میاں صاحب جمہوریت پر رحم کریں
ایٹمی دھماکوں نے حکومت کا گراف بلندی پر پہنچا دیا تھا مگر ملک عالمی پابندیوں کا شکار ہوگیا ۔۔۔
ماضی میں صرف 15 سال کا سفر طے کریں تو عجیب منظر سامنے آتا ہے۔ ایک حکومت ہے جو دو تہائی اکثریت کے نشے سے سرشا رہے۔اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو کچل ڈالنے کا فرعونی اعلان کرتی ہے۔ اس کے سربراہ کے دل میں امیر المومنین بننے کی خواہش انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ آئین میں پندرہویں ترمیم کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
بیورو کریٹس کو سرعام ہتھکڑیاں لگوائی جاتی ہیں۔ فیصل آباد میں فلم بند ہونے والا یہ سین آج بھی کسی کیمرہ کی ریل میں محفوظ ہوگا۔ سپریم کورٹ مداخلت کر کے بیوروکریٹ کے ہاتھ میں لگی ہتھکڑیاں کھلاتی اور یہ حکم جاری کرتی ہے کہ وزیراعظم کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن وہ اس حکم کو بھی اپنے اخیتار میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔ ایک آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا جاتا ہے۔ ان کا قصور محض اتنا ہے کہ انھوں نے لاہور میں نیول وار کالج کی ایک تقریب سے خطاب میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز دی تھی۔
بھاری مینڈیٹ کا نشہ ایسا چڑھا کہ ایک آرمی چیف کی قربانی سے اس کی تسلی نہیں ہوئی۔ دوسرے آرمی چیف کی برطرفی کا حکم جاری کر دیا گیا۔ اس بار فوج نے یہ حکم تسلیم نہیں کیا۔ جس آرمی چیف کو برطرف کیا گیا وہ طیارے میں ہے اور طیارہ سری لنکا سے پاکستان آنے کے لیے فضا میں بلند ہو چکا ہے۔ زمین پر اس آرمی چیف کے جرنیل یہ حکم ماننے سے انکار کر چکے ہیں۔ وزیراعظم کو معزول کر کے گرفتار کر لیا گیا ۔ 12 اکتوبر 1999ء کی رات ایک اور مارشل لاء ملک میں نافذ ہو چکا ہے۔ یہ وہی آرمی چیف ہے جسے سپرسیڈ کر کے لایا گیا تھا۔ اس سے پچھلی حکومت میں بھی ایک آرمی چیف نے زبردستی استعفیٰ لے کر انھی وزیراعظم کو گھر بھجوایا تھا۔ یہ ماضی قریب کی تاریخ ہے۔
آج 2014 میں نواز شریف پھر وزیراعظم ہیں۔ وہ تیسری بار اس منصب پر فائز ہونے والے پہلے سربراہ حکومت ہیں۔ 11 مئی 2013 میں الیکشن کے بعد بننے والا یہ سیٹ اپ اچانک پھر سے اپ سیٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مبصرین کا خیال تھا میاں صاحب میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ شاید اپنی غلطیوں سے سیکھ چکے ہیں مگر یوں نہیں ہوا' تاریخ کا یہ سبق سب کو یاد ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ہمارے ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے ۔
ابتدا میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید کافی تبدیلی آئی ہے لیکن اوپر تلے ہونے والے چند واقعات نے صورت حال تبدیل کر دی ہے۔ اس بار پہلا تنازع اسی سابق آرمی چیف کی وجہ سے پیدا ہوا جسے میاں صاحب نے 12اکتوبر 1999ء کو برطرف کیا تھا۔ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایس ایس جی کمانڈوز کی تقریب میں فوج کے تحفظات کا اظہار کر کے باور کرا دیا تھا کہ حکومت کے چند وزیر ایک سابق آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنا کر ٹھیک نہیں کر رہے۔ یہ وزیر بھڑک بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان ''چند'' وزیروں کی بیانات کی توپیں خاموش ہوئیں تو امید پیدا ہوئی کہ معاملات سنبھل رہے ہیں۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقاتوں سے بھی فضا بہتر ہو رہی تھی کہ پھر جیو نیوز نے آٹھ گھنٹے تک ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کو کسی ثبوت کے بغیر ''مجرم'' بنا کر پیش کر دیا۔
آئی ایس آئی پر تابڑ توڑ حملوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حامد میر پر حملہ ایک طرف رہ گیا، ساری توجہ فوج اور انٹیلی جنس ادارے پر تنقید پر مرتکزکر دی گئی۔ مجھ سمیت ہر شخص حیران تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔کیا کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ اپنی ہی فوج پر حملہ کردیا جائے۔اس موقع پر فوج کا خیال تھا نواز شریف کی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہو کر اس کے ایک جرنیل کی تضحیک کرنے والے کو سزا دے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم صاحب حامد میر کی خیریت دریافت کرنے کراچی میں اسپتال پہنچ گئے۔یوں انھوں نے فوج کو پیغام دیدیا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ ادھر آرمی چیف نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کر کے جنرل ظہیر السلام اور آئی ایس آئی سے اظہار یکجہتی کیا۔ گویا انھوں نے بھی حکومت کو پیغام دے دیا کہ وہ اور ان کا ادارہ آئی ایس آئی چیف کے ساتھ کھڑا ہے۔ حکومت اور فوج کو ایک صفحے پر قرار دینے والوں نے دیکھا کہ واقعی دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں لیکن آمنے سامنے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومت اس اہم مرحلے پر میڈیا کے ایک گروپ کے ساتھ کیوں کھڑی ہو گئی؟ اگر کسی کو شبہہ ہے تو وہ پیمرا میں جیو کے اس اقدام کے خلاف آئی ایس آئی کی شکایت کے ساتھ ہونے والا حشر ملاحظہ فرما لے۔ پیمرا کے ایجنڈے میں یہ شکایت تیسرے نمبر پر تھی۔ کارروائی کرنے کے بجائے ایک ہفتے کا اور وقت دے کر وزارت قانون سے رائے مانگ لی گئی۔ پیمرا نے پہلے ہی دو ہفتے کی مہلت دے دی تھی۔ یوں تین ہفتے کی مجموعی مہلت مل گئی۔ ایسا حکومت میاں صاحب کو یقیناً یاد ہو گا کہ اسی میڈیا گروپ کے انگریزی اور اردو کے اخبارات نے 1998ء میں ان کی حکومت کے ساتھ کیاکیا تھا۔
ایٹمی دھماکوں نے حکومت کا گراف بلندی پر پہنچا دیا تھا مگر ملک عالمی پابندیوں کا شکار ہوگیا۔ان دھماکوں کے بعد جنگ گروپ نے میاں صاحب کی حکومت کے خلاف ایسی ایسی خبریں شایع کرنا شروع کر دیں کہ اس کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔اکثر خبریں بے بنیاد تھیں۔ بلاشبہ جنگ گروپ نے حکومت کو کمزورکیا ۔ یوں میاں صاحب کی حکومت نے بھی جنگ گروپ کے خلاف کارروائی کی تھی لیکن اس وقت تک جنگ گروپ میاں صاحب کی حکومت کے خلاف اپنا کام کرچکاتھا۔میاں صاحب کی حکومت ختم کرانے میں جنگ گروپ نے ہی اہم کردار ادا کیاآج صورت حال یکسر مختلف ہے۔ حکومت وقت اب اس میڈیا گروپ کے ساتھ کھڑی ہونے کی وجہ سے کمزور ہو رہی ہے۔ میاں صاحب کی حکومت جس قدر اس میڈیا گروپ سے قربت کی منازل طے کرے گی اسی قدر یہ کمزور ہوتی چلی جائے گی۔
عمران خان نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں بلاشبہ بہت بڑا شو کیا۔ اس جلسے کی کوریج بھی بہترین ہونی چاہیے تھی لیکن جس طرح ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اسے کوریج دی اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت صرف ایک میڈیا گروپ کی محبت میں مبتلا ہے۔ اس رقابت کا فائدہ عمران خان کو ملے گا۔ کپتان کے مطالبات سے یہ سامنے آ رہا ہے کہ وہ مڈٹرم الیکشن کرانے کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں۔
23 مئی کو وہ فیصل آباد میں رونق لگائیں گے۔ وہاں سے اگلے جلسے کی تاریخ آئے گی اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی ایک ایک کر کے عمران خان کے موقف کی حامی ہوتی جائیں گی اور حکومت کے آپشن کم ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہو جائیں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت خود پر اور جمہوریت پر رحم کرے۔ اپنا قبلہ درست کرے۔ عمران خان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کیے جائیں۔