چند سیاسی جھلکیاں

ایک پیشہ ور لیڈر جب اسٹیج پر طلوع ہوتا ہے اور اپنے سامنے لوگوں کا ایک جم غفیر دیکھتا ہے تو وہ قابو میں نہیں رہتا ۔۔۔


Abdul Qadir Hassan May 13, 2014
[email protected]

پریشاں حال پاکستانی قوم نے گزشتہ اتوار کو جشن منایا۔ اسلام آباد کے ایک معروف چوک میں تھیٹر لگایا اور اس کی اسٹیج پر ایک صاحب بذریعہ آواز دور دیس سے شریک ہوئے۔ پاکستانی ہونے کے دعوے دار یہ طاہر القادری صاحب ہیں جو شیخ الاسلام کہلاتے ہیں۔ دوغلی شہریت رکھتے ہیں یعنی آدھی پاکستانی اور آدھی کینیڈین اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ موصوف ''عیسائیت کی سرپرست اور محافظ بلکہ برطانیہ کی وفادار اور تابعدار رعایا کا دم بھرتے ہیں''۔

یہ ان کی دہری شہریت کی دستاویزات میں لفظ بہ لفظ درج ہے۔ اتوار والے جلسے کے بڑے اور مرکزی مقرر جناب عمران خان تھے ان کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے مقرر موجود تھے لیکن افسوس کہ پاکستانی قوم خوش نہ ہو سکی اور اسٹیج بے رونق رہا پرانے مطالبے اور پرانی دھمکیاں۔ سال بھر پہلے کے الیکشن کا ذکر ہوتا رہا لیکن اپنے سامنے کھلے بازار گویا بند رہے ان میں روزمرہ فروخت ہونے والی اشیا کی قیمتیں گویا عوام کی پہنچ میں رہیں اس لیے کسی نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ ان لیڈروں کے علاوہ جماعت اسلامی کے پارٹ ٹائم امیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر جناب اسرار الحق بھی لاہور تشریف لائے۔ ان کی تقاریر حالات کی بھرپور عکاس تھیں لیکن جماعت اسلامی ایک مدت سے ظالم و عدوان کے خلاف عملی جدوجہد سے کنارہ کش ہو چکی ہے۔ ان کے نئے امیر اپنی مکمل بحالی پر جماعت کے اصل مقصد کی طرف توجہ دیں تو یہ جماعت زندہ رہ سکتی ہے۔

پاکستان کی سیاست اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے اور عمل پسند سیاست دان اپنی سیاست کو نئے رنگ دے رہے ہیں اور یہ رنگ رفتہ رفتہ چڑھتا جا رہا ہے چنانچہ عمل پسند نئے سیاستدانوں کی سیاست اس شہر سے شروع ہو رہی ہے جہاں کامیابی کے بعد کسی دن اسے کامیابی کے ساتھ ختم ہونا ہے۔ یہ کسی لاہور کا باغ بیرون موچی دروازہ نہیں جہاں سے شروع ہونے والی روایتی سیاست برسوں بعد اور وہ بھی منزلوں پر منزلیں مارتی ہوئی رفتہ رفتہ اپنی اصل منزل تک پہنچتی تھی۔ قومی اسمبلی سے کچھ ہی فاصلے پر اسلام آباد کا وہ ڈی نامی چوک ہے جہاں اب جلسے جلوس شروع ہوتے ہیں تو ان کے نعرے اور ان کی دھمک قومی اسمبلی کے درو دیوار ہلا سکتی ہے یا ہلا دیتی ہے اور اس کیفیت سے سرشار ہو کر اور یہ اثاثہ لے کر اسے کیش کرانے کے لیے سیاستدان عوام کے پاس لاہور جیسے عوامی شہروں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں کوئی مہربان موچی دروازہ یا پرانا منٹو پارک لاہوریوں کو ان کی پرانی سیاسی منزلیں یاد دلاتے ہوئے انھیں اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیتا ہے اور یہاں سے ایک صحیح عوامی سیاست شروع ہوتی ہے۔

طویل جلسے جلوس اور لاہور کی فضاؤں میں ہلچل مچانے والے نعرے لیڈروں کو اس حد تک اونچا اڑانے والے جانثار کارکن کہ لیڈر کے ایک اشارے پر جانیں قربان کر دیں۔ بھٹو صاحب لاہور ایئر پورٹ پر اترے اور یہاں سے ایک جلوس کی صورت میں مال روڈ کے ریگل چوک پہنچے ان کے کارکن ایئر پورٹ سے ریگل چوک تک کا کئی کلومیٹر کا یہ فاصلہ نعرے لگاتے اور ناچتے گاتے چلتے دوڑتے رہے۔ ان کا لیڈر ایک ٹرک پر سوار تھا۔ اس نے جب کارکنوں کا یہ غیر معمولی جوش خروش دیکھا تو اس کے اندر کی آواز باہر آئی کہ اگر کوئی ان کارکنوں پر ٹرک چڑھا دے تو یہ تحریک حکومت کو لے مرے گی۔ ٹرک پر ان کے قریب ہی جو دوسرے لیڈر کھڑے تھے ان میں ایک پڑھا لکھا اور نجیب الطرفین لیڈر جناب عمر قصوری بھی تھا جو یہ بات سن کر کانپ اٹھا کہ سیاست اس قدر سنگدل بھی ہو سکتی ہے۔

وہ موقع پاتے ہی خاموشی سے ٹرک سے اتر گیا اور میں جو بطور رپورٹر یہاں موجود اور ہماری بہت پرانی شناسائی تھی مجھ سے کہنے لگا کہ ان کارکنوں کو دیکھو اور ان کے لیڈر کو۔ یہ سب میری برداشت سے تو باہر ہے۔ اب جب ماضی کی دردناک یاد ہی تازہ ہو رہی ہیں تو ان لیڈروں کے چند مزید واقعات بھی بیان ہو سکتے ہیں مگر یہ سب درد ناک ہیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کے اس تاریخی فقرے کی تائید کرتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست اگر سینے میں دل رکھے تو پھر یہ جلسے جلوس کہاں سے آئیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ کارکنوں کو ان کے لیڈروں سے بچانے کے لیے میں ان کارکنوں کے استحصال کی چند مثالیں پیش کر دوں مگر کارکنوں کی قربانیوں اور لیڈروں کی سنگدلی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا کوئی تحریر اسے روک نہیں سکے گی۔

ایک پیشہ ور لیڈر جب اسٹیج پر طلوع ہوتا ہے اور اپنے سامنے لوگوں کا ایک جم غفیر دیکھتا ہے تو وہ قابو میں نہیں رہتا اور اسے قابو میں رہنا بھی نہیں چاہیے ایسے مواقع کم ہی ملتے ہیں جب کسی پر جوش جلسے پر حکمرانی کا موقع ملے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کسی جلسے کی کارروائی لے کر دفتر میں لوٹے تو نیوز ایڈیٹر کہتے کہ احتیاط کرنا یہ لیڈر جلسوں میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور بعد میں اس سے مکر جاتے ہیں اور سارا ملبہ رپورٹر پر گرا دیتے ہیں چنانچہ وہ جلسے کی رپورٹ کو غور سے دیکھتے اور کئی جملے کاٹ دیتے۔ جناب بھٹو صاحب کی جماعت کا ابتدائی زمانہ تھا جب انھوں نے ایک تقریر کے آخر میں کہا کہ ''سوشلزم کی پہلی اینٹ پیغمبر اسلام نے رکھی تھی'' میں نے نیوز ایڈیٹر کی اس طرف توجہ دلائی تو طے ہوا کہ اسلام ہمارا دین اور سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ لگانے والے اس سے انکار نہیں کریں گے۔ یہ جملہ ہمارے اخبار کی شہ سرخی تھی۔ بھٹو صاحب نے شکریے کا پیغام بھیجا۔

ہمارے آج کے لیڈروں کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے وہ دبی زبان میں بات کرتے ہیں۔ بھٹو دبنگ تھا اور جو بات کہنی ہوتی تھی وہ برملا کہا کرتا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کارکنوں کی ایک فوج اس کے گرد جمع ہو گئی۔ تحریک پاکستان کے بعد عوامی سیاسی کارکن بھٹو صاحب کو ملے۔ تحریک پاکستان کے کارکنوں نے پاکستان بنا دیا اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے پاکستان کو بگاڑ دیا۔ ہماری سیاسی تاریخ کی یہ ایک مختصر سی جھلک ہے۔ تفصیلات پھر کبھی۔ فی الحال اپنے پریشان ذہن اور پریشان فکر لیڈروں کو ملاحظہ کیجیے۔ گزشتہ اتوار کو اسلام آباد میں اتنا بڑا جلسہ ہوا اور نتیجہ ایک پرانے مطالبے کو دہرا کر بات ختم کر دی۔ اس کے لیے اتنے اخراجات کی کیا ضرورت تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں