پولیو مہم… چند حقائق

پاکستان کی وجہ سے دنیا میں پولیو وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کا خطرہ موجود ہے ۔۔۔

advo786@yahoo.com

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے باعث پولیو وائرس کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا اس کے لیے انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کمیٹی نے سفارشات پیش کی ہیں پاکستان کے ہر مسافر کے لیے سفر سے ایک ماہ قبل پولیو بچاؤ کی ویکسینیشن لینا لازمی ہوگی۔ ہنگامی طور پر سفر کرنیوالوں کے لیے بھی ایئرپورٹ پر حفاظتی ویکسین لینا لازمی ہو گی اس کا تصدیقی سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا ہوگا۔ WHO کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران جن ممالک میں پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں ان کا وائرس پاکستان سے منتقل ہوا ہے۔

پاکستان کی وجہ سے دنیا میں پولیو وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کا خطرہ موجود ہے اور پشاور دنیا بھر میں پولیو کا وائرس ڈپو ہے۔ ان خبروں نے عوام سے زیادہ حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچا کر رکھ دی ہے۔ وزارت صحت، وزارت خارجہ، وزیر اعلیٰ اور سیکریٹریز فوراً حرکت میں آگئے۔ تمام صوبائی وزرا اعلیٰ اور سیکریٹریز کے ہنگامی اجلاس منعقد ہوئے۔ وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں پاکستان میں WHO کی صدر نے عالمی کمیٹی کی سفارشات پیش کیں اور بتایا کہ WHO کے اقدامات کا مقصد پولیو سے متاثرہ ممالک سے وائرس کی منتقلی روکنا ہے، صوبوں کے ساتھ ہنگامی مشاورتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سائرہ افضل نے ان پابندیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں پولیو کی صورتحال اور سفری پابندیوں کے لیے 15 دنوں کی مہلت مانگی گئی ہے ۔

ان شرائط کے حوالے سے ان دو ہفتوں میں لائحہ عمل تیار کرلیا جائے گا اس سلسلے میں دفتر خارجہ کے حکام کو بھی عالمی سطح پر لابنگ کی ہدایت کردی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت پر پابندی سے قبل 2 ماہ کا وقت دیا گیا تھا جب کہ پاکستان پر یک لخت پابندیاں عائد کرنا زیادتی ہے اس وقت ملک کی ایئرپورٹس سے روزانہ 27 ہزار افراد بیرون ملک جاتے ہیں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پولیو کے پھیلاؤ میں مذہب کا عنصر شامل نہیں ہے بلکہ متاثرہ علاقوں میں امن وا مان کی خراب صورتحال رکاوٹ ہے۔

حکومت گزشتہ 6 ماہ سے انٹرنیشنل فورمز اور WHO میں اس کیس کا بھرپور طریقے سے دفاع کر رہی ہے ہم نے کہا تھا کہ جن علاقوں میں پولیو وائرس ہے صرف ان علاقوں سے سفر کرنیوالوں کے لیے پابندی عائد کی جائے لیکن WHO نے کہا ہمارا فیصلہ ممالک کی سطح پر ہوتا ہے۔ وزیر مملکت برائے صحت سائرہ تارڑ نے WHO پر الزام لگایا کہ سفری پابندیوں سے پاکستان کو تنہا کیا جا رہا ہے جس سے عام پاکستانیوں کو مشکلات ہو جائیں گی یہ اقدام دہشتگردی کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا کہ فاٹا کی وجہ سے سفری پابندیاں لگی ہیں یہ حکومت کی ناکامی نہیں ہے۔

سائرہ تارڑ ایک جانب تو یہ کہہ رہی ہیں کہ پولیو مہم میں مذہبی عنصر شامل نہیں ہے بلکہ اس میں متاثرہ علاقوں میں امن کی مخدوش صورتحال رکاوٹ ہے جب کہ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ماہ پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں وہ اس دوران پولیو سے بچاؤ کی مہم سے خصوصی طور پر حصہ لیں گے۔ بظاہر تو انسداد پولیو مہم کا معاملہ انتظامی نوعیت کا نظر آتا ہے جس میں بہت سے سیاسی عوامل اور حکومت اور اس کے اداروں کی ناقص کارکردگی ناکامی کی وجہ نظر آتی ہے۔ وزیر مملکت خود بھی پولیو مہم میں مذہبی عنصر کے شامل ہونے کی نفی کرتی نظر آتی ہیں دوسری جانب اس مہم میں امام خانہ کعبہ کو شامل کرنے کا عندیہ بھی دے رہی ہیں۔ امام خانہ کعبہ کی شخصیت ، مسلمانوں کے لیے نہایت واجب التعظیم و احترام ہے انھیں ایسے معاملات میں شامل کرنے سے مثبت سے زیادہ منفی نتائج نکلنے کے امکانات ہیں خاص طور پر ہمارے کلچر میں جہاں ہر شخصیت اور ہر کام کو سیاست زدہ کردیا جاتا ہے۔


مشرف حکومت نے بھی امام کعبہ عبدالرحمن السدیس کی ذات کو لال مسجد آپریشن میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی جیسے لال مسجد انتظامیہ نے خدانخواستہ امام کعبہ کی ذات کو رد کردیا ہو اور لال مسجد انتظامیہ کی جانب سے بھی ایسا تاثر دیا گیا تھا جیسے امام کعبہ نے شریعت کے نفاذ کے لیے ان کی کوششوں کی تائید کی ہو جب کہ امام کعبہ نے حکومت اور لال مسجد تنازعے پر اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے فریقین کو امن وامان کے تحفظ کرنے کے تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بدامنی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے تمام مسلمان متحد ہوجائیں اور تقسیم کرنے اور فتنہ پھیلانے والوں کا مقابلہ کریں۔

اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی بات ان سے منسوب نہ کی جائے اور پاکستان میں ان کی موجودگی کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے لیکن اس کے باوجود جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے آج کے سیاست زدہ اور پوائنٹ اسکورنگ کے ماحول مذہب سے لاتعلق و بیزار عناصر بھی اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ مذہب بے زاری کے دہرے مفادات حاصل کرتے ہیں قرآن و سنت اور احادیث کی من چاہی تشریح و تعبیر کرکے اپنی قابلیت و صلاحیت کا سکہ جماتے ہیں ۔

حکومت کو پولیو مہم میں امام کعبہ کو شامل کرنے سے پہلے اس پہلو پر اچھی طرح غور وخوض کرلینا چاہیے خاص طور پر اس تناظر میں جب کہ وہ خود کہہ رہی ہے کہ اس مہم میں مذہبی عناصر رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ امن وامان اور علاقوں تک ٹیموں کا نہ پہنچنا ہے۔ پولیو مہم کو شدت پسندوں کے علاوہ عام شہری بھی شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں خاص طور پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی پولیو مہم کی آڑ میں امریکیوں کی جاسوسی کی مہم نے عوام کے اعتماد کو متزلزل کیا ہے جسے بحال کرنے میں بڑی محنت و کاوشیں درکار ہونگی۔ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 18 ماہ میں پولیو مہم میں حصہ لینے والے 28 کارکنان اور ان کے محافظ قتل کیے جاچکے ہیں حکومت انھیں تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے ملک کے تمام حصوں تک اس کی ٹیمیں نہیں پہنچ پائی ہیں۔

اگر حکومت خود صرف ان علاقوں کے لوگوں پر سفری پابندی لگانے کا مطالبہ یا اقدام کرتی ہے جو پولیو وائرس سے متاثرہ ہیں تو یہ ناقابل ہونے کے ساتھ ساتھ ناانصافی پر مبنی اقدام ہوگا۔ صوبائی حکومتیں جو بین الصوبائی نقل و حرکت کے سلسلے میں انٹری پوائنٹ اور بچوں کو قطرے پلانے کی پیش بندیاں کر رہی ہیں عوام کی مشکلات میں اضافہ کریں گی اور صوبائی تفریق کو جنم دیں گی، حکومت کو پولیو وائرس پر قابو پانے کے لیے جو مہلت دی جا رہی ہے اس میں کسی مثبت نتیجے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آئے ۔گزشتہ 18 سالوں سے جاری اس مہم کے باوجود رواں سال میں اب تک 60 سے زائد کیسز سامنے آچکے ہیں۔

کراچی جیسے شہر میں اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے اور اس مرض کی شرح میں کمی کی بجائے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہندوستان ہم سے زیادہ رقبے اور وسائل کا حامل ملک ہے جہاں غربت، ذات پات، مذہبی و نظریاتی علیحدگی کی تحریکیں اور دور افتادہ علاقے ہیں اس کے باوجود پولیو کو ختم کرچکا ہے اور دنیا کا پہلا ملک ہے جو پاکستانیوں کے بھارتی سفر سے قبل پولیو سرٹیفکیٹ لازمی قرار دے چکا ہے۔ ہم ایٹمی ملک ہونے کے باوجود کیمرون، ایتھوپیا، صومالیہ اور نائیجیریا جیسے غریب افریقی ملکوں کی صف میں کھڑے ہوئے ہیں حکومت کو اپنی تمام تر ناکامی اور نااہلی کا الزام دوسروں کے سر تھوپنے اور تاویلات و عذرات پیش کرنے کے بجائے اپنی پالیسیوں اور ناکامیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر توجہ اپنی کارکردگی پر مرکوز کرکے اس عالمی وبا اور دباؤ سے باہر نکالنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
Load Next Story