کوئی تو آئے خزاں میں پتے اگانے والا

سرکاری شعبے میں تعلیم کے معیار نے نجی شعبے کو مزید شیر بنا دیا ہے

بچہ کیا کرتا ہے؟ پڑھتا ہے؛ ترکھان نے فرنیچر کی تراش خراش جاری رکھتے ہوئے کہا۔ یہ اگر پڑھ لکھ گیا تو ہمارا فرنیچر کون بنائے گا۔ زمیندار نے بغیر لپٹی لگی رکھے بغیر اپنی ناگواری اور پریشانی کا اظہار کیا۔ ترکھان خاموش رہا۔

زمیندار کے جانے کے بعد باپ نے بیٹے سے کہا؛ بیٹا ! یاد رکھنا، میں اگر مر بھی جاؤں تو تم نے پڑھائی نہیں چھوڑنی۔ جی ابو ، آپ فکر نہ کریں۔ بیٹے نے جواب دیا۔ یہ مکالمہ اس بچے اور آج کے معروف شاعر اور حال ہی میں صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد عباس تابش نے سنایا تو ہال میں موجود شرکاء نے تالیوں سے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔

گزشتہ روز صدارتی ایوارڈز کے لیے نامزد معروف شاعر اور روزنامہ ایکسپریس کے قطعہ نگار انور مسعود ، طرح دار شاعر اور کالم نگار یار من خالد مسعود خان، منفرد شاعر عباس تابش اور ایکسپریس کے ساتھی کالم نگار اور صحافی ڈاکٹر فاروق عادل کی اعزاز میں غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے اس تقریب کا اہتمام کیا تھا۔

عباس تابش نے اپنے پس منظر اور اپنی زندگی کے اس منہاج کے تقابل سے یہ واضح کیا کہ تعلیم پسماندگی کی بیڑیاں توڑنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اگے بڑھنے سے پہلے عباس تابش کا ایک حسب حال شعر؛

جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا

تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا

دیہاتی زندگی میں زمیندار اور جاگیر دار اپنے مزارعین اور زیر دست لوگوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے کیا کیا حربے اختیار کرتے تھے، قدرت اللہ شہاب کی مشہور کتاب شہاب نامہ میں کئی شاندار مثالیں ہیں۔ جھنگ کے ایک زمیندار نے انھیں اسکول بنانے کے لیے مفت جگہ پیش کرتے ہوئے اسکول منظور کروایا۔ قدرت اللہ شہاب زمیندارسے بہت متاثر ہوئے۔ گزشتہ روز اسی علاقے کے ایک زمیندار فریاد لے کر پہنچے ؛ حضور ! میرا کیا قصور ہے جو میرے گاؤں میں اسکول منظور کیا۔ قدرت اللہ شہاب حیران ہوئے۔

زمیندار نے ان کی حیرت دور کرتے ہوئے سمجھایا ؛ حضور! یہ زمیندار ہمارا حریف ہے۔ اس کی کچھ زمین ہمارے گاؤں میں بھی ہے۔ اسے اسکول منظور کرانا ہے تو اپنے گاؤں میں کرائے۔ ہمارے گاؤں میں ہمارے مزارعین کو پڑھا لکھا کر ہماری چوہدراہٹ برباد کرنا چاہتا ہے۔ ڈی سی کو ہکا بکا دیکھ کر زمیندار نے لجاجت سے کہا؛ جناب میں دوگنا جگہ اس کے گاؤں میں لے کر دینے کو تیار ہوں، آپ یہ اسکول اس کے گاؤں میں شفٹ کردیں!

اسی ہفتے عالمی لٹریسی ڈے منایا گیا۔ ایسے دن منانے کا مقصد ہوتا ہے کہ موضوع کی اہمیت اور مسائل کو اجاگر کیا جائے لیکن اللہ بھلا کرے ہماری شوقین طبیعت اور لذت پسندی کا، شاذ ہی کسی میڈیا نے جھوٹے منہ اس روز لٹریسی اور اس سے جڑے مسائل کا ذکر ٹاک شوز میں کیا ہو۔ اعلیٰ عدالتوں کی کاروائی ، اس کی ضمانت، اس کی پٹیشن، اس کی پکڑ دھکڑ، اس کی ضمانت منسوخی... جو وقت بچا وہ بجلی بلوں کی سینہ کوبی ، چینی کی اسمگلنگ اور ڈالر کی پکڑن پکڑائی کے مصالحے دار موضوعات پر صرف ہوا لہٰذا حیرت نہیں ہوتی کہ ہم نان ایشوز پر وقت صرف کرکے ایشوز کا ازالہ کرتے ہیں۔


