عالمی ادب کا روح شناس مترجم
اردو ادب میں اچھے لکھے گئے ناولوں کی تعداد اتنی مختصر ہے کہ اسے یاد رکھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ۔۔۔
اردو ادب میں اچھے لکھے گئے ناولوں کی تعداد اتنی مختصر ہے کہ اسے یاد رکھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔یہ صنف چونکہ مغرب سے مستعار لی گئی ،لہٰذاسے مقامی رنگ وروپ میںقلم بند کرناآزمائش کی مانند ہے اورناول کی صنف میں بہت کم ناول نگار اس امتحان میںپورے اترے، جب کہ اردوزبان میں عالمی ادب سے ترجمہ کیے گئے ناولوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے، اگر میں ان کے نام درج کرنے کا ارادہ کر بھی لوں، تو کالم کی تنگ دامنی آڑے آئے گی۔
اسی ماحول میں ایک مترجم نے دنیا کے بہترین ناول اردوزبان میں منتقل کیے،مگر جس مقام کے وہ حق دار تھے،انھیں وہ دیا نہیں گیا۔ایسی فضا میں اس طرح کا معیاری کام کرنے والے اعلیٰ ظرف تخلیق کار اکثرگوشہ نشین ہو جایا کرتے ہیں۔ میں بھی ایک ایسے ہی ایک گوشہ نشین کو جانتا ہوں، جنہوں نے اردوزبان کو نہ صرف عالمی ادب کے عظیم ناولوں سے مالا مال کیابلکہ ترجمے کا ایک معیار قائم کیا،جس کی کسوٹی پر یہ پرکھا جا سکتا ہے کہ اچھا ترجمہ کیاہوتا ہے۔اس درویش صفت اورذہین مترجم کا نام''شاہد حمید''ہے۔
میں انھیں صرف ایک مترجم ہی نہیں بلکہ تخلیق کاربھی مانتاہوں۔انھوں نے صرف حروف کا ترجمہ نہیں کیا،بلکہ ناولوں میں موجود منظر سے پس منظر تک کے حالات وواقعات، کیفیات اورمحسوسات کو بھی منتقل کیا ہے۔کسی بھی اعلیٰ ترجمے کی یہ سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔شاہد حمید کی مادری زبان پنجابی ہے۔اردو زبان سے محبت کی اور انگریزی زبان کی فہم وفراست کوحاصل کیا۔ان تینوں زبانوں کے امتزاج کے بعد ان کے قلم سے جس نثر نے جنم لیا،وہ روح میں اترجانیوالی ہے۔یہی وجہ ہے، اردوزبان کے قارئین نے جین آسٹن،دوستوفسکی اورٹالسٹائی جیسے شاندار ناول نگاروں کو زبان کی مکمل صحت اورخیال کی گہرائی کے ساتھ پڑھا ہے۔
میںیہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتاہوں ،ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت اپنی پوری زندگی میں اتنا ادب نہیں پڑھتی ہوگی جتناعالمی ادب انھوں نے اردو زبان میںترجمہ کر دیاہے۔یہ بلاشبہ اردو ترجمہ نگاری کے محسن ہیں،مگر مجھے ذاتی طورپر ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کو پاکستانی ادبی منظر نامے میں فراموش کیاگیا۔ادبی میلے سجانے کا ایک نیا رجحان ہمارے ہاں پیدا ہوا ہے،کتنی عجیب بات ہے ،ادب تو ایک دنیا ہوتی ہے،مگر عصر حاضر کے مصنوعی دانشوروں اورتخلیق کاروں نے اسے میلوں ٹھیلوں تک محدود کردیا ہے۔
ان میلوں میں تراجم کے موضوع پر بھی کئی سیشن منعقد کیے گئے،مگر ہمارا یہ درویش مترجم کہیں دکھائی نہ دیا۔شاہدحمید کے کیے ہوئے ترجموں کا چربہ کرکے کئی ناشروں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔اب اس کے بعد اورکہنے کو کیا رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ناقدری کی یہ روایت خاصی پرانی ہے۔ دیر آئے درست آئے کے مانند، اب یہ ایک ایسے ناشر کے ہمراہ ہو گئے ہیں جس کے ہاں اپنے تخلیق کاروں کی قدر بھی ہے اور اشاعت کا معیار بھی،اس ادارے کانام''ریڈنگز''ہے،جو لاہور میں واقع ہے۔اس کا ایک اشاعتی ادارہ''القا پبلیکیشنز'' بھی ہے،جو اردو کتابیں شایع کرتا ہے۔ اس ادارے کی خوبی یہ ہے، یہ لوگ صرف ادب چھاپتے ہی نہیں ادب پڑھتے اورادب کرتے بھی ہیں۔
