لیاری کے باصلاحیت نوجوان فنکار
انھوں نے پہلی بار قومی زبان اردو میں کمرشل فلم ’’دلدل‘‘ بنائی ہے
امن کا مسکن ،بھائی چارے کا گہوارہ ،جمہوریت کا گڑھ لیاری شہر کراچی میں ایک اور شہر ہے، جسے مادر کراچی بھی کہا جاتا ہے جہاں کے مسائل ہمیشہ میڈیا کی زینت بنتے نظر آتے ہیں لیکن اس میں قطعی کوئی ابہام نہیں کہ کراچی کی قدیم ترین علاقہ لیاری نے ہرمیدان میں باصلاحیت سپوت پیدا کیے ہیں جنھوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کیا اور ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔ انھی شعبوں میں سے ایک شعبہ فلمی دنیا کا بھی ہے۔
سن 70ء کی دہائی میں لیاری کے ایک نوجوان انور اقبال نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں پہلی بلوچی سینما فلم' 'ھمل و ماہ گنج'' بنائی جس کے فلم ساز ، مکمل کاسٹ ،کہانی نویس ، ہدایت کار ، موسیقار ،گلوکا ر سب لیاری کے رہنے والے تھے ۔ مگر اس وقت کے بلوچ قوم پرستوں نے اسے سینما اسکرین کی زینت بننے نہیں دیا یہ کہہ کر کے اس طرح بلوچ ثقافت میں بگاڑ آجائے گا جب کہ یہ ایک تاریخی اور رومانی فلم تھی ،خیر یہ ایک لمبی داستان ہے الغرض یہ کہ اس فلم کی بندش سے بلوچ قوم کی فن و ثقافت کو فروغ دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ حائل ہوگئی۔
چالیس سال بعد 'ھمل و ماہ گنج ' انور اقبال کی سربراہی میں آرٹس کونسل کراچی میں ریلیز کی گئی جسے بے حد سراہا گیا اور افسوس کا بھی اظہار کیا گیا کہ اتنی صاف ستھری بلوچی فلم کو چلنے نہ دینا بہت بڑی تاریخی غلطی تھی جس کا خمیازہ آج بھی بلوچ فن و ثقافت بھگت رہی ہے، بعد ازاں اس فلم کے ہیروانور اقبال نے اپنا فنی سفر جاری رکھا اور پاکستان کی فلم انڈسٹری اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں نام پیدا کیا جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔
بلوچ فنکاروں نے اسٹیج تھیٹر کے ذریعے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا پھر وی سی آر کا زمانہ آیا جس کے تحت پہلے بلوچ فنکاروں نے طنز و مزاح پر مبنی وڈیوزڈرامے بنائیں جو کامیاب تجربہ ثابت ہوا۔اس کے بعد بلوچی وڈیوز بنانے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جس کے تحت بے شمار فنکار روشناس ہوئے اور خوب نام کمایا ،یہ سلسلہ آج بھی گاہے بگاہے جاری ہے ۔گزشتہ سال لیاری کے نوجوان فنکاروں نے بلوچی سینما رنگین فلم دودا بنائی جو کافی مقبول ہوئی تھی۔
اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے لیاری ہی کے نوجوان فنکاروں نے ایک اور کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ انھوں نے پہلی بار قومی زبان اردو میں کمرشل فلم ''دلدل'' بنائی ہے، یہ فلم لیاری کی حالات پر مبنی ہے جس کی کہانی ایک ایسے نوجوان کی گرد گھومتی ہے جس کا مستقبل قانون کی کالی بھیڑ کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوجاتا ہے،تاریک راہوں میں گم ہوکر اندھیری کھائی میں گرجاتا ہے ،اس طرح ایک ہنستا بستا گھرانہ ظلم و ستم کا شکار ہوجاتا ہے ۔اس فلم میں ایک سماجی پیغام دیا گیا ہے جو فلم بینوں کو ہمیشہ یاد رئیگا۔
اس فلم کا ٹریلر سوشل میڈیا میں کافی مقبول ہے ۔اس فلم کی کہانی نویس اور ہدایت کار جنید عزیز لاسی ہیں فلم ساز ،حبیب حسن و علی وقاص سموں، موسیقار ،شاہ عالم زبیئر ہیں جب کہ ستاروں میں شہاب خان بلوچ ، فاطمہ کوثر ،سلیم معراج ،ذیشان الیاس ، شکیل مراد ،حیدر علی ،لیاقت بھٹو ، ارمان خان بلوچ ،واجد بلوچ اور خصوصی کردار میں انور اقبال ( مرحوم ) شامل ہیں۔
