بھارتی عوام کے لیے مودی کا تحفہ

بھارت میں جو انتخابی پروپیگنڈا ہو رہا ہے اس سے بہ ظاہر یہ تاثر ہی ملتا ہے کہ بی جے پی انتخابات جیت لے گی ۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ISLAMABAD:
بھارتی انتخابات اپنے آخری مراحل میں ہیں۔ انتخابی نتائج سامنے آنے سے پہلے سیاسی مفکرین اور میڈیا عوام کے رجحان کے پس منظر اورکاسٹ ہونے والے ووٹ کے تناظر میں اندازے لگاتے ہیں کہ کون سی جماعت سب سے زیادہ ووٹ لے گی اور وزیراعظم کون ہوگا، ان اندازوں کے علاوہ بڑی پارٹیاں بہت بڑا سرمایہ خرچ کرکے یہ پروپیگنڈا مہم بھی چلاتی ہیں کہ ان کی جماعت الیکشن جیت رہی ہے اور وزیر اعظم ان کا ہوگا۔

اس حوالے سے رائے عامہ کے جائزے بھی پیش کیے جاتے ہیں ان پر بھی بھاری سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ سرمایہ کار اپنی پسندیدہ ایسی پارٹی کی انتخابی مہم پر بہت بڑی سرمایہ کاری کرتے ہیں جو ان کے مفادات کے تحفظ کے وعدے کرتی ہیں ۔اس کے علاوہ میڈیائی مہم بھی کسی جماعت کی برتری اور ممکنہ وزیر اعظم کے حوالے سے رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ بڑے بڑے میڈیا گروپ بڑی بڑی رقوم کے عوض کسی جماعت اور اس کے کسی رہنما کے برسر اقتدار آنے کا بھرپور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔

یہ ساری سرمایہ دارانہ نظام کی ایسی تکنیکس ہیں جس کے پیچھے ذاتی اور طبقاتی مفادات کام کرتے ہیں اس ساری ہڑبونگ سے عوامی مفادات عوامی مسائل کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اگرچہ انتخابی مہم کے دوران ہر جماعت عوامی مسائل حل کرنے اور عوام کی جہنم زار زندگی کو جنت میں بدلنے کے پرفریب وعدے کرتی ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد سارے انتخابی وعدے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ عوامی زندگی پہلے سے زیادہ ابتر بن جاتی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں اور جب تک یہ نظام باقی ہے یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔

بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اتنے بڑے ملک میں جہاں قدم قدم پر اختلافات تعصبات اور تحفظات موجود ہوں بغیر کسی بڑے خون خرابے کے انتخابات ہوجانا بذات خود ایک معجزے سے کم نہیں۔ زبان، قومیت، رنگ نسل وغیرہ میں بٹے ہوئے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام نے اس طویل انتخابی مراحل میں اپنی پسند کی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کو ووٹ دے کر ایک ایسی بیگار پوری کرلی جس کا اب تک انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

بھارت میں کانگریس میں ایک ایسی جماعت رہی ہے جو سب سے زیادہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی طاقت میں کمی آتی رہی اور پچھلے ایک عشرے سے کانگریس تنہا حکومت نہیں بناسکی۔ مخلوط حکومتوں ہی سے جمہوریت کی گاڑی چلتی رہی اور بدقسمتی یہ ہے کہ مخلوط حکومتوں میں لوٹ مار کرنے والوں کی تعداد چونکہ زیادہ ہوتی ہے اور قدم قدم پر اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

لہٰذا ایسی حکومتیں کمزور بھی ہوتی ہیں اور ان میں عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت بھی بہت کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی مخلوط حکومتیں کمزور بھی رہیں اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام بھی رہی ہیں۔ تقریباً یہی حال ان علاقائی پارٹیوں کا رہا ہے جو مختلف ریاستوں میں برسر اقتدار ہی ہیں۔ اپنی ناقص کارکردگی اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکامی ان جماعتوں کی نفسیات پر مسلط ہے اور اسی نفسیات کی وجہ سے یہ پارٹیاں مایوسی کا شکار نظر آتی ہیں اور بی جے پی کے حوالے سے ان کا رویہ جارحانہ نہیں رہا بلکہ مدافتی رہا ہے۔ بی جے پی اس حقیقت سے باخبر نظر آتی ہے۔


بی جے پی اس سے پہلے اقتدار میں رہی ہے لیکن اس اقتدار کے بعد بی جے پی بوجوہ مذہبی بلکہ مذہبی انتہا پسندانہ سیاست پر اتر آئی ہے جس کا اندازہ اس حیران کن اور ناگوار حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے نریندر مودی جیسے بدنام زمانہ شخص کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کردیا ہے۔ مودی مذہبی انتہا پسند ہونے کے ساتھ ایک نیم پڑھا لکھا نیم جاہل آدمی ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا مرتکب ہونے کے باوجود اور خود بھارت میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ناپسندیدہ ہونے کے باوجود انتخابی سیاست پر جس طرح چھایا نظر آرہا ہے اس سے ایک طرف بی جے پی کی مذہبی سیاست کی کامیابی کا اندازہ ہوتا ہے تو دوسری طرف نریندر مودی کی ہٹ دھرمی اور انتہا پسندی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شدید اصرار اور مطالبوں کے باوجود وہ گجرات کے قتل عام پر معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں۔