گزشتہ دنوں اسی ادارے نے برطانوی ناول نگارجین آسٹن کے ناول کا اردو ترجمہ (تکبر اورتعصب۔Pride and Prejudice)شایع کیا،یہ ناول شاہد حمید کی ترجمے پر دسترس رکھنے کی باکمال صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جین آسٹن کو انگریزی ادب میں شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔اس کا یہ ناول ''تکبر اور تعصب'' 2 سو سال پہلے لکھا گیا تھا۔آج دنیا بھر کی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اس ناول کے تراجم کے حوالے سے جن زبانوں کا ذکر آتا ہے،اس میں اردوب ھی شامل ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر کاپی رائٹس کا خیال رکھا جائے اورکسی کتاب کے بخیے ادھیڑنے کی بجائے اس کو پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ ترجمہ کیاجائے،تو اس کی بازگشت دور تک سنی جا سکتی ہے۔
جین آسٹن کے اس ناول ''تکبر اورتعصب ''کی نئی اشاعت کی خاص بات اس کا لکھاہوا دیباچہ ہے،جس میں شاہد حمید نے عالمی ادب کے تناظر میں اس ناول کے لیے جس پذیرائی کا ذکر کیاہے،اس کے بارے میں جان کر رشک آتاہے کہ کوئی ناول مقبولیت کی ایسی بلندی کو بھی چھو سکتا ہے۔ اس بات میں ناشرین کے لیے بھی پیغام ہے کہ اگر کسی کتاب کو ڈھنگ سے چھاپا جائے ،تو وہ ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ معاشی فائدے کا باعث بھی ہوسکتی ہے۔شاہد حمید کے اس ناول''تکبر اورتعصب ''کی نئی اشاعت کے لیے لکھے گئے پر مغز دیباچے کو پڑھنے کے بعد میں قارئین کو یہ مشورہ دینا چاہوں گاکہ اگر آپ کو جین آسٹن کا یہ ناول پسند ہے، تو ایک بار اس دیباچے کو ضرور پڑھیں،کیونکہ یہ صرف ایک دیباچہ نہیں بلکہ ''جین آسٹن نامہ ''ہے اورایک ایسی تحقیق بھی،جو ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح کوئی کتاب کلاسیک کا درجہ حاصل کرتی ہے۔
اس ناول کی پشت پر ناشر کی طرف سے اس ناول کے بارے میں ایک اقتباس لکھا ہوا ہے،جو کہانی کی بُنت کو سمجھارہاہے۔ ''اپنے اس ناول میں جین آسٹن نے جس ماحول کی تصویر کشی کی ہے وہ قصباتی ہے جہاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ایسی زندگیاں گزار رہے ہیں جو ٹھیراؤ اورطمانیت سے عبارت ہیں۔نہ جنگوں اورسماجی انتشار کا کوئی ذکر ہے نہ آفتوں کا گزر ہے۔بس کورٹ شپ اورشادی کے لیے کسی ڈھنگ کے ساتھی کی تلاش ان کی آرزوؤں کی انتہا اور زندگی کاخاص مقصد ہے۔اس بظاہر پُر سکون مگر طرح طرح کی چھوٹی موٹی الجھنوں ،خوشیوں اورغموں سے دوچار ماحول کا جین آسٹن نے ،حقیقت پسندی کا سہارا لے کر ،ایسی کمال ہنرمندی سے عکس اتارا ہے کہ آج پڑھنے والوں کو اپنی ہی داستان معلوم ہوتاہے۔انداز کی شائستگی اورقربت کے اس احساس میں ناول کی بے پناہ مقبولیت کا راز پنہاں ہے۔''
شاہد حمید نے مزید جن تراجم میں اپنی ادب شناسی کا ہنر جگایا، اس میں عالمی ادب کے دو عظیم اورضخیم روسی ناولوں، ٹالسٹائی کے ''جنگ اور امن''اوردوستوفسکی کے ''کرامازوف برادران''شامل ہیں۔اسی طرح فلسفے کے تناظر میں ناروے کے جوسٹین گارڈر کا''سوفی کی دنیا''بھی ایک بہترین ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی برس پہلے جاپان کے جدید افسانہ نگاروں کی کہانیوں کا بھی ترجمہ کیا تھا۔ایڈورڈ سعید کی ایک اہم تصنیف ''مسئلہ فلسطین''کو بھی اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ابھی ان کی معرکہ آرا''انگریزی اردولغت''زیرطبع ہے۔ شاہد حمید نے بے حد متحرک زندگی گزاری اوریہی وجہ ہے کہ آج بھی کام کرنے کی بھرپور توانائی ان کی طبیعت کاخاصا ہے،اس لیے امید ہے کہ آنے والے وقت میں کچھ مزید اعلیٰ تراجم پڑھنے کو مل سکیں گے۔
ان کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے،تو یہ سمجھ آجاتاہے کہ وہ زبان کے رسیا اورعالمی ادب پر دسترس رکھنے والی شخصیت کیسے بنے۔یہ 1928میں جالندھر کے ایک گاؤں ''پرجیاں کلاں''میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ننگل انبیا میں حاصل کی۔ 1947 میں فسادات کے دوران میں پاکستان ہجرت کی۔ لاہور آکر پہلے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیااورگورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کی سند حاصل کی اورپھر انگریزی تدریس سے وابستہ ہوگئے ۔
80کی دہائی کے آخر میں ریٹائر ہوئے۔اس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ دنیا کا بہترین ادب اردوزبان میں متعارف کروایا جائے۔جیساکہ میں نے پہلے کہا،غیر معیاری ترجمہ کرنے والوں کے ہجوم کا شمار کرنا ممکن نہیں ، ایسی بھیڑ چال میں شاہد حمید کے تراجم اردو زبان کی وسعت کو بیانیہ ہیں اور عالمی ادب کے روح شناس مترجم ہیں۔ظ انصاری اورشان الحق حقی کی طرح شاہد حمید اردو زبان کے محسنوں میں سے ایک ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہے ۔
اسی ماحول میں ایک مترجم نے دنیا کے بہترین ناول اردوزبان میں منتقل کیے،مگر جس مقام کے وہ حق دار تھے،انھیں وہ دیا نہیں گیا۔ایسی فضا میں اس طرح کا معیاری کام کرنے والے اعلیٰ ظرف تخلیق کار اکثرگوشہ نشین ہو جایا کرتے ہیں۔ میں بھی ایک ایسے ہی ایک گوشہ نشین کو جانتا ہوں، جنہوں نے اردوزبان کو نہ صرف عالمی ادب کے عظیم ناولوں سے مالا مال کیابلکہ ترجمے کا ایک معیار قائم کیا،جس کی کسوٹی پر یہ پرکھا جا سکتا ہے کہ اچھا ترجمہ کیاہوتا ہے۔اس درویش صفت اورذہین مترجم کا نام''شاہد حمید''ہے۔
میں انھیں صرف ایک مترجم ہی نہیں بلکہ تخلیق کاربھی مانتاہوں۔انھوں نے صرف حروف کا ترجمہ نہیں کیا،بلکہ ناولوں میں موجود منظر سے پس منظر تک کے حالات وواقعات، کیفیات اورمحسوسات کو بھی منتقل کیا ہے۔کسی بھی اعلیٰ ترجمے کی یہ سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔شاہد حمید کی مادری زبان پنجابی ہے۔اردو زبان سے محبت کی اور انگریزی زبان کی فہم وفراست کوحاصل کیا۔ان تینوں زبانوں کے امتزاج کے بعد ان کے قلم سے جس نثر نے جنم لیا،وہ روح میں اترجانیوالی ہے۔یہی وجہ ہے، اردوزبان کے قارئین نے جین آسٹن،دوستوفسکی اورٹالسٹائی جیسے شاندار ناول نگاروں کو زبان کی مکمل صحت اورخیال کی گہرائی کے ساتھ پڑھا ہے۔
میںیہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتاہوں ،ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت اپنی پوری زندگی میں اتنا ادب نہیں پڑھتی ہوگی جتناعالمی ادب انھوں نے اردو زبان میںترجمہ کر دیاہے۔یہ بلاشبہ اردو ترجمہ نگاری کے محسن ہیں،مگر مجھے ذاتی طورپر ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کو پاکستانی ادبی منظر نامے میں فراموش کیاگیا۔ادبی میلے سجانے کا ایک نیا رجحان ہمارے ہاں پیدا ہوا ہے،کتنی عجیب بات ہے ،ادب تو ایک دنیا ہوتی ہے،مگر عصر حاضر کے مصنوعی دانشوروں اورتخلیق کاروں نے اسے میلوں ٹھیلوں تک محدود کردیا ہے۔
ان میلوں میں تراجم کے موضوع پر بھی کئی سیشن منعقد کیے گئے،مگر ہمارا یہ درویش مترجم کہیں دکھائی نہ دیا۔شاہدحمید کے کیے ہوئے ترجموں کا چربہ کرکے کئی ناشروں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔اب اس کے بعد اورکہنے کو کیا رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ناقدری کی یہ روایت خاصی پرانی ہے۔ دیر آئے درست آئے کے مانند، اب یہ ایک ایسے ناشر کے ہمراہ ہو گئے ہیں جس کے ہاں اپنے تخلیق کاروں کی قدر بھی ہے اور اشاعت کا معیار بھی،اس ادارے کانام''ریڈنگز''ہے،جو لاہور میں واقع ہے۔اس کا ایک اشاعتی ادارہ''القا پبلیکیشنز'' بھی ہے،جو اردو کتابیں شایع کرتا ہے۔ اس ادارے کی خوبی یہ ہے، یہ لوگ صرف ادب چھاپتے ہی نہیں ادب پڑھتے اورادب کرتے بھی ہیں۔
گزشتہ دنوں اسی ادارے نے برطانوی ناول نگارجین آسٹن کے ناول کا اردو ترجمہ (تکبر اورتعصب۔Pride and Prejudice)شایع کیا،یہ ناول شاہد حمید کی ترجمے پر دسترس رکھنے کی باکمال صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جین آسٹن کو انگریزی ادب میں شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔اس کا یہ ناول ''تکبر اور تعصب'' 2 سو سال پہلے لکھا گیا تھا۔آج دنیا بھر کی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اس ناول کے تراجم کے حوالے سے جن زبانوں کا ذکر آتا ہے،اس میں اردوب ھی شامل ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر کاپی رائٹس کا خیال رکھا جائے اورکسی کتاب کے بخیے ادھیڑنے کی بجائے اس کو پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ ترجمہ کیاجائے،تو اس کی بازگشت دور تک سنی جا سکتی ہے۔
جین آسٹن کے اس ناول ''تکبر اورتعصب ''کی نئی اشاعت کی خاص بات اس کا لکھاہوا دیباچہ ہے،جس میں شاہد حمید نے عالمی ادب کے تناظر میں اس ناول کے لیے جس پذیرائی کا ذکر کیاہے،اس کے بارے میں جان کر رشک آتاہے کہ کوئی ناول مقبولیت کی ایسی بلندی کو بھی چھو سکتا ہے۔ اس بات میں ناشرین کے لیے بھی پیغام ہے کہ اگر کسی کتاب کو ڈھنگ سے چھاپا جائے ،تو وہ ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ معاشی فائدے کا باعث بھی ہوسکتی ہے۔