کالا باغ ڈیم
اگست 2010میں صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام نے جس سیلاب عظیم کا سامنا کیا ‘اس کی شدت اور تباہی ہمیشہ یاد رہے گی
پہلے حال ہی میں ایک انگریزی معاصر میں شایع ہونے والے مراسلے کی بات ۔ یہ مراسلہ کالا باغ ڈیم سے متعلق ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایسے تبصرے ہوتے رہتے ہیں۔
مراسلہ نگار کے مطابق ''کالاباغ ڈیم پروجیکٹ 'کا 1952اور 1987 تک مطالعہ کیا گیا ہے' اس میں 5ملین ایکڑ فٹ (MAF)پانی کے ذخائر کی گنجائش ہے '3600میگاواٹ پن بجلی پیدا ہوگی اور سیلاب کی روک تھام بھی ہوگی ، بدقسمتی سے 'بین الصوبائی آبی سیاست نے اس منصوبے کو روک دیا ہے' جس سے پاکستان اس ڈیم کے فوائد سے محروم رہا۔
اس ڈیم پر سیاست اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے کہ اس وقت ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1976میں تربیلہ کے مکمل ہونے کے مقابلے میں بہت کم ہو گئی'1976اور 2023کے درمیان آبادی میں 320فی صد اضافہ ہوچکا ہے' پاکستان زیر زمین آبی ذخائر کی بڑی مقدار ٹیوب ویلز کے ذریعے نکال رہا ہے۔
کالا باغ ڈیم پروجیکٹ میں پمپڈ ہائڈرو پاور اسٹوریج (PHS)کی نمایاںصلاحیت ہے 'جو سولر اور ونڈ پاور پلانٹس کو قومی گرڈ کے ساتھ مربوط کر نے کے لیے درکار اسٹوریج بیٹریوں کا ایک سستا متبادل پیش کرتا ہے۔''
کالا باغ ڈیم کی حمایت میں اکثر اوقات آوازیں اٹھتی رہتی ہیں ۔موجودہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے' پنجاب میں بسنے والے سیاستدان، ایکسپرٹ یا قلم کار جب سیلاب کی تباہ کاریوں پر افسوس کا اظہار کرتا ہے تو آخر میں یہ بھی کہتا ہے کہ اگر'' کالاباغ ڈیم بن گیا ہوتا تو اتنی تباہی نہیں ہوتی۔''
حالانکہ یہ بات تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ کالاباغ کے مقام پر اس وقت کوئی ڈیم یا بیراج نہیں ہے' پانی پوری آزادی اور مکمل مقدار میں بہہ رہا ہے، اس کے باوجود دریائے کابل اور دریائے سندھ نے2010اور 2022 میں جو سیلاب آیا، اس نے خیبر پختونخوا کے کئی علاقوںکوڈبو دیا تھا' خیبر پختونخوا میںکالا باغ ڈیم کے ناقدین کہتے ہیں، اگر کالاباغ ڈیم کی دیوار سامنے ہوتی تو خیبرپختونخوا کا کیا حشر ہوتا؟
واپڈا کی کی رپورٹ کے مطابق ۔''تربیلہ اور منگلا ڈیم کے بعد پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے 'اس وقت پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صرف 30دن کی گنجائش ہے' پلاننگ اور ترقیات کی وزارت کے سرکاری ذرایع کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر کے بعد یہ گنجائش 90دن تک پہنچ جائے گی' واپڈا کی فزبلیٹی رپورٹ کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کے مندرجہ ذیل فوائد بتائے گئے ہیں۔
اس ڈیم کا بنیادی مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا'آبپاشی اور بجلی کی پیداوار ہے۔4500میگاواٹ ماحول دوست اور صاف پانی سے بجلی پیدا ہوگی۔اس ڈیم میں اضافی 8,500,000ایکڑ فٹ(10.5km-3)پانی جمع ہوگا'یہ پانی ملک میں پینے اور آبپاشی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا'یہ بات یاد رہے کہ پاکستان کو مسلسل پانی کی کمی کا سامنا ہے اور مشرقی دریائوں کو انڈس واٹر معاہدے کے تحت ہندوستان کے ہاتھ بیچ دینے کے بعد ہمارے پاس صرف شمالی پہاڑی علاقوں سے آنے والے دریا ہی باقی بچے ہیں' اس لیے پانی کے ذخیروں کی بہت زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے۔
سلٹ کو روکا جائے تو تربیلہ ڈیم کی عمر میں 35سال کا اضافہ ہوگا'تربیلہ اور منگلا تقریباً 30فی صد سے زیادہ ریت اور مٹی سے بھر چکے ہیںاور اندیشہ ہے کہ آیندہ پانچ سے دس سال میں ان ڈیموں کی گنجائش آدھی رہ جائے گی۔
سیلابی سیزن میں دریائے سندھ کے پانی سے ہونے والی تباہی کو روکے گا'بھاشا ڈیم سیلاب کے اضافی پانی کو اوپر روک لے گا'اگر بھاشا کا ذخیرہ ہوتا تو 2010اور 2022کے سیلاب کی تباہی کو روکا جا سکتا تھا۔جس موسم میں پانی کا بہائو کم ہوتا ہے' اس دوران بھی آبپاشی کے لیے اضافی 6,400,000ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا'سردیوں میں بھی بھاشا ڈیم میں پانی کا بہائو کم نہیں ہوگا اور بجلی کی پیداوار میں کمی نہیں ہوگی 'اس ڈیم کا پانی نہ صرف تربیلہ'غازی بھروتہ اور 'چشمہ وغیرہ کو فائدہ دے گا بلکہ داسو ہائیڈرو پروجیکٹ میں بھی بجلی کی پیداوار پورے سال برابر رہے گی۔
سستی پن بجلی کی پیداوار کا ایک اور ماحول دوست اور قابل اعتماد ذریعہ پیدا ہوجائے گا۔مہنگی اور ماحول دشمن تھرمل بجلی پر انحصار کم ہوجائے گا'جس کی وجہ سے ماحول بھی صاف ہوگا اور قیمتی زر مبادلہ بھی بچے گا۔روزگار کے عارضی اور مستقل مواقع بڑھیں گے 'خاص کر مقامی لوگوں کے لیے۔
اس ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں بہت بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہوگی 'جس سے اس دشوار گزار اور ناقابل رسائی علاقے کے عوام کی سماجی اور معاشی معیار زندگی بلند ہوگی ۔ان عوامل کی وجہ سے یہی لگتا ہے کہ بھاشا ڈیم کو کالاباغ ڈیم پر فوقیت حاصل ہے۔
اس وقت جب ملک دہشت گردی 'کرپشن اور خراب طرز حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہے' ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہماری خراب اقتصادی صورت حال کی بنیادی اور بڑی وجہ بجلی کی کمی اور اس کی زیادہ قیمت ہے ' ہائیڈرو الیکٹرک کے ذرایع کی صلاحیت 100,000میگاواٹ ہے اور یہاں پر غیر متنازع پروجیکٹس کی صلاحیت 61,000 میگاواٹ ہے لیکن تین دھائیوں سے ان فائدہ مند منصوبوں کوبھی مکمل نہیں کیا جا سکاہے' بجلی کی کمی پر قابو پانے کے لیے IPPکا سہارا لیا گیا لیکن یہ سودا افغانستان کی طرح آج تک ہمارے گلے میں پڑا ہوا ہے۔
تین اہم امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے' پاکستان کو اگلے 15سال میں سسٹم میں کم از کم 50,000 میگاواٹ بجلی کا اضافہ کرنا ہوگا'اس مقدار میں کالاباغ کا 3,600میگاواٹ کا اضافہ ایک معمولی اضافہ ہے 'دوسرا یہ کہ اس وقت ملک میں 1000سے زیادہ ایسے ہائیڈل پروجیکٹ ہیں جہاں سے مسلسل'سستی'صاف اور بہتر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہر سال سیلاب آتے ہیں لیکن اگست 2010میں صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام نے جس سیلاب عظیم کا سامنا کیا 'اس کی شدت اور تباہی ہمیشہ یاد رہے گی۔
افغانستان، پاکستان کے قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ کا سیلابی پانی ڈسٹرکٹ چارسدہ میں داخل ہوا، چارسدہ میں پہلے سے چار روزہ بارش کی وجہ سے سیلاب کی کیفیت تھی' پہاڑوں سے آنے والے سیلاب نے مقامی سیلاب کے ساتھ مل کر ڈسٹرکٹ چارسدہ کے بیشتر علاقوںکو ڈبو دیا' یہاں سیلاب نوشہرہ کی طرف بڑھا' دوسری طرف گلگت بلتستان ، چترال اور ہزارہ ڈویژن کا سارا پانی دریائے سندھ میں تربیلہ ڈیم تک پہنچا 'ڈیم انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کی اور ڈیم بچانے کے لیے فالتو پانی چھوڑدیا'یہ سیلابی ریلا ضلع صوابی کے کئی علاقوںکو تباہ کر تا ہوا خیر آباد کے مقام پر دریائے کابل سے مل گیا۔
میرا اور میری جیسی سوچ اورعلم رکھنے والوں کا خیال ہے، اگر کالاباغ کے مقام پر ڈیم بنا ہوتا تو کالاباغ ڈیم کی وجہ سے پانی کے آگے ایک دیوار کھڑی ہوجاتی' جس سے ٹکرا کر یہ پانی ضلع نوشہرہ ، صوابی 'مردان اور پشاور کے سیلاب سے محفوظ علاقوں کو بھی تباہی سے دوچار کردیتا'دریائے کابل کا پانی کناروں سے نکل کر دس میل کے علاقے میں تباہی مچا رہاتھا'ساتھ ساتھ اباسین بھی سات آٹھ میل کے پاٹ میں ہر آنے والی چیز کو ملیامیٹ کر رہا تھا۔
مراسلہ نگار کے مطابق ''کالاباغ ڈیم پروجیکٹ 'کا 1952اور 1987 تک مطالعہ کیا گیا ہے' اس میں 5ملین ایکڑ فٹ (MAF)پانی کے ذخائر کی گنجائش ہے '3600میگاواٹ پن بجلی پیدا ہوگی اور سیلاب کی روک تھام بھی ہوگی ، بدقسمتی سے 'بین الصوبائی آبی سیاست نے اس منصوبے کو روک دیا ہے' جس سے پاکستان اس ڈیم کے فوائد سے محروم رہا۔
اس ڈیم پر سیاست اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے کہ اس وقت ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1976میں تربیلہ کے مکمل ہونے کے مقابلے میں بہت کم ہو گئی'1976اور 2023کے درمیان آبادی میں 320فی صد اضافہ ہوچکا ہے' پاکستان زیر زمین آبی ذخائر کی بڑی مقدار ٹیوب ویلز کے ذریعے نکال رہا ہے۔
کالا باغ ڈیم پروجیکٹ میں پمپڈ ہائڈرو پاور اسٹوریج (PHS)کی نمایاںصلاحیت ہے 'جو سولر اور ونڈ پاور پلانٹس کو قومی گرڈ کے ساتھ مربوط کر نے کے لیے درکار اسٹوریج بیٹریوں کا ایک سستا متبادل پیش کرتا ہے۔''
کالا باغ ڈیم کی حمایت میں اکثر اوقات آوازیں اٹھتی رہتی ہیں ۔موجودہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے' پنجاب میں بسنے والے سیاستدان، ایکسپرٹ یا قلم کار جب سیلاب کی تباہ کاریوں پر افسوس کا اظہار کرتا ہے تو آخر میں یہ بھی کہتا ہے کہ اگر'' کالاباغ ڈیم بن گیا ہوتا تو اتنی تباہی نہیں ہوتی۔''
حالانکہ یہ بات تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ کالاباغ کے مقام پر اس وقت کوئی ڈیم یا بیراج نہیں ہے' پانی پوری آزادی اور مکمل مقدار میں بہہ رہا ہے، اس کے باوجود دریائے کابل اور دریائے سندھ نے2010اور 2022 میں جو سیلاب آیا، اس نے خیبر پختونخوا کے کئی علاقوںکوڈبو دیا تھا' خیبر پختونخوا میںکالا باغ ڈیم کے ناقدین کہتے ہیں، اگر کالاباغ ڈیم کی دیوار سامنے ہوتی تو خیبرپختونخوا کا کیا حشر ہوتا؟
واپڈا کی کی رپورٹ کے مطابق ۔''تربیلہ اور منگلا ڈیم کے بعد پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے 'اس وقت پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صرف 30دن کی گنجائش ہے' پلاننگ اور ترقیات کی وزارت کے سرکاری ذرایع کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر کے بعد یہ گنجائش 90دن تک پہنچ جائے گی' واپڈا کی فزبلیٹی رپورٹ کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کے مندرجہ ذیل فوائد بتائے گئے ہیں۔
اس ڈیم کا بنیادی مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا'آبپاشی اور بجلی کی پیداوار ہے۔4500میگاواٹ ماحول دوست اور صاف پانی سے بجلی پیدا ہوگی۔اس ڈیم میں اضافی 8,500,000ایکڑ فٹ(10.5km-3)پانی جمع ہوگا'یہ پانی ملک میں پینے اور آبپاشی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا'یہ بات یاد رہے کہ پاکستان کو مسلسل پانی کی کمی کا سامنا ہے اور مشرقی دریائوں کو انڈس واٹر معاہدے کے تحت ہندوستان کے ہاتھ بیچ دینے کے بعد ہمارے پاس صرف شمالی پہاڑی علاقوں سے آنے والے دریا ہی باقی بچے ہیں' اس لیے پانی کے ذخیروں کی بہت زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے۔
سلٹ کو روکا جائے تو تربیلہ ڈیم کی عمر میں 35سال کا اضافہ ہوگا'تربیلہ اور منگلا تقریباً 30فی صد سے زیادہ ریت اور مٹی سے بھر چکے ہیںاور اندیشہ ہے کہ آیندہ پانچ سے دس سال میں ان ڈیموں کی گنجائش آدھی رہ جائے گی۔
سیلابی سیزن میں دریائے سندھ کے پانی سے ہونے والی تباہی کو روکے گا'بھاشا ڈیم سیلاب کے اضافی پانی کو اوپر روک لے گا'اگر بھاشا کا ذخیرہ ہوتا تو 2010اور 2022کے سیلاب کی تباہی کو روکا جا سکتا تھا۔جس موسم میں پانی کا بہائو کم ہوتا ہے' اس دوران بھی آبپاشی کے لیے اضافی 6,400,000ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا'سردیوں میں بھی بھاشا ڈیم میں پانی کا بہائو کم نہیں ہوگا اور بجلی کی پیداوار میں کمی نہیں ہوگی 'اس ڈیم کا پانی نہ صرف تربیلہ'غازی بھروتہ اور 'چشمہ وغیرہ کو فائدہ دے گا بلکہ داسو ہائیڈرو پروجیکٹ میں بھی بجلی کی پیداوار پورے سال برابر رہے گی۔
سستی پن بجلی کی پیداوار کا ایک اور ماحول دوست اور قابل اعتماد ذریعہ پیدا ہوجائے گا۔مہنگی اور ماحول دشمن تھرمل بجلی پر انحصار کم ہوجائے گا'جس کی وجہ سے ماحول بھی صاف ہوگا اور قیمتی زر مبادلہ بھی بچے گا۔روزگار کے عارضی اور مستقل مواقع بڑھیں گے 'خاص کر مقامی لوگوں کے لیے۔
اس ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں بہت بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہوگی 'جس سے اس دشوار گزار اور ناقابل رسائی علاقے کے عوام کی سماجی اور معاشی معیار زندگی بلند ہوگی ۔ان عوامل کی وجہ سے یہی لگتا ہے کہ بھاشا ڈیم کو کالاباغ ڈیم پر فوقیت حاصل ہے۔
اس وقت جب ملک دہشت گردی 'کرپشن اور خراب طرز حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہے' ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہماری خراب اقتصادی صورت حال کی بنیادی اور بڑی وجہ بجلی کی کمی اور اس کی زیادہ قیمت ہے ' ہائیڈرو الیکٹرک کے ذرایع کی صلاحیت 100,000میگاواٹ ہے اور یہاں پر غیر متنازع پروجیکٹس کی صلاحیت 61,000 میگاواٹ ہے لیکن تین دھائیوں سے ان فائدہ مند منصوبوں کوبھی مکمل نہیں کیا جا سکاہے' بجلی کی کمی پر قابو پانے کے لیے IPPکا سہارا لیا گیا لیکن یہ سودا افغانستان کی طرح آج تک ہمارے گلے میں پڑا ہوا ہے۔
تین اہم امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے' پاکستان کو اگلے 15سال میں سسٹم میں کم از کم 50,000 میگاواٹ بجلی کا اضافہ کرنا ہوگا'اس مقدار میں کالاباغ کا 3,600میگاواٹ کا اضافہ ایک معمولی اضافہ ہے 'دوسرا یہ کہ اس وقت ملک میں 1000سے زیادہ ایسے ہائیڈل پروجیکٹ ہیں جہاں سے مسلسل'سستی'صاف اور بہتر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہر سال سیلاب آتے ہیں لیکن اگست 2010میں صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام نے جس سیلاب عظیم کا سامنا کیا 'اس کی شدت اور تباہی ہمیشہ یاد رہے گی۔
افغانستان، پاکستان کے قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ کا سیلابی پانی ڈسٹرکٹ چارسدہ میں داخل ہوا، چارسدہ میں پہلے سے چار روزہ بارش کی وجہ سے سیلاب کی کیفیت تھی' پہاڑوں سے آنے والے سیلاب نے مقامی سیلاب کے ساتھ مل کر ڈسٹرکٹ چارسدہ کے بیشتر علاقوںکو ڈبو دیا' یہاں سیلاب نوشہرہ کی طرف بڑھا' دوسری طرف گلگت بلتستان ، چترال اور ہزارہ ڈویژن کا سارا پانی دریائے سندھ میں تربیلہ ڈیم تک پہنچا 'ڈیم انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کی اور ڈیم بچانے کے لیے فالتو پانی چھوڑدیا'یہ سیلابی ریلا ضلع صوابی کے کئی علاقوںکو تباہ کر تا ہوا خیر آباد کے مقام پر دریائے کابل سے مل گیا۔
میرا اور میری جیسی سوچ اورعلم رکھنے والوں کا خیال ہے، اگر کالاباغ کے مقام پر ڈیم بنا ہوتا تو کالاباغ ڈیم کی وجہ سے پانی کے آگے ایک دیوار کھڑی ہوجاتی' جس سے ٹکرا کر یہ پانی ضلع نوشہرہ ، صوابی 'مردان اور پشاور کے سیلاب سے محفوظ علاقوں کو بھی تباہی سے دوچار کردیتا'دریائے کابل کا پانی کناروں سے نکل کر دس میل کے علاقے میں تباہی مچا رہاتھا'ساتھ ساتھ اباسین بھی سات آٹھ میل کے پاٹ میں ہر آنے والی چیز کو ملیامیٹ کر رہا تھا۔