کراچی میں 2 ماہ سے اغوا پانچ بچوں کی ماں کا سراغ نہ مل سکا

ہمارے پاس دوائی لینے کے بھی پیسے ختم ہوگئے ہیں ، مغویہ کے شوہر اور بچیوں کی ایکسپریس سے گفتگو


محمد یاسین خان September 10, 2023
ہمارے پاس دوائی لینے کے بھی پیسے ختم ہوگئے ہیں ، مغویہ کے شوہر اور بچیوں کی ایکسپریس سے گفتگو

گلشن سکندرآباد کلفٹن سے 9 جولائی کو اغوا کی جانے والی پانچ بچوں کی ماں کا پولیس تاحال سراغ نہیں لگا سکی۔

مغویہ کا شوہر تھانے کے چکر لگا لگا کر تنگ آگیا ، متعدد افراد اس کی بیوی کی بازیابی کے نام پر ہزاروں روپے لے کر فرار غائب ہوگئی۔

مغویہ کے شوہر اور بچیوں نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گھر میں کھانے کو پیسے نہیں ہیں ، بچیوں کو فیس نہ ہونے پر اسکول سے نکالا جا رہا ہے، ماں تم گھر آجاؤ ابو پورا پورا دن تمھاری تلاش میں گھومتا رہتا ہے ہمارے پاس دوائی لینے کے بھی پیسے ختم ہوگئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق مکان نمبر GS /53 محلہ حسین ہارون روڈ گلشن سکندر آباد ابراہیم مسجد بلاک 5 کلفٹن کی رہائشی شبانہ زوجہ چراغ شاہ 9 جولائی کو گھر کے قریب سے پراسرار طور پر اغوا کی گئی تھی۔

مغویہ کے شوہر چراغ شاہ نے اپنے اہلیہ شبانہ کو شہر کے تمام اسپتالوں میں تلاش کرنے کے بعد دو دن تک بوٹ بیسن تھانے کے چکر لگانے کے بعد بمشکل اپنی اہلیہ کے اغوا کا مقدمہ الزام نمبر 393/2023 بجرم دفعہ 496/A کے تحت درج کرایا تھا۔

مقدمے کے مطابق اغوا کا واقعہ 9 جولائی 2023 شام تقریباً 6 بجے کے قریب پیش آیا جبکہ مقدمہ 11 جولائی رات 12 بجے درج کیا گیا۔

چراغ شاہ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 5 بچوں کا باپ ہے ، مغویہ شبانہ جو 9 جولائی کو اپنے بچوں کے ہمراہ ایک قریبی رشتے دار کے گھر بنارس گئی تھی ، پھر اپنی بڑی بیٹی سے ملنے گئی تھی۔

اس نے بتایا کہ بڑی بیٹی وہاں قرآن پاک کی تعلیم کے لیے رہائش پذیر تھی ، شام کو تقریباً پانچ بجے چراغ شاہ نے اپنی اہلیہ کو فون کر کے پوچھا کہ کب تک آؤگی تو اس نے بتایا کہ راستے میں ( مائی کلاچی روڈ پر ہوں ) تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کیا تو بتایا کہ گھر کے قریب 60 فٹ روڈ پر ہوں۔

چراغ شاہ نے کہا کہ کچھ دیر بعد بچے گھر آگئے اور بتایا کہ ان کی ماں جو کافی عرصہ سے بیمار تھی دوائی لینے میڈیکل اسٹور گئی ہے ابھی تھوڑی دیر میں واپس آجائے گی ، کافی دیر گزرنے کے بعد جب وہ واپس نہیں آئی تو اس کے موبائل فون پر فون کیا تو وہ بند ملا۔

اس نے کہا کہ پریشانی میں رات 9 بجے اپنے ایک قریبی دوست محمود رحمان کے پاس گیا اور سارا معاملہ بتایا ، دونوں نے ملکر تمام اسپتالوں میں اس شک کی بنیاد پر چیک کیا کہیں طبعیت خراب ہوئی ہو یا کوئی حادثہ ہوا ہو تاہم وہ کہیں نہیں ملی ، اسی دن رات تقریباً دو بجے بوٹ بیسن تھانے گئے تاہم پولیس حدود کے تنازعے پر کبھی جیکسن اور کبھی ڈاکس تھانے بھیجتی رہی۔ دو دن بعد بوٹ بیسن پولیس نے بمشکل مقدمہ درج کر لیا۔

مغویہ کی بیٹی نے بتایا کہ جب وہ لوگ راستے میں تھے تو امی کے موبائل فون پر پانچ مرتبہ کسی نے فون کر کے بات کی جس سے امی بہت ڈر گئی تھیں اور پسینے پسینے ہوگئی تھیں ، جبکہ ماں کافی دنوں سے گھر میں بھی خاموش خاموش رہنے لگی تھی اور ڈری ہوئی تھی۔

مغویہ کی بڑی بیٹی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد جو ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں امی کو تلاش کرنے لیے پورا پورا دن بھوکے پیاسے گھر سے باہر رہتے ہیں ، متعدد افراد امی کی بازیابی کے لیے ہزاروں روپے کھا چکے ہیں ، ابو گھر کے ایک کونے میں پوری پوری رات بیٹھے رہتے ہیں ، ہم چار بہنیں اور ایک بھائی ہیں ، ایک بہن کو خون کی بیماری ، ایک کے قدرتی طور پر کان کے پردے نہیں ہیں جبکہ دیگر بہن بھائیوں کو بھی کوئی نہ کوئی بیماری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری امی کیا گئیں پڑوس کی عورتیں بھی ہم کو گالیاں دیتی ہیں ، امی ایک نجی اسکول میں اسپورٹس ٹیچر تھیں ، اسکول والوں نے فیس نہ دینے پر ہم لوگوں کو اسکول سے نکالنے کا نوٹس دے دیا ہے ، ابو امی کو تلاش کرنے کی وجہ سے کام پر نہیں جا رہے ، گھر میں کھانے اور دوائی کے لیے پیسے نہیں ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں ، ہماری تو کوئی بھی نہیں سنتا اس ملک میں صرف پیسے والوں کی سنی جاتی ہے۔

مغویہ کی معصوم بچیوں نے اعلیٰ حکام سے کہا کہ ہمارے پاس رشوت دینے کے لیے پیسہ نہیں تو کیا ہمارے کوئی نہیں سنے گا اللہ کے واسطے ہمارے مدد کی جائے اور ہماری امی کو بازیاب کرایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں