قومی زبان اردو کا نفاذ
قومی زبان کے فروغ اور ترقی میں ریڈیو پاکستان نے مسلسل جو کردار ادا کیا ہے وہ اظہرمن الشمس ہے ۔۔۔
بات بات پر بانی پاکستان، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے اقوال زریں اور ان کے فرمودات کا حوالہ دینا ہمارا معمول بن چکا ہے جس میں ہمارے ارباب اقتدار ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں لیکن جہاں تک ان پر عمل کا معاملہ ہے تو اس میں ہماری کارکردگی صفر ہی رہتی ہے۔ قومی زبان اردو کے حوالے سے بھی ہمارے صاحبان بست وکشاد کی یہی کیفیت ہے۔ بابائے قوم نے قیام پاکستان کے بعد مارچ 1948 میں ڈھاکہ میں ببانگ دہل یہ اعلان کردیا تھا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی مگر ہمارے ارباب اختیار نے ان کے فرمان کو ٹالتے ہوئے 1956 میں یہ فیصلہ صادر کردیا کہ نفاذ اردو کو بیس سال کے لیے موخر کردیا جائے۔ اس کے نتیجے میں قائد کے فرمان کو سردخانے میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد ارباب اختیار نے 1973 میں نفاذ اردو کو مزید 15 سال کے لیے ملتوی کردیا۔ 1988 میں جب خدا خدا کرکے پندرہ سال کی توسیع کی مدت اختتام کو پہنچی تو یہ ایک بھولی ہوئی داستان بن چکی تھی۔
قومی زبان کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ فرانس میں تحریر و تقریر میں ایسے انگریزی الفاظ کا استعمال قانون کی رو سے جرم ہے جن کے متبادل الفاظ فرانسیسی زبان میں موجود ہوں۔ یہی صورتحال ہمارے پڑوسی برادر ملک ایران میں بھی ہے جہاں تحریروتقریر میں انگریزی الفاظ کے استعمال سے گریزکیا جاتا ہے۔ جاپانی اورچینی بھی اپنی اپنی قومی زبانوں کو ہی فوقیت اور ترجیح دیتے ہیں اور انگریزی پر عبور حاصل ہونے کے باوجود اپنی قومی زبان بولنے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں۔بلاشبہ قومی زبان کسی بھی ملک و قوم کی آن بان اور شان ہوتی ہے۔
وطن عزیز میں قومی زبان اردو سے مسلسل بے نیازی بلکہ بے زاری کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی مثال گاڑیوں پر لگی ہوئی تختیوں کی ہے۔ مشاہدے کے لیے آپ پورا پاکستان گھوم کر دیکھ لیں۔ کیا مجال جو آپ کی کہیں بھولے سے بھی کسی گاڑی پر آویزاں کوئی تختی قومی زبان میں لکھی ہوئی نظر آجائے۔ تقریباً یہی حال دکانوں پر لگے ہوئے زیادہ تر سائن بورڈوں کا ہے۔ آج سے نصف صدی سے بھی قبل عاشقان قومی زبان نے اردو کے سرخیل سید عبداللہ کی قیادت میں لاہور کی شاہراہ قائد اعظم پر قومی زبان کی حمایت میں ایک خاموش جلوس نکالا تھا۔ اس مہم کے نتیجے میں تقریباً ساٹھ فیصد گاڑیوں کی تختیاں اردو میں تبدیل ہوگئیں۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ اردوکی پذیرائی اور ترویج میں اہل پنجاب اور خصوصاً اہل لاہور کا بہت بڑا کردار اور حصہ ہے جس کی ملک کے دیگر صوبوں کے لوگوں کو تقلید کرنی چاہیے۔
قومی زبان کے فروغ اور ترقی میں ریڈیو پاکستان نے مسلسل جو کردار ادا کیا ہے وہ اظہرمن الشمس ہے۔ اہل وطن آج بھی نہ صرف ریڈیو پاکستان سن کر اپنی گھڑیوں کا وقت درست کرتے ہیں بلکہ اپنے اردو الفاظ کے تلفظ کی درستی بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن جب سے ایف ایم ریڈیو چینلز کا سیلاب آیا ہے تب سے انگریزی کے غلبے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں ایک ایسی زبان فروغ پا رہی ہے جسے نہ تو اردو کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی انگلش۔ گستاخی معاف اسے اگر ''اردش'' کہا جائے تو شاید زیادہ مناسب ہوگا۔
آج سے بہت عرصہ قبل جب آزادی کے بعد اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کی بات چلی تھی تو اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ مگر آج ہندوستان میں نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اردو کو دیوناگری رسم الخط میں لکھا جا رہا ہے اور اگرچہ ہندوستان کی بیشتر فلموں میں بولے جانے والے مکالموں اور گائے جانے والے نغموں کی زبان اردو ہی ہوتی ہے لیکن محض اردو سے تعصب کی بنا پر ان تمام فلموں کو بھارت کے فلم سنسر بورڈ کی جانب سے جو سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے اس میں زبان کے خانے میں ہندی کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے۔
وطن عزیزمیں شایع ہونے والے اخبارات و رسائل اور ان کے قارئین کی غالب اکثریت بھی قومی زبان استعمال کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ کیماڑی سے خیبر تک سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان بھی اردو ہی ہے جس کے بغیر زندگی کے کاروبار کو چلانا ناممکن ہے۔ یہ اردو اورصرف اردو ہی ہے جس نے ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک قوم کے مضبوط ومستحکم رشتے سے جوڑا ہوا ہے۔
یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ بانیان قوم کو اردو کی اس اہمیت کا شروع دن سے ہی احساس تھا۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سردار عبدالرب نشتر جب پنجاب کے گورنر ہوئے تو 1950کے پنجاب یونیورسٹی کے جلسہ اردو میں ہی پیش کیا۔ افسوس کہ ان کے بعد کے لوگوں نے اس روایت کو برقرار نہ رکھا۔ اس کا اعادہ جنرل محمد ضیا الحق کے دور میں ہوا جب ہر قسم کی تقریبات کی کارروائی قومی زبان میں ہی انجام پانے لگی اور ہر طرف اردو کے طغرے اور بورڈ لگے ہوئے نظر آنے لگے۔ یہ مواقعے بھی اسی دور سے تعلق رکھتا ہے کہ ایک تقریب کی کارروائی انگریزی میں ہو رہی تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اس حرکت پر انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے منتظمین کو زبردست ڈانٹ پلائی حالانکہ جونیجو صاحب بذات خود سندھی تھے۔
اس کے بعد سے حالت یہ ہے کہ بیشتر تقاریب کی کارروائی فرنگی زبان میں ہی ہوئی ہے اور قومی زبان کے ساتھ اچھوت کا سا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس میں صرف ہمارے صدر اور وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ بیشتر وزرائے کرام اور اعلیٰ سول اور فوجی اہلکاروں سمیت کم و بیش تمام ہی لوگ شامل ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ مصور پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزاروں پر بھی پھولوں کے گلدستے انگریزی عبارت میں ہی رکھے جاتے ہیں۔ اس حرکت پر ان قائدین کی ارواح کو کس قدر تکلیف ہوتی ہوگی۔ ارباب اختیار سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس غلط روایت کا فوری نوٹس لیں۔ اس موقعے پر ہمیں قومی سطح کی دو عظیم ہستیاں یاد آرہی ہیں جو قومی زبان کی بڑی زبردست حامی اور شیدائی تھیں۔ اولاً حکیم محمد سعید شہید اور دوسرے بابائے ایڈورٹائزنگ ایس ایچ ہاشمی۔
حکیم محمد سعید صاحب جب صوبہ سندھ کی گورنری کے منصب پر فائز ہوئے تو اس موقعے پر پیش کیے گئے خوبصورت گلدستے پر خوش خط اور موٹے اردو الفاظ میں ''حکیم محمد سعید گورنر سندھ'' تحریر کیا گیا تھا۔
برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ ہماری اشتہاری صنعت کا اردو کے ساتھ رویہ بھی امتیازی ہے حالانکہ جس ملک میں خواندگی کی شرح بھی انتہائی پست ہے وہاں انگریزی جاننے والوں کی تعداد کتنی قلیل ہوگی اس کا اندازہ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ مگر بس ایک قسم کی بھیڑ چال ہے جو غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ سب سے بڑی زیادتی قومی زبان کے ساتھ یہ ہے کہ اگر اسے استعمال بھی کیا جاتا ہے تو اس کے لیے رومن رسم الخط کا سہارا لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہماری نئی نسل اردو سے روز بروز دور ہو رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اشتہار دینے والے ادارے اپنے اشتہارات میں قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی جانب توجہ فرمائیں۔ اس سلسلے میں ہماری صدر مملکت اور وزیر اعظم سے پرزور اپیل ہے کہ وہ سرکاری اشتہارات کی قومی زبان میں اشاعت کا اہتمام کریں اور حکومت کے ماتحت تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو اپنے تمام اشتہارات قومی زبان میں شایع کرانے کا پابند کریں۔
اس وقت ہمیں یاد آرہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں جب جناب احسن اقبال منصوبہ بندی کمیشن کے نائب صدر کے منصب پر فائز تھے تو انھوں نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ سال دو ہزار دس (2010) تک قومی زبان اردو کو تمام سرکاری دفاتر میں رائج کردیا جائے گا۔ اب جب کہ ان کی جماعت ایک مرتبہ پھر برسر اقتدار آچکی ہے اور وہ بلند تر منصب پر فائز ہیں ہم انھیں ان کا کہا یاد دلا رہے ہیں اور ان سے یہ گزارش کر رہے ہیں کہ وہ ہمت سے کام لیں اور قومی زبان کے نفاذ کے مقدس فریضے کی ادائیگی میں بلاتاخیر اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت آنی جانی چیز ہے لیکن قومی اہمیت کے بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن سے پوری قوم ہمیشہ مستفید اور فیضیاب ہوتی رہتی ہے۔ ہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ اپنے موجودہ دور اقتدار میں نفاذ اردو کا سہرا اپنے سر باندھنے کی سعادت حاصل کریں۔