں، کاریں، بنگلے، ڈیزل، پٹرول، بجلی کے مفت کے اخراجات لینا ہی بند کر دیں۔ سینیٹ کے سابق اور موجودہ چیئرمین ڈپٹی چیئرمین سمیت تمام سینیٹر تمام وزیر اعظم سمیت وزیروں، مشیروں اور وزرائے اعلیٰ مفت کی مراعات کا کام بند کردیں۔ اسی طرح تاجروں، صنعت کاروں، چیمبر آف کامرس، اسٹاک ایکسچینج کے بیوپاریوں اور دولت اور ڈالر کا کاروبار کرنے والے اپنی دولت پر قانونی ٹیکس ہی ادا کردیں۔
ملک کے بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، پیر، مخدوم زادے، بڑے بڑے خان بہادر اور سردار اپنے غریب ہاریوں، کسانوں، مزدوروں کے حال پر رحم کرتے ہوئے قرضوں میں جکڑے ہوئے اپنے ملک پاکستان اور اس کی معیشت کو بچانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
اسی طرح جج صاحبان انصاف کی تخواہ کے ساتھ ساتھ خصوصی پروٹوکول اور بڑی بڑی گاڑیوں کا پٹرول، بجلی کے بل، ایئرکنڈیشنڈ گھر اور بنگلے کے چوکیدار، مالی، خانساماں کی تنخواہیں بھی حکومت کی طرف مقرر کی گئی تنخواہ 13 لاکھ 20 ہزار 500 میں سے ادا کریں تاکہ وہ بھی دو وقت کی روٹی اپنے بچوں کے ساتھ آرام سے کھا سکیں۔ تعلیم اور علاج کرا سکیں۔
1975 تک یہ ملک ترقی کی طرف گامزن تھا۔ پورے ملک میں ریل کا نظام ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ پی آئی اے کی پروازیں کامیاب ترین تھیں، KESC اور واپڈا کا نظام کتنا بہتر تھا، گیس اور بجلی کی فراہمی تھی، پانی بھی پینے کا ٹھیک تھا، دودھ اور دہی بغیر ملاوٹ کے ملتی تھی، ملوں اور کارخانوں میں لاکھوں مزدور کام کرتے تھے اور خوشحال تھے، اسی طرح منافع خوری بھی کم تھی، بینکوں کا نظام اور ڈاک خانے اور تار گھر (ٹیلی گرام) کا نظام بہتر تھا۔ کے پی ٹی کا ادارہ کتنا منافع کماتا تھا، کے پی ٹی میں تمام مزدور یا لوڈر بھی خوشحال تھے۔
ہمارا اسٹیل ملز کتنا منافع کماتا تھا، شپ یارڈ میں کتنے بحری جہاز تیار ہوتے تھے، حکمرانوں میں اتنی لوٹ مار اور کرپشن نہیں تھی، ہمارے تعلیمی ادارے کتنے مضبوط تھے، جو سب سرکاری تھے، ہمارے اسپتال کتنے بہتر تھے، ہمارے ڈاکٹر اور انجینئر کتنے فعال تھے، ملک میں بینکوں کا جال بچھا ہوا تھا، انشورنس کمپنیاں کتنی فعال تھیں، بے روزگاری برائے نام تھی، کس کس ادارے کا نام لکھوں سب ہی بہتر تھے۔
ہمارے پولیس اسٹیشن بہتر تھے، روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ کتنی ہوتی تھی، کراچی سرکلر ریلوے کتنے بہتر انداز میں چلتی تھی، لیکن اب تمام ادارے فیل ہو رہے ہیں، قانون، انصاف، تعلیم، صحت اور رہائش اور روزگار ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ کاش ہمارے حکمران کچھ تو سوچ لیں، حبیب جالب یاد آگئے۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے