شاہ لطیف ہر عہد کا بے مثال شاعر پہلا حصہ

دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا عظیم شاعرہوگا جس کا کلام آج کے دورمیں بھی ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں لوگوں کو زبانی یادہوگا

zahedahina@gmail.com

سندھ کے صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تین روزہ عرس اس سال بھی بڑی عقیدت اور احترام سے منایا گیا جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں زائرین نے شرکت کی۔

تین صدی پہلے پیدا ہونے والے شاہ لطیف کا شمار نہ صرف سندھ یا برصغیر بلکہ دنیا کے چند عظیم شاعروں میں کیا جاتا ہے، وہ 1689 میں سندھ کے شہر ہالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اپنے وقت کے ایک بڑے عالم تھے۔ شاہ لطیف کے پردادا شاہ کریم بھی شاعر تھے۔ شاہ لطیف کو عربی، فارسی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

شاہ صاحب کے کلام کا پہلا مجموعہ 1866 میں جرمنی میں شایع ہوا تھا۔ جسے ڈاکٹر ارنیٹ ٹرمپ نے مرتب کیا تھا۔ ارنیٹ ٹرمپ جرمنی اسکالر، میونخ یونیورسٹی میں قدیم زبانوں کا پروفیسر اور عیسائی مشنری تھا۔ اس کا مشن مغرب کے زیر تسلط ہندوستان کے لوگوں کو عیسائیت کی طرف راغب کرنا تھا۔ اس نے برطانوی انڈیا کے علاقوں پنجاب اور سندھ میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ سندھ میں قیام کے دوران اس نے سندھی زبان سیکھی۔

شاہ لطیف کے کلام کو مرتب کرنے کے علاوہ ٹرمپ نے سندھی گرامر پر ''سندھی حروف تہجی اور صرف و نحو '' کے عنوان سے 1872 میں ایک کتاب لکھی۔ جرمنی کی ایک خاتون اسکالر ڈاکٹر این میری شمل نے شاہ لطیف پر تحقیق کرنے کے لیے پہلے باقاعدہ طور پر سندھی زبان سیکھی۔ انھوں نے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں لکھا کہ '' میں نے پوری دنیا کے شاعروں کا مطالعہ کیا ہے لیکن کسی بھی شاعر کا فلسفہ شاہ لطیف کے ہم پلہ نہیں تھا۔ اس حوالے سے شاہ لطیف کا کلام عالمی کلاسیکی شاعری کا حصہ ہے۔''

شاہ لطیف کا مزار بھٹ شاہ میں واقع ہے۔ مٹی یا ریت کے ٹیلے کو سندھی زبان میں بھٹ کہا جاتا ہے۔ لطیف مطالعہ اور غور و فکر کے لیے ایک ٹیلے پر تنہا وقت گزارا کرتے تھے۔ اپنی زندگی کا بڑا حصہ انھوں نے اسی مقام پر غوروفکر اور شاعری کرتے ہوئے گزار دیا۔ اس مناسبت سے انھیں شاہ بھٹائی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ موسیقی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کا کلام ان کے ہی ایجاد کردہ ساز تنبورہ پرگایا جاتا ہے۔

دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا عظیم شاعر ہوگا جس کا کلام آج کے دور میں بھی ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں لوگوں کو زبانی یاد ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں بھی درجنوں عقیدت مندوں کو شاہ کا پورا کلام حفظ ہے۔ شاہ صاحب کا کلام تیس ابواب پر مشتمل ہے۔ ان کی شاعری میں خدا اور اس کے رسولؐ کی حمد و ثنا، سندھ کی ثقافت، تاریخ اور رومانی لوک داستانیں بیان کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے کلام میں ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت، جدوجہد کا پیغام بھی پوری شدت سے موجود ہے۔

شاہ لطیف کی شاعری اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ شاہ کی شاعری کے اس پہلو پر سندھ کے معروف دانشور اور استاد ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے ایک جامع مضمون لکھا ہے۔ اپنے مضمون کے خلاصے میں وہ لکھتے ہیں '' اس مضمون میں شاہ لطیف کے آزادی اظہار کے حوالے سے ان کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ چونکہ سندھ تاریخ کے متعدد ادوار میں غلامی کے زیر سایہ رہا ہے اور اس طرح عوام الناس مسلسل سماجی نفسیاتی دبائوکا شکار تھے، لہٰذا انھوں نے شاعری کے ذریعے انھیں اس حالت سے نجات دلانے کی کوشش کی تھی۔

یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سندھ کے آخری سمہ حکمران جام فیروز الدین کے بعد سندھ ارغونوں اور ترخانوں کی غلامی میں چلا گیا تھا اور اس طرح ارغونوں اور ترخانوں کی ظالمانہ اور غیر منصفانہ حکمرانی کے دور میں سندھ کی تباہی کا آغاز ہوگیا۔ شاہ لطیف ایک صاحب بصیرت شاعر تھے۔ لہٰذا انھوں نے انسان دوستی، رواداری اور آزادی کے حق میں اپنی آواز بلند کی۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ عام لوگوں کا بھلا کس بات میں ہے اور وہ اپنا مستقبل کس طرح روشن کرسکتے ہیں۔


نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے ایک قوم بننے کے بہت منطقی اور جدید تصور پیش کیے، کیونکہ ان کے خیال میں ایک قوم کا اتحاد بقا کا واحد راستہ ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ''وحدت الوجود'' کے تصور پر عمل کیا اور پوری شدت سے اپنی شاعری میں اس کی تبلیغ کی۔ یہ فلسفہ جہالت، مایوسی، بدعت، خوف، سماج اور قوم سے لاتعلقی، قبائلی سوچ، اکل کھرا پن وغیرہ کے لیے ایک تریاق تھا۔

فارسی زبان سندھ کے لوگوں پر مسلط کردی گئی اور یہ اس وقت کے ادب اور شاعری کی زبان تھی۔ شاہ لطیف بھٹائی پہلی شخصیت تھے جو نہ صرف فارسی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوئے بلکہ خالص سندھی بولی میں شاعری پیش کی۔ شاہ جو رسالو آزادی اظہار کی لاتعداد مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ خاص طور پر سرایمن کلیان، سر کلیان، سر مارئی، سر سوہنی اور سر سسی اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ شاہ لطیف آزادی اظہار اور آزاد خیالی کے عظیم ترین مبلغ اور تمام کردار اس تصورکا محور ہیں۔

شاہ لطیف کے کلام نے اردو ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اردو کی عظیم ادیبہ قرۃ العین حیدر نے 58ء یا شاید 59ء میں شاہ کے مزار پر حاضری دی تھی انھوں نے شاہ لطیف کی بات کو دہراتے ہوئے لکھا تھا کہ '' زمین میں اتنوں کی خاک موجود ہے، کیسے کیسے لوگ چلے گئے زندگی اتنی مختصر ہے۔ لطیف جاگو اور ڈھونڈو۔''

وہ اپنے سفر میں لطیف کو ڈھونڈ رہی تھیں، تب ہی انھوں نے لکھا تھا کہ '' راستے میں ایک جگہ صحرا پر اچانک بادل گھر آئے۔ جاڑوں کا ساون، شاہ نے ''سر سارنگ '' میں لکھا۔ ساون نے جھیل کو بھر دیا اور زمین سرسبز ہوگئی اور ایک جگہ کہا کہ ہر سمت بجلیاں چمک رہی ہیں۔ بادل ہر سو پھیل گئے۔ استنبول، چین، ثمر قند، روم، قندھار، دلی، دکن، گرنار، جیسلمیر، بیکا نیر، امر کوٹ، اللہ سندھ پر بھی بارش برسا اور اسے شاداب کردے۔''

شاہ کی طرف اس سفر میں جھیلوں اور جنگلوں میں تیتر بول رہے تھے۔ سارس، بگلے، باز، طوطے، مور، قصبوں میں مغلوں اور کلہوڑوں کے عہد کے مکانات اور زرد دھوپ میں صحرا جو تنہا تھا۔ شاہ نے کہا تھا کہ صحرا، جہاں پرندوں کا گزر نہیں وہاں جوگی اپنی آگ جلاتے ہیں اور جب وہ جوگی چلے گئے تو ان کی جگہ پر نہ تنکے ملے نہ پتھر، راکھ اڑ گئی اور جوگی سنکھ پھونکتے ہوئے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔

اس سفر میں قرۃ العین نے دیکھا کہ جھیلوں اور جنگلوں میں تیتر بول رہے تھے۔ سارس، بگلے ، باز، طوطے ، مور، قصبوں میں مغلوں اور کلہوڑوں کے عہد کے مکانات، اور زرد دھوپ میں تنہا صحرا۔ کسی نے شاہ کے شاعری پر بات کرتے ہوئے قرۃ العین حیدر سے کہا تھا کہ معرفت کی اصطلاح میں '' کچھَ '' وہ سنہرا شہر ہے جہاں شہزادہ پنوں یعنی خدا رہتا ہے اور بھنبھور کے دولت مند دھوبی کی لڑکی سسی انسان کی روح ہے۔

شاہ نے اپنی شاعری میں لوک داستانوں کی سات شہزادیوں کے ساتھ سندھ کی عام عورت کو اٹھایا ہے اور اسے بھی بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ ان کے کلام میں مچھیروں کی بیویاں ہیں، ساقی گری کرنے والی موکھی ہے۔ سُرسورٹھ میں جلوہ دکھانے والی سورٹھ ہے۔ سُر کاموڈ کی نوری ہے۔ مومل رانوں کی مومل ہے جو با وفا ہے لیکن ایک غلط فہمی کے سبب بے وفا ٹھہرتی ہے۔

'' شاہ جو رسالو'' کا منظوم ترجمہ کرنے والے سندھی کے بہت بڑے شاعر شیخ ایازکا کہنا تھا کہ عظیم شاعر اپنے موضوع اورکرداروں کے ذریعے پورے عہد کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ اس تناظر میں وہ شاہ صاحب کے بارے میں کہتے ہیں۔ '' شاہ کے کسی بیت کو اٹھا لیں اس میں کسی ایک کردار اور لمحے کا اظہار کیا گیا ہے لیکن یہ کردار اور لمحے پورے دور کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ( جاری ہے)
Load Next Story