بنت حوا کی مظلومیت
ہمارے معاشرے میں لڑکا پیدا نہ ہونے کی تمام ذمے دار عورت ٹھہرائی جاتی ہے اور کبھی کبھار بیٹی کی پیدائش پر بات طلاق ۔۔۔
نائیجیریا میں شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے 200 طالبات کو اغوا کرکے کیمرون کے سرحدی علاقے کے جنگل میں چھپا دیا ہے۔
انھیں نیلام کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ سمیت دنیا بھر کی سماجی تنظیموں کی طرف سے اس پر شدید احتجاج جاری ہے۔اپنے وطن میں یہ گزشتہ سال کی بات ہے۔خیبر پختون خوا کے علاقے تورغر میں ایک عورت کے ہاں مسلسل چوتھی بیٹی پیدا ہوئی جب اس کے شوہر کو پتا چلا اس نے غصے میں آکر پستول اٹھائی اور اندھادھند فائرنگ کر کے اپنی بیوی کوموت کے گھاٹ اتاردیا۔ اسی طرح مانسہرہ میں ایک خاتون کے دوبیٹے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے اْسے اپنی 'رحمت ' سے نوازا تو اْس کے شوہر نے اْس معصوم بچی کا گلا دبا کر اس کی جان لے لی۔ چارسدہ میں ایک عورت کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اس کی ساس، رشتے داروں اور محلے کی خواتین نے اْسے اتنے طعنے دیے کہ وہ شدتِ غم سے نڈھال ہوگئی اورگھر آکر اس نے زہر پی کر خود کشی کرلی۔
کوہاٹ میں کچھ عرصہ قبل ایک لڑکی کی شادی ہوئی۔ اْس کے شوہر نے اسے ابتدا میں ہی بتادیا کہ اگر ہماری بیٹی ہوئی تو تمہیں اور بیٹی کو اپنے گھر سے نکال دونگا۔ وہ خاتون بیچاری دن رات یہی دعائیں کرتی رہی کہ یااللہ! بیٹا عطا کرنا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ اْس خاتون کی بیٹی پیدا ہوئی تو شوہر نے فوراً اسے طلاق دیدی۔اْس ظالم نے یہ بھی نہ سوچا کہ باپ کی شفقت سے محروم معصوم بچی کا کیا بنے گا اور یہ اس بے رحم معاشرے کا سامنا کیسے کرپائے گی۔یہ سارے واقعات نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہیں۔ہمارے معاشرے میں یہ ایک عام رویہ ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ عام طور پر بیٹا ہونے پر خوشی منائی جاتی ہے اور بیٹی کی پیدائش پر منہ بنایا جاتا ہے۔ بیٹی کو منحوس تصور کیا جاتا ہے اور اسے اپنے اوپر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم ہی سے بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ اس دور میں لوگ تعلیم و آگہی سے بے بہرہ تھے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ 21 ویں صدی میں بھی ہم زمانہ جاہلیت کی سوچ ونظر سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔
ہمارے معاشرے میں لڑکا پیدا نہ ہونے کی تمام ذمے دار عورت ٹھہرائی جاتی ہے اور کبھی کبھار بیٹی کی پیدائش پر بات طلاق تک بھی جا پہنچتی ہے۔ عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور اْنہیں جان سے مارنے کے واقعات عام ہو چکے ہیں،مارچ میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے عالمی دن ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے، اس موقعے پر خواتین کے حقوق کے متعلق سیمینارز، ریلیاں اور تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، اخبارات میں خصوصی ایڈیشن شایع کیے جاتے ہیں، کالمز اور مضامین میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کا رونا رویا جاتا ہے۔ مظلوم اور متاثرہ عورتوں کو میڈیا پر پیش بھی کیا جاتا ہے، ان پر بہت سی ڈاکومنٹری فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں۔این جی اوز اور مقامی تنظیمیں بھی خواتین کے حق میں آواز اٹھاتی ہیں مگر پھر سب کچھ بھلادیا جاتا ہے اور عملی طور پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ نہیںکیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔اس کا اندازہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میںکہا گیا ہے کہ 2013ء کے دوران ملک بھر میں 56 خواتین کو بیٹی پیدا ہونے کے جرم میں موت کی نیند سلادیا گیا۔ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق گزشتہ سال800خواتین نے خودکشی کی جب کہ869 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ 2013 ء میں ایک ہزار 205 بچوں کو بد اخلاقی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں سے 68 فیصد لڑکیاں تھیں۔ حواکی بیٹی معاشرتی جبر سے لگنے والی آگ میں مسلسل جل رہی ہے لیکن کوئی اس کے درد کا مداوا کرنیوالا نہیں کوئی اس کے حق کے لیے خلوص نیت کے ساتھ جدوجہد کرنیوالا نہیں، اس انسانیت سوز سلوک پر سب چُپ سادھے ہوئے ہیں۔آخر یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟کیا ہمارے اندر انسانیت ختم ہوگئی؟ اس کے علاوہ ہمارے ہاں دیہاتی عورت سب سے زیادہ مظلوم ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں ایک دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشی و معاشرتی سہولیات میسر نہیں۔ اکثر دیہاتوں اور قبیلوں میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ کیونکہ دیہات کی عورت اپنے حقوق کے متعلق شعور نہیں رکھتیجہاں تک لڑکے کی پیدائش پر خوشی اور لڑکی کی ولادت پر پریشان یا مایوس ہونے کی بات ہے تو یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ کسی کو بیٹا یا بیٹی عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اس پر ہمارا منہ بنانا گویا اللہ کی تخلیق پر اعتراض کرنا ہے۔ سورہ شوریٰ کی درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں: اللہ ہی کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے (مادہ) لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے (نر) لڑکے عنایت کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں (ملاجلا کر) دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔وہ (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔ (الشوریٰ)
1۔حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مرد کی بھی دو بیٹیاں بالغ ہو جائیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے (کھلائے پلائے اوردینی آداب سکھائے) جب تک وہ بیٹیاں اس کے ساتھ رہیں یا وہ مرد ان بیٹیوں کے ساتھ رہے (حسن سلوک میں کمی نہ آنے دے) تو یہ بیٹیاں اسے ضرور جنت میں داخل کروائیں گی۔( ابن ماجہ)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام میں بیٹیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ عورت پر ظلم وستم اور اسے بیٹی کی ولادت پر طعنے دینا اور اسے منحوس سمجھنا انتہائی جاہلانہ باتیں ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا میں پیش آرہے ہیں۔ اس حوالے سے موثر قانون سازی نہیں کی جا رہی جس کے باعث آج ہم اس طرح کے دگرگوں حالات سے دوچار ہیں۔حکمرانوں،علماء اور میڈیا کو لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ عوام کو بتایا جائے کہ بیٹی تو خدا کی رحمت ہے کیوں اسے اپنے لیے زحمت بنانے پر تْلے ہوئے ہو۔ اس طرح کے اقدامات سے ان واقعات میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔بیشک بیٹے یا بیٹی کی خواہش کرنا اور اس کے لیے اپنے رب سے مانگنا کوئی بری بات نہیں،اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جب ولادت ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوجائے تو اسے اپنے لیے باعث زحمت سمجھنا سخت گناہ کی بات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اسے اپنی ذمے داری سمجھے اور جس جس سے جو کچھ اپنے وسائل کے مطابق ہوسکتا ہو، وہ اس حوالے سے اپنا کردارضرور ادا کرے۔
انھیں نیلام کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ سمیت دنیا بھر کی سماجی تنظیموں کی طرف سے اس پر شدید احتجاج جاری ہے۔اپنے وطن میں یہ گزشتہ سال کی بات ہے۔خیبر پختون خوا کے علاقے تورغر میں ایک عورت کے ہاں مسلسل چوتھی بیٹی پیدا ہوئی جب اس کے شوہر کو پتا چلا اس نے غصے میں آکر پستول اٹھائی اور اندھادھند فائرنگ کر کے اپنی بیوی کوموت کے گھاٹ اتاردیا۔ اسی طرح مانسہرہ میں ایک خاتون کے دوبیٹے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے اْسے اپنی 'رحمت ' سے نوازا تو اْس کے شوہر نے اْس معصوم بچی کا گلا دبا کر اس کی جان لے لی۔ چارسدہ میں ایک عورت کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اس کی ساس، رشتے داروں اور محلے کی خواتین نے اْسے اتنے طعنے دیے کہ وہ شدتِ غم سے نڈھال ہوگئی اورگھر آکر اس نے زہر پی کر خود کشی کرلی۔
کوہاٹ میں کچھ عرصہ قبل ایک لڑکی کی شادی ہوئی۔ اْس کے شوہر نے اسے ابتدا میں ہی بتادیا کہ اگر ہماری بیٹی ہوئی تو تمہیں اور بیٹی کو اپنے گھر سے نکال دونگا۔ وہ خاتون بیچاری دن رات یہی دعائیں کرتی رہی کہ یااللہ! بیٹا عطا کرنا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ اْس خاتون کی بیٹی پیدا ہوئی تو شوہر نے فوراً اسے طلاق دیدی۔اْس ظالم نے یہ بھی نہ سوچا کہ باپ کی شفقت سے محروم معصوم بچی کا کیا بنے گا اور یہ اس بے رحم معاشرے کا سامنا کیسے کرپائے گی۔یہ سارے واقعات نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہیں۔ہمارے معاشرے میں یہ ایک عام رویہ ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ عام طور پر بیٹا ہونے پر خوشی منائی جاتی ہے اور بیٹی کی پیدائش پر منہ بنایا جاتا ہے۔ بیٹی کو منحوس تصور کیا جاتا ہے اور اسے اپنے اوپر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم ہی سے بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ اس دور میں لوگ تعلیم و آگہی سے بے بہرہ تھے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ 21 ویں صدی میں بھی ہم زمانہ جاہلیت کی سوچ ونظر سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔
ہمارے معاشرے میں لڑکا پیدا نہ ہونے کی تمام ذمے دار عورت ٹھہرائی جاتی ہے اور کبھی کبھار بیٹی کی پیدائش پر بات طلاق تک بھی جا پہنچتی ہے۔ عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور اْنہیں جان سے مارنے کے واقعات عام ہو چکے ہیں،مارچ میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے عالمی دن ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے، اس موقعے پر خواتین کے حقوق کے متعلق سیمینارز، ریلیاں اور تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، اخبارات میں خصوصی ایڈیشن شایع کیے جاتے ہیں، کالمز اور مضامین میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کا رونا رویا جاتا ہے۔ مظلوم اور متاثرہ عورتوں کو میڈیا پر پیش بھی کیا جاتا ہے، ان پر بہت سی ڈاکومنٹری فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں۔این جی اوز اور مقامی تنظیمیں بھی خواتین کے حق میں آواز اٹھاتی ہیں مگر پھر سب کچھ بھلادیا جاتا ہے اور عملی طور پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ نہیںکیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔اس کا اندازہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میںکہا گیا ہے کہ 2013ء کے دوران ملک بھر میں 56 خواتین کو بیٹی پیدا ہونے کے جرم میں موت کی نیند سلادیا گیا۔ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق گزشتہ سال800خواتین نے خودکشی کی جب کہ869 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ 2013 ء میں ایک ہزار 205 بچوں کو بد اخلاقی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں سے 68 فیصد لڑکیاں تھیں۔ حواکی بیٹی معاشرتی جبر سے لگنے والی آگ میں مسلسل جل رہی ہے لیکن کوئی اس کے درد کا مداوا کرنیوالا نہیں کوئی اس کے حق کے لیے خلوص نیت کے ساتھ جدوجہد کرنیوالا نہیں، اس انسانیت سوز سلوک پر سب چُپ سادھے ہوئے ہیں۔آخر یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟کیا ہمارے اندر انسانیت ختم ہوگئی؟ اس کے علاوہ ہمارے ہاں دیہاتی عورت سب سے زیادہ مظلوم ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں ایک دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشی و معاشرتی سہولیات میسر نہیں۔ اکثر دیہاتوں اور قبیلوں میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ کیونکہ دیہات کی عورت اپنے حقوق کے متعلق شعور نہیں رکھتیجہاں تک لڑکے کی پیدائش پر خوشی اور لڑکی کی ولادت پر پریشان یا مایوس ہونے کی بات ہے تو یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ کسی کو بیٹا یا بیٹی عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اس پر ہمارا منہ بنانا گویا اللہ کی تخلیق پر اعتراض کرنا ہے۔ سورہ شوریٰ کی درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں: اللہ ہی کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے (مادہ) لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے (نر) لڑکے عنایت کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں (ملاجلا کر) دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔وہ (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔ (الشوریٰ)
1۔حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مرد کی بھی دو بیٹیاں بالغ ہو جائیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے (کھلائے پلائے اوردینی آداب سکھائے) جب تک وہ بیٹیاں اس کے ساتھ رہیں یا وہ مرد ان بیٹیوں کے ساتھ رہے (حسن سلوک میں کمی نہ آنے دے) تو یہ بیٹیاں اسے ضرور جنت میں داخل کروائیں گی۔( ابن ماجہ)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام میں بیٹیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ عورت پر ظلم وستم اور اسے بیٹی کی ولادت پر طعنے دینا اور اسے منحوس سمجھنا انتہائی جاہلانہ باتیں ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا میں پیش آرہے ہیں۔ اس حوالے سے موثر قانون سازی نہیں کی جا رہی جس کے باعث آج ہم اس طرح کے دگرگوں حالات سے دوچار ہیں۔حکمرانوں،علماء اور میڈیا کو لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ عوام کو بتایا جائے کہ بیٹی تو خدا کی رحمت ہے کیوں اسے اپنے لیے زحمت بنانے پر تْلے ہوئے ہو۔ اس طرح کے اقدامات سے ان واقعات میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔بیشک بیٹے یا بیٹی کی خواہش کرنا اور اس کے لیے اپنے رب سے مانگنا کوئی بری بات نہیں،اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جب ولادت ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوجائے تو اسے اپنے لیے باعث زحمت سمجھنا سخت گناہ کی بات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اسے اپنی ذمے داری سمجھے اور جس جس سے جو کچھ اپنے وسائل کے مطابق ہوسکتا ہو، وہ اس حوالے سے اپنا کردارضرور ادا کرے۔