جنگ ستمبر جب گلوکاروں نے قوم کو جذبے سے سرشار کر دیا
حملہ آور افواج کے عزائم خاک میں ملانے کے مشن میں فنکار بھی پیش پیش رہے
چھ ستمبر کا دن تاریخ پاکستان کے فلک کا وہ روشن ستارہ ہے جس سے ہماری آنے والی نسلیں بھی اپنی سمت کا تعین کریں گی، اس جنگ میں ارض پاک کی بہادر فوج اور قوم نے ثابت کر دیا کہ وطن عزیز کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جاں سے عزیز تر ہے۔
اس کا چپہ چپہ ، قریہ قریہ ،گوشہ گوشہ ہمیں اپنی جاں سے پیارا ہے۔ اس کے کھیتوں کے کھلیان ،اس کی پگڈنڈیاں ، اس کے ممبر و محراب اور مسجدوں کے مینار ہماری آن بان اور شان ہیں اور ہمیں اپنی آن کی حفاظت خوب کرنا آتی ہے۔ اس دیس کی محبت ہماری رگ رگ اور نس نس میں ہے۔
یہی وہ جذبہ تھا جو 6 ستمبر 1965 کو اس دیس کے ہر بچے بوڑھے جوان مرد و زن کی رگوں میں خون کی مانند گردش کر رہا تھا اور وہ بزدل دشمن جو رات کی تاریکی میں اس ملک خداداد کی سالمیت پر نقب زنی آیا تھا، منہ کی کھا کر لوٹا،دشمن کو اپنی چالاکی ، مکاری اور عسکری قوت پر ناز تھا۔ اسے اپنی کثرت مال و متاع پہ گھمنڈ تھالیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس قوم کا ہر بچہ ماں کی گود میں لوری کی بجائے قرآن سن کر اور جن پریوں کی کہانیوں کی جگہ خالد بن ولید (رض) اور حیدر کرار کرم اللہ وجہہ کی شجاعت کے قصے سن کر جوان ہوتا ہے۔ اس قوم کا سپاہی شمشیر پہ نہیں بلکہ رب عرشِ عظیم کی مدر اور نصرت پر یقین رکھتا ہے۔
چھ ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی تو دھرتی کے سپاہیوں نے اپنی مقدس سرزمین کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ صدر جنرل ایوب کے اعلان پر پوری قوم ملک کی حفاظت کے لیے کھڑی ہو گئی۔ پاک فوج کے سپاہیوں کے پیچھے پوری قوم کھڑی تھی۔ ایسے میں شاعروں، موسیقاروں، گلوکاروں اور فنکاروں کے خون نے بھی جوش مارا اور وہ ترانے اور گیت بنائے گئے جو پوری قوم کی آواز بن گئے۔
بعض گیت اور ترانے ایسے بھی تھے جو جنگ کے بعد بھی پاکستانیوں کا خون گرماتے رہے۔جن دنوں جنگ شروع ہوئی تو انہیں دنوں فلم ساز و عکاس ریاض بخاری کی فلم ''مجاہد'' ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا ایک ترانہ جسے، حمایت علی شاعر نے لکھا اور خلیل احمد نے اس کی دھن بنائی، ''ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن'' محمد علی، مسعود رانا ، شوکت علی اور ساتھیوں نے گایا تھا اور یہ وہ پہلا فلمی ترانہ تھا، جو پورے پاکستان میں ریڈیو کے ذریعے نشر ہوا تھا۔
علاوہ ازیں نغمہ نگار طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہوا ترانہ ، اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا، گلوکار عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں کی آوازوں میں سارے ملک میں گونج رہا تھا۔
اس روح کو گرمادینے والے ترانے کی دھن رشید عطرے نے فلم ''چنگیز خان'' کے لیے بنائی تھی۔ جیسے جیسے جنگ میں شدت آرہی تھی، ویسے ویسے پاکستانی فوج کے حوصلے بلند سے بلند تر ہورہے تھے۔ ایسے میں شہنشاہ غزل مہدی حسن خان کی آواز ریڈیو پر گونجی، ''خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام''۔
ملکہ ترنم نورجہاں نے اس جنگی ماحول میں اپنی مترنم آواز میں جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا نغمہ'' اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں۔'' پیش کیا، جسے سن کر فوجی بھائیوں میں ایک غیبی طاقت پیدا ہوگئی، جس نے اپنے سے چار گنا طاقت ور فوج کے چھکے چھڑا دیے، گلوکار تاج ملتانی مرحوم کا ولولہ انگیز ترانہ بھی سماعتوں کو نئے جذبوں سے آشنا کر رہا تھا۔''جنگ کھیڈنئیں ہوندی زنانیاں دی''۔
چونڈا کے مقام پر بھارتی ٹینکوں کا سامنا کرنے والے جوانوں کے لیے میڈم نورجہاں کا یہ گیت ان کے حوصلوں کی صحیح ترجمانی کررہا تھا۔''ہو میریاں ڈھول سپاہیا تینوں رب دِیاں راکھا۔'' فلموں میں کام کرنے والے فن کار، ٹیکنیشنز سب ہی لوگ خون کے عطیات کے لیے عام لوگوں کے ساتھ لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہے۔ فلم سازوں نے اس فتح مبین کو اپنی فلموں کا موضوع بناتے ہوئے شجاعت اور قربانی سے لبریز ان کارناموں کو اپنی فلموں میں ٹری بیوٹ پیش کیا۔
جنگ ستمبر میں ریڈیو پاکستان کے کردار کو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا، کیونکہ ریڈیو پاکستان سے گونجنے والے ملی اور جنگی نغموں نے اس جنگ کو پاکستانیوں کے لئے ایک رومانوی جنگ بنا دیا تھا۔ گلوکاروں، شاعروں اور موسیقاروں نے جذبہ حب الوطنی میں ایسے نغمے اور ترانے تخلیق کردیئے جو آج بھی جوش اور ولولے میں اضافہ کردیتے ہیں۔
1965ء کی جنگ میں لاہور ریڈیو پر صوفی تبسم کے ساتھ ساتھ دوسرے شعراء بھی بے حد فعال رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سب سے زیادہ پذیرائی صوفی تبسم کے والہانہ کلام اور ملکہ ترنم نور جہاں کی لازوال آواز کو ملی۔ ریڈیو پاکستان میں روزانہ ایک گانا ریکارڈ کیا جاتا تھا اور پورا پاکستان منتظر ہوتا تھا کہ اب کونسا نغمہ فضائوں میں گونجے گا۔
صوفی غلام تبسم نے کہا اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، تو نور جہاں نے انہیں گا کر انمول کردیا۔مہدی حسن اپنی جان و وفا پیش کرگئے، اور مشیر کاظمی نے شہیدوں کے نام سلام لکھا تو نسیم بیگم نے اسے امر کردیا۔ریڈیو پاکستان لاہور میں سترہ روزہ جنگِ ستمبر کے دوران ہمہ وقت، دن ہو یا رات باہر کرفیو اور بلیک آئوٹ اور اندر عجب جگمگ کا سماں رہتا تھا۔
جوش ملیح آبادی کا ملی جذبے سے گھلا ہوا انقلابی ترانہ، ''اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں''جسے مسعود رانا اور ساتھیوں نے گایا تھا، یہ وہ سال تھا، جب کئی فلموں میں اس طرح کے ملی ترانے اور مناظر شامل کیے گئے، جو 6ستمبر کی جنگ کے پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک ایسی ہی فلم ''معجزہ'' بھی انہی دنوں ریلیز ہوئی تھی، جس کے ہدایت کار ایم اے رشید تھے۔
اس فلم میں حب الوطنی کے جذبے اوراس کی حفاظت کرنے والوں کو اس نغمے میں خراج تحسین پیش کیا گیا، ''توحید کے متوالو، باطل کو مٹادیں گے''۔اس ملی نغمے کو سلیم رضا، مسعود رانا اور ساتھیوں نے گایا تھا، جس کی طرز اختر حسین اور بول ساحل فارانی نے لکھے تھے۔۔ نغمہ نگار مشیر کاظمی کا لکھا ہوا ملی ترانہ ، اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو ، جسے گلوکارہ نسیم بیگم نے گایا اور اس ایمان افروز ترانے کو موسیقار سلیم اقبال نے تخلیق کیا۔
1965 کی جنگ بھارت کے ناپاک عزائم اور خباثت باطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن ہندوستان کی ٹڈی دل فوج کے دانت پاک فوج نے اس طرح کھٹے کر دیے اور ایسی کاری ضرب لگائی کہ ایک عرصے تک دشمن اس ضرب کے زخموں کو چاٹتا رہا۔ پاک فوج نے دشمن پر یہ واضح کر دیا کہ ہم میں آج بھی وہی خون ہے جو ٹیپو سلطان، حیدر علی، یوسف بن تاشفین اور محمد بن قاسم کی رگوں میں جوش مارتا تھا۔
ستمبر 65ء کی جنگ میں اس دیس کا بچہ بچہ اس وطن کی حرمت پر پہریدار بن گیا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہو گیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس وطن کے عوام اپنے ملک و ملت ، اپنے دین اور اپنی سالمیت کے لیے تن من دھن نچھاور کر دینے کو تیار ہو گئے تھے،پاکستانی فوج اور قوم کی طرح ہمارے فنکاراب بھی اس ملک کے لئے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں اور اگر پاکستان کا کبھی بھی وقت آیا تو پاکستانی گلوکار، موسیقار اور شاعر 1965 کی تاریخ دہراتے نظر آئیں گے۔
اس کا چپہ چپہ ، قریہ قریہ ،گوشہ گوشہ ہمیں اپنی جاں سے پیارا ہے۔ اس کے کھیتوں کے کھلیان ،اس کی پگڈنڈیاں ، اس کے ممبر و محراب اور مسجدوں کے مینار ہماری آن بان اور شان ہیں اور ہمیں اپنی آن کی حفاظت خوب کرنا آتی ہے۔ اس دیس کی محبت ہماری رگ رگ اور نس نس میں ہے۔
یہی وہ جذبہ تھا جو 6 ستمبر 1965 کو اس دیس کے ہر بچے بوڑھے جوان مرد و زن کی رگوں میں خون کی مانند گردش کر رہا تھا اور وہ بزدل دشمن جو رات کی تاریکی میں اس ملک خداداد کی سالمیت پر نقب زنی آیا تھا، منہ کی کھا کر لوٹا،دشمن کو اپنی چالاکی ، مکاری اور عسکری قوت پر ناز تھا۔ اسے اپنی کثرت مال و متاع پہ گھمنڈ تھالیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس قوم کا ہر بچہ ماں کی گود میں لوری کی بجائے قرآن سن کر اور جن پریوں کی کہانیوں کی جگہ خالد بن ولید (رض) اور حیدر کرار کرم اللہ وجہہ کی شجاعت کے قصے سن کر جوان ہوتا ہے۔ اس قوم کا سپاہی شمشیر پہ نہیں بلکہ رب عرشِ عظیم کی مدر اور نصرت پر یقین رکھتا ہے۔
چھ ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی تو دھرتی کے سپاہیوں نے اپنی مقدس سرزمین کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ صدر جنرل ایوب کے اعلان پر پوری قوم ملک کی حفاظت کے لیے کھڑی ہو گئی۔ پاک فوج کے سپاہیوں کے پیچھے پوری قوم کھڑی تھی۔ ایسے میں شاعروں، موسیقاروں، گلوکاروں اور فنکاروں کے خون نے بھی جوش مارا اور وہ ترانے اور گیت بنائے گئے جو پوری قوم کی آواز بن گئے۔
بعض گیت اور ترانے ایسے بھی تھے جو جنگ کے بعد بھی پاکستانیوں کا خون گرماتے رہے۔جن دنوں جنگ شروع ہوئی تو انہیں دنوں فلم ساز و عکاس ریاض بخاری کی فلم ''مجاہد'' ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا ایک ترانہ جسے، حمایت علی شاعر نے لکھا اور خلیل احمد نے اس کی دھن بنائی، ''ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن'' محمد علی، مسعود رانا ، شوکت علی اور ساتھیوں نے گایا تھا اور یہ وہ پہلا فلمی ترانہ تھا، جو پورے پاکستان میں ریڈیو کے ذریعے نشر ہوا تھا۔
علاوہ ازیں نغمہ نگار طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہوا ترانہ ، اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا، گلوکار عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں کی آوازوں میں سارے ملک میں گونج رہا تھا۔
اس روح کو گرمادینے والے ترانے کی دھن رشید عطرے نے فلم ''چنگیز خان'' کے لیے بنائی تھی۔ جیسے جیسے جنگ میں شدت آرہی تھی، ویسے ویسے پاکستانی فوج کے حوصلے بلند سے بلند تر ہورہے تھے۔ ایسے میں شہنشاہ غزل مہدی حسن خان کی آواز ریڈیو پر گونجی، ''خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام''۔
ملکہ ترنم نورجہاں نے اس جنگی ماحول میں اپنی مترنم آواز میں جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا نغمہ'' اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں۔'' پیش کیا، جسے سن کر فوجی بھائیوں میں ایک غیبی طاقت پیدا ہوگئی، جس نے اپنے سے چار گنا طاقت ور فوج کے چھکے چھڑا دیے، گلوکار تاج ملتانی مرحوم کا ولولہ انگیز ترانہ بھی سماعتوں کو نئے جذبوں سے آشنا کر رہا تھا۔''جنگ کھیڈنئیں ہوندی زنانیاں دی''۔
چونڈا کے مقام پر بھارتی ٹینکوں کا سامنا کرنے والے جوانوں کے لیے میڈم نورجہاں کا یہ گیت ان کے حوصلوں کی صحیح ترجمانی کررہا تھا۔''ہو میریاں ڈھول سپاہیا تینوں رب دِیاں راکھا۔'' فلموں میں کام کرنے والے فن کار، ٹیکنیشنز سب ہی لوگ خون کے عطیات کے لیے عام لوگوں کے ساتھ لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہے۔ فلم سازوں نے اس فتح مبین کو اپنی فلموں کا موضوع بناتے ہوئے شجاعت اور قربانی سے لبریز ان کارناموں کو اپنی فلموں میں ٹری بیوٹ پیش کیا۔
جنگ ستمبر میں ریڈیو پاکستان کے کردار کو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا، کیونکہ ریڈیو پاکستان سے گونجنے والے ملی اور جنگی نغموں نے اس جنگ کو پاکستانیوں کے لئے ایک رومانوی جنگ بنا دیا تھا۔ گلوکاروں، شاعروں اور موسیقاروں نے جذبہ حب الوطنی میں ایسے نغمے اور ترانے تخلیق کردیئے جو آج بھی جوش اور ولولے میں اضافہ کردیتے ہیں۔
1965ء کی جنگ میں لاہور ریڈیو پر صوفی تبسم کے ساتھ ساتھ دوسرے شعراء بھی بے حد فعال رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سب سے زیادہ پذیرائی صوفی تبسم کے والہانہ کلام اور ملکہ ترنم نور جہاں کی لازوال آواز کو ملی۔ ریڈیو پاکستان میں روزانہ ایک گانا ریکارڈ کیا جاتا تھا اور پورا پاکستان منتظر ہوتا تھا کہ اب کونسا نغمہ فضائوں میں گونجے گا۔
صوفی غلام تبسم نے کہا اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، تو نور جہاں نے انہیں گا کر انمول کردیا۔مہدی حسن اپنی جان و وفا پیش کرگئے، اور مشیر کاظمی نے شہیدوں کے نام سلام لکھا تو نسیم بیگم نے اسے امر کردیا۔ریڈیو پاکستان لاہور میں سترہ روزہ جنگِ ستمبر کے دوران ہمہ وقت، دن ہو یا رات باہر کرفیو اور بلیک آئوٹ اور اندر عجب جگمگ کا سماں رہتا تھا۔
جوش ملیح آبادی کا ملی جذبے سے گھلا ہوا انقلابی ترانہ، ''اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں''جسے مسعود رانا اور ساتھیوں نے گایا تھا، یہ وہ سال تھا، جب کئی فلموں میں اس طرح کے ملی ترانے اور مناظر شامل کیے گئے، جو 6ستمبر کی جنگ کے پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک ایسی ہی فلم ''معجزہ'' بھی انہی دنوں ریلیز ہوئی تھی، جس کے ہدایت کار ایم اے رشید تھے۔
اس فلم میں حب الوطنی کے جذبے اوراس کی حفاظت کرنے والوں کو اس نغمے میں خراج تحسین پیش کیا گیا، ''توحید کے متوالو، باطل کو مٹادیں گے''۔اس ملی نغمے کو سلیم رضا، مسعود رانا اور ساتھیوں نے گایا تھا، جس کی طرز اختر حسین اور بول ساحل فارانی نے لکھے تھے۔۔ نغمہ نگار مشیر کاظمی کا لکھا ہوا ملی ترانہ ، اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو ، جسے گلوکارہ نسیم بیگم نے گایا اور اس ایمان افروز ترانے کو موسیقار سلیم اقبال نے تخلیق کیا۔
1965 کی جنگ بھارت کے ناپاک عزائم اور خباثت باطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن ہندوستان کی ٹڈی دل فوج کے دانت پاک فوج نے اس طرح کھٹے کر دیے اور ایسی کاری ضرب لگائی کہ ایک عرصے تک دشمن اس ضرب کے زخموں کو چاٹتا رہا۔ پاک فوج نے دشمن پر یہ واضح کر دیا کہ ہم میں آج بھی وہی خون ہے جو ٹیپو سلطان، حیدر علی، یوسف بن تاشفین اور محمد بن قاسم کی رگوں میں جوش مارتا تھا۔
ستمبر 65ء کی جنگ میں اس دیس کا بچہ بچہ اس وطن کی حرمت پر پہریدار بن گیا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہو گیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس وطن کے عوام اپنے ملک و ملت ، اپنے دین اور اپنی سالمیت کے لیے تن من دھن نچھاور کر دینے کو تیار ہو گئے تھے،پاکستانی فوج اور قوم کی طرح ہمارے فنکاراب بھی اس ملک کے لئے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں اور اگر پاکستان کا کبھی بھی وقت آیا تو پاکستانی گلوکار، موسیقار اور شاعر 1965 کی تاریخ دہراتے نظر آئیں گے۔