ہندوستان کا دانشور طبقہ نریندر مودی کے سخت خلاف ہے اور آج بھی اسے توہین آمیز انداز میں مخاطب کر رہا ہے۔ اس طبقے کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ بھارت 66 سال سے کسی ٹوٹ پھوٹ سے صرف سیکولرزم کی سیاست کی وجہ سے بچا ہوا ہے ان حلقوں کو یہ خدشہ نہیں بلکہ یقین ہو رہا ہے کہ اگر نریندر مودی سر پر ہندو توا کا پٹارہ رکھ کر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہوتا ہے تو بھارت ماتا کے ٹکڑے ہوسکتے ہیں ۔ بی جے پی ماضی میں برسر اقتدار رہی ہے لیکن اپنے عرصہ اقتدار میں وہ عموماً اعتدال پسندی کی سیاست کرتی رہی بلکہ اس کے وزیر اعظم پاکستان دوستی کی سیاست کی وجہ ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی پسندیدہ رہے۔ اس کے برخلاف مودی کی ہر تقریر فرقہ وارانہ نفرتوں اور پاکستان دشمنی سے عبارت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض انتخابی سیاست کی کرشمہ سازیاں ہوں لیکن مودی فرقہ وارانہ زہر سے بھارتی عوام کو جس طرح متاثر کر رہا ہے کیا اس کے اثرات انتخابی مہم تک محدود ہوں گے؟

دنیا بھر کے اہل عقل اہل دانش ہمیشہ مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ مذہبی انتہا پسندی جب جڑ پکڑنے لگتی ہے تو اس کی ہر شاخ ہر پتے سے فرقہ وارانہ نفرتوں کا زہر ٹپکنے لگتا ہے اور وہ اعتدال کی راہ سے ہٹ کر ایسی انتہا پسندی کے راستے پر چل نکلتی ہے جہاں اپنے پرائے من وتو کی تمیز ختم ہوجاتی ہے ۔ جس کا مشاہدہ آج ساری دنیا افغانستان، پاکستان، مشرق وسطیٰ اور کئی افریقی ممالک میں کیا جا رہا ہے۔

نریندر مودی اور اس کی پارٹی یقینا اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ کسی ریاست کو مذہبی ٹوپی پہنانا تو آسان ہے لیکن اس پر عملدرآمد اس لیے ممکن نہیں کہ رام راجیہ کی باتیں کرنا تو آسان ہے رام راجیہ پر عملدرآمد اس لیے ممکن نہیں کہ مذہبی ریاست کے قیام کے لیے ایک پورے سماجی سیاسی معاشی اور اخلاقی نظام کی ضرورت ہوتی ہے اور مذہبی ریاست کی سیاست کی پٹاری میں سوائے مجرد نعروں کے اور کچھ نہیں ہوتا البتہ اس پٹاری سے نفرتوں کے ایسے فوارے اٹھتے ہیں جو پورے معاشرے کو مسموم کردیتے ہیں۔

بھارت میں جو انتخابی پروپیگنڈا ہو رہا ہے اس سے بہ ظاہر یہ تاثر ہی ملتا ہے کہ بی جے پی انتخابات جیت لے گی اور مودی وزیر اعظم بن جائے گا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں اپنے دور حکومت میں عوام کو کچھ نہ دے سکیں۔ عوام ان حکومتوں سے سخت مایوس ہوگئے ہیں اور جب عوام حکومت سے مایوس ہوجاتے ہیں تو وہ متبادل تلاش کرتے وقت حقیقت پسند نہیں رہتے۔

بس ایک امید ان کے ساتھ ہوتی ہے کہ شاید یہ متبادل ان کے مسائل حل کردے۔ اس امید میں ان کے سامنے صرف اپنے مسائل اور ان کے حل ہوتے ہیں وہ اس بات پر کم ہی غور کرتے ہیں کہ ان کا متبادل نظریاتی حوالے سے ان کے لیے ملک کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان رساں۔ مشرق وسطیٰ کے نامکمل انقلاب کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ عوام لبرل حکومتوں سے مایوس ہوکر مذہبی انتہا پسندوں کی طرف گئے لیکن وہاں بھی انھیں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملا اس لیے کہ مذہبی انتہا پسندوں کے پاس تیز و تند نعروں کے علاوہ عوام کو دیکھنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔

نریندر مودی کا آنا یقینی نہیں لیکن اگر خدانخواستہ بی جے پی اور مودی برسر اقتدار آتے ہیں تو اس پورے خطے کا جو سب سے بڑا نقصان ہوگا وہ ہے مذہبی انتہا پسندی کا فروغ۔ مودی کے جواب میں پاکستان کی مذہبی انتہا پسند طاقتیں اور زیادہ بے لگام ہوجائیں گی اور ان کا دائرہ کار پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر ہندوستان کی سرحدیں عبور کر لے گا۔ مسلم انتہا پسندی کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے اور اس کے پاس ایسے نظریاتی کارکن ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو ہر وقت جنت میں جانے کے لیے تیار رہتے ہیں جب کہ ہندو انتہا پسندی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ مودی اپنے عوام کو کچھ دے نہ دے خودکش بمباروں کا تحفہ ضرور دے گا۔ ہمارا خیال ہے مودی اور بھارتی عوام اس تحفے کی برکتوں سے پوری طرح واقف ہوں گے۔
Load Next Story