اس سدا بہار طبیعت کا شاخسانہ ہے کہ تازہ ترین مردم شماری میں چوبیس کروڑ کی ابادی شمار کیے جانے پر بھی کوئی فکر فاقہ دیکھنے سننے کو نہیں ملا۔ ایشیاء میں شاید سب سے زیادہ شرح پیدائش پاکستان میں ہے۔ ہمارے ملک میں 22.8 ملین بچے اسکول اسکول سے باہر ہیں۔

پڑھنے لکھنے سے اس گریزپائی کا شاخسانہ ہے کہ 63÷ شرح خواندگی کے حساب سے ملکی ابادی میں نو کروڑ لوگ ناخواندہ ہیں۔ جی نو کروڑ نصف جس کا ساڑھے چار کروڑ ہوتا ہے۔ دنیا کے درجنوں ممالک ہیں جن کی کل آبادیاں چار کروڑ سے بھی کم ہیں۔ نو کروڑ ناخواندہ ابادی وسعت اور شمار کا اندازہ یوں لگا لیں کہ ایران اور ترکی کی ابادی بھی اس سے قدرے کم ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ ترکی یا ایران جیسے ملک کے برابر ناخواندہ ابادی ہے۔ اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد اور رجحان اس خوفناک حقیقت کا چیخ چیخ کر اظہار کر رہے ہیں کہ مستقبل میں یہ تعداد مزید بڑھنے کا ہم نے شرطیہ بندو بست کر رکھا ہے۔ جو بزرجمہر بات بات پر بنگلہ دیش اور بھارت سے تقابل کرنے کر کمر بستہ رہتے ہیں, انھیں کبھی اس خوفناک اور پریشان کن موازنے کی فرصت کبھی نہ ملی۔

ڈاکٹر خرم شہزاد ڈی جی لٹریسی پنجاب کے بقول اس وقت پنجاب میں 19ہزار کے لگ بھگ قائم غیر رسمی اسکولوں میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں۔ یہ اسکول سرکاری عمارت کے بجائے ٹیچرز اور طلباء پر مبنی کسی بھی کھلی جگہ یا دستیاب کمروں میں قائم ہیں۔ غیر رسمی اسکولوں کا دائرہ کار بھٹہ مزدوروں سے لے کر جیل قیدیوں تک پھیلا ہوا ہے۔

تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پرائمری اور ہائر اسکینڈری اسکول بھی بجٹ کی کمیابی اور انتظامی دشواریوں کا شکار ہیں۔ ایسے میں غیر رسمی اسکولوں کے ذریعے خواندگی بڑھانے کے لیے وسائل کی فراہمی اور انتظامی سپورٹ ناکافی ہے۔ سیکریٹری لٹریسی پنجاب سید حیدر اقبال کے بقول ہم دستیاب وسائل سے ممکنہ حد تک خواندگی کو بڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔

تعلیم شعور ، ٹیکنالوجی اور ایک پائیدار معاشرے کی بنیاد ہے۔ معاشرے میں ہر طرف آپا دھاپی اور مفادات کی بے ہنگم ریس نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ تعلیم بہت حد تک کمرشل ازم کے بھاری پتھر تلے آ چکی ہے۔

سرکاری شعبے میں تعلیم کے معیار نے نجی شعبے کو مزید شیر بنا دیا ہے۔ ایسے میں 37÷ ناخواندہ لوگ معاشرے کی پائیداری میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے خود قابل توجہ ہیں۔ لیبر فورس کا اس قدر بڑا حصہ اگر غیر ہنرمند اور ناخواندہ ہو تو ملک کی معاشرتی اور معاشی پائیداری کا چولیں ہمیشہ ڈھیلی رہنے کا اندیشہ ہے۔ توقع تو نہیں البتہ خواہش کی جا سکتی ہے کہ

کوئی تو آئے خزاں میں پتے اگانے والا

گلوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے
Load Next Story