واضح رہے کہ یہ انور اقبال کی زندگی کی آخری فلم ہے جو ریلیز کی منتظر ہے ۔ اس فلم کے عکاس ابراہیم ندیم بلوچ ہے ،جس کی عکاسی فلم کی جان ہے ۔ رنگین اردو فلم دلدل میں ڈرامہ ،ایکشن ،رومانس ہے اور فلم کا پیغام ہے کہ سیدھے راستے سے ہٹنا نہیں چاہیے ورنہ دیگر دلدل میں گرکر پھنس جاؤنگے جہاں سے نکلنا ناممکن ہوگا اور بلآخر موت مقدر بن جائے گی۔
دلدل محدود وسائل میں رہتے ہوئے معیاری فلم ہے یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب یہ فلم پردہ سیمیں پر آئیگی تو پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے ہوا کا ایک ٹھنڈی جھونکا ثابت ہوگی اور دنیائے فلم میں اس کے چرچے ہونگے، اس فلم سے فلم بینوں کی بہت سی امیدیں بر آئیں گی۔
دلدل نامی اس فلم کی پروڈکشن ٹیم کو بڑی اسکرین پر پہنچانے کے لیے اسپانسر کی تلاش ہے، پاکستانی فلموں کے تقسیم کار اس فلم کی ریلیز کے لیے آگے بڑھیں اور پاک فلم انڈسری کو سہارا دیتے ہوئے لیاری کے ان نوجوانوں کے فن کو دنیائے فلم سے روشناس کرائیں کہ لیاری میں فنی صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے یہ فلم اس کی تازہ مثال ہے ۔
لیاری کراچی کا وہ علاقہ ہے جہاں ملک میں بولی جانے والی ہر زبان کے لوگ بستے ہیں جسے آپ 'منی پاکستان' بھی کہہ سکتے ہیں جو باہمی امن و آشتی اور بھائی چارگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امن کے دشمنوں نے ہمیشہ لیاری کو اپنے نشانے پر رکھا اور اسے پسماندہ رکھنے کی کوشش کی لیکن لیاری کے امن پسند اکثریتی آبادی نے انھیں اپنی یک جہتی اور اپنے مثبت رویے سے ناکام بنانے کی کامیاب کوشش کیں۔
ہر شعبہ ہائے زندگی میں اچھے اور برے کردار پائے جاتے ہیں اسی طرح قانون کے شعبہ میں بھی کچھ کالی بھیڑیں پائی جاتی ہیں جو اپنی ذاتی مفادکی خاطر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے نہ صرف اپنے فرض سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے بہت سے روشن چراغ بجھ جاتے ہیں اور معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنے کے سبب بنتے ہیں ، جن کا انجام بالآخر برا ہی ہوتا ہے اسی مرکزی خیال کو لے کر لیاری کے نوجوان فنکاروں نے فلم دلدل کے ذریعے پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے جسے سراہا جانا چاہیے۔
سن 70ء کی دہائی میں لیاری کے ایک نوجوان انور اقبال نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں پہلی بلوچی سینما فلم' 'ھمل و ماہ گنج'' بنائی جس کے فلم ساز ، مکمل کاسٹ ،کہانی نویس ، ہدایت کار ، موسیقار ،گلوکا ر سب لیاری کے رہنے والے تھے ۔ مگر اس وقت کے بلوچ قوم پرستوں نے اسے سینما اسکرین کی زینت بننے نہیں دیا یہ کہہ کر کے اس طرح بلوچ ثقافت میں بگاڑ آجائے گا جب کہ یہ ایک تاریخی اور رومانی فلم تھی ،خیر یہ ایک لمبی داستان ہے الغرض یہ کہ اس فلم کی بندش سے بلوچ قوم کی فن و ثقافت کو فروغ دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ حائل ہوگئی۔
چالیس سال بعد 'ھمل و ماہ گنج ' انور اقبال کی سربراہی میں آرٹس کونسل کراچی میں ریلیز کی گئی جسے بے حد سراہا گیا اور افسوس کا بھی اظہار کیا گیا کہ اتنی صاف ستھری بلوچی فلم کو چلنے نہ دینا بہت بڑی تاریخی غلطی تھی جس کا خمیازہ آج بھی بلوچ فن و ثقافت بھگت رہی ہے، بعد ازاں اس فلم کے ہیروانور اقبال نے اپنا فنی سفر جاری رکھا اور پاکستان کی فلم انڈسٹری اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں نام پیدا کیا جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔
بلوچ فنکاروں نے اسٹیج تھیٹر کے ذریعے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا پھر وی سی آر کا زمانہ آیا جس کے تحت پہلے بلوچ فنکاروں نے طنز و مزاح پر مبنی وڈیوزڈرامے بنائیں جو کامیاب تجربہ ثابت ہوا۔اس کے بعد بلوچی وڈیوز بنانے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جس کے تحت بے شمار فنکار روشناس ہوئے اور خوب نام کمایا ،یہ سلسلہ آج بھی گاہے بگاہے جاری ہے ۔گزشتہ سال لیاری کے نوجوان فنکاروں نے بلوچی سینما رنگین فلم دودا بنائی جو کافی مقبول ہوئی تھی۔
اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے لیاری ہی کے نوجوان فنکاروں نے ایک اور کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ انھوں نے پہلی بار قومی زبان اردو میں کمرشل فلم ''دلدل'' بنائی ہے، یہ فلم لیاری کی حالات پر مبنی ہے جس کی کہانی ایک ایسے نوجوان کی گرد گھومتی ہے جس کا مستقبل قانون کی کالی بھیڑ کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوجاتا ہے،تاریک راہوں میں گم ہوکر اندھیری کھائی میں گرجاتا ہے ،اس طرح ایک ہنستا بستا گھرانہ ظلم و ستم کا شکار ہوجاتا ہے ۔اس فلم میں ایک سماجی پیغام دیا گیا ہے جو فلم بینوں کو ہمیشہ یاد رئیگا۔
اس فلم کا ٹریلر سوشل میڈیا میں کافی مقبول ہے ۔اس فلم کی کہانی نویس اور ہدایت کار جنید عزیز لاسی ہیں فلم ساز ،حبیب حسن و علی وقاص سموں، موسیقار ،شاہ عالم زبیئر ہیں جب کہ ستاروں میں شہاب خان بلوچ ، فاطمہ کوثر ،سلیم معراج ،ذیشان الیاس ، شکیل مراد ،حیدر علی ،لیاقت بھٹو ، ارمان خان بلوچ ،واجد بلوچ اور خصوصی کردار میں انور اقبال ( مرحوم ) شامل ہیں۔
واضح رہے کہ یہ انور اقبال کی زندگی کی آخری فلم ہے جو ریلیز کی منتظر ہے ۔ اس فلم کے عکاس ابراہیم ندیم بلوچ ہے ،جس کی عکاسی فلم کی جان ہے ۔ رنگین اردو فلم دلدل میں ڈرامہ ،ایکشن ،رومانس ہے اور فلم کا پیغام ہے کہ سیدھے راستے سے ہٹنا نہیں چاہیے ورنہ دیگر دلدل میں گرکر پھنس جاؤنگے جہاں سے نکلنا ناممکن ہوگا اور بلآخر موت مقدر بن جائے گی۔
دلدل محدود وسائل میں رہتے ہوئے معیاری فلم ہے یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب یہ فلم پردہ سیمیں پر آئیگی تو پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے ہوا کا ایک ٹھنڈی جھونکا ثابت ہوگی اور دنیائے فلم میں اس کے چرچے ہونگے، اس فلم سے فلم بینوں کی بہت سی امیدیں بر آئیں گی۔
دلدل نامی اس فلم کی پروڈکشن ٹیم کو بڑی اسکرین پر پہنچانے کے لیے اسپانسر کی تلاش ہے، پاکستانی فلموں کے تقسیم کار اس فلم کی ریلیز کے لیے آگے بڑھیں اور پاک فلم انڈسری کو سہارا دیتے ہوئے لیاری کے ان نوجوانوں کے فن کو دنیائے فلم سے روشناس کرائیں کہ لیاری میں فنی صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے یہ فلم اس کی تازہ مثال ہے ۔
لیاری کراچی کا وہ علاقہ ہے جہاں ملک میں بولی جانے والی ہر زبان کے لوگ بستے ہیں جسے آپ 'منی پاکستان' بھی کہہ سکتے ہیں جو باہمی امن و آشتی اور بھائی چارگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امن کے دشمنوں نے ہمیشہ لیاری کو اپنے نشانے پر رکھا اور اسے پسماندہ رکھنے کی کوشش کی لیکن لیاری کے امن پسند اکثریتی آبادی نے انھیں اپنی یک جہتی اور اپنے مثبت رویے سے ناکام بنانے کی کامیاب کوشش کیں۔
ہر شعبہ ہائے زندگی میں اچھے اور برے کردار پائے جاتے ہیں اسی طرح قانون کے شعبہ میں بھی کچھ کالی بھیڑیں پائی جاتی ہیں جو اپنی ذاتی مفادکی خاطر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے نہ صرف اپنے فرض سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے بہت سے روشن چراغ بجھ جاتے ہیں اور معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنے کے سبب بنتے ہیں ، جن کا انجام بالآخر برا ہی ہوتا ہے اسی مرکزی خیال کو لے کر لیاری کے نوجوان فنکاروں نے فلم دلدل کے ذریعے پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے جسے سراہا جانا چاہیے۔