شاہد حمید کے اس ناول''تکبر اورتعصب ''کی نئی اشاعت کے لیے لکھے گئے پر مغز دیباچے کو پڑھنے کے بعد میں قارئین کو یہ مشورہ دینا چاہوں گاکہ اگر آپ کو جین آسٹن کا یہ ناول پسند ہے، تو ایک بار اس دیباچے کو ضرور پڑھیں،کیونکہ یہ صرف ایک دیباچہ نہیں بلکہ ''جین آسٹن نامہ ''ہے اورایک ایسی تحقیق بھی،جو ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح کوئی کتاب کلاسیک کا درجہ حاصل کرتی ہے۔
اس ناول کی پشت پر ناشر کی طرف سے اس ناول کے بارے میں ایک اقتباس لکھا ہوا ہے،جو کہانی کی بُنت کو سمجھارہاہے۔ ''اپنے اس ناول میں جین آسٹن نے جس ماحول کی تصویر کشی کی ہے وہ قصباتی ہے جہاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ایسی زندگیاں گزار رہے ہیں جو ٹھیراؤ اورطمانیت سے عبارت ہیں۔نہ جنگوں اورسماجی انتشار کا کوئی ذکر ہے نہ آفتوں کا گزر ہے۔بس کورٹ شپ اورشادی کے لیے کسی ڈھنگ کے ساتھی کی تلاش ان کی آرزوؤں کی انتہا اور زندگی کاخاص مقصد ہے۔اس بظاہر پُر سکون مگر طرح طرح کی چھوٹی موٹی الجھنوں ،خوشیوں اورغموں سے دوچار ماحول کا جین آسٹن نے ،حقیقت پسندی کا سہارا لے کر ،ایسی کمال ہنرمندی سے عکس اتارا ہے کہ آج پڑھنے والوں کو اپنی ہی داستان معلوم ہوتاہے۔انداز کی شائستگی اورقربت کے اس احساس میں ناول کی بے پناہ مقبولیت کا راز پنہاں ہے۔''
شاہد حمید نے مزید جن تراجم میں اپنی ادب شناسی کا ہنر جگایا، اس میں عالمی ادب کے دو عظیم اورضخیم روسی ناولوں، ٹالسٹائی کے ''جنگ اور امن''اوردوستوفسکی کے ''کرامازوف برادران''شامل ہیں۔اسی طرح فلسفے کے تناظر میں ناروے کے جوسٹین گارڈر کا''سوفی کی دنیا''بھی ایک بہترین ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی برس پہلے جاپان کے جدید افسانہ نگاروں کی کہانیوں کا بھی ترجمہ کیا تھا۔ایڈورڈ سعید کی ایک اہم تصنیف ''مسئلہ فلسطین''کو بھی اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ابھی ان کی معرکہ آرا''انگریزی اردولغت''زیرطبع ہے۔ شاہد حمید نے بے حد متحرک زندگی گزاری اوریہی وجہ ہے کہ آج بھی کام کرنے کی بھرپور توانائی ان کی طبیعت کاخاصا ہے،اس لیے امید ہے کہ آنے والے وقت میں کچھ مزید اعلیٰ تراجم پڑھنے کو مل سکیں گے۔
ان کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے،تو یہ سمجھ آجاتاہے کہ وہ زبان کے رسیا اورعالمی ادب پر دسترس رکھنے والی شخصیت کیسے بنے۔یہ 1928میں جالندھر کے ایک گاؤں ''پرجیاں کلاں''میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ننگل انبیا میں حاصل کی۔ 1947 میں فسادات کے دوران میں پاکستان ہجرت کی۔ لاہور آکر پہلے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیااورگورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کی سند حاصل کی اورپھر انگریزی تدریس سے وابستہ ہوگئے ۔
80کی دہائی کے آخر میں ریٹائر ہوئے۔اس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ دنیا کا بہترین ادب اردوزبان میں متعارف کروایا جائے۔جیساکہ میں نے پہلے کہا،غیر معیاری ترجمہ کرنے والوں کے ہجوم کا شمار کرنا ممکن نہیں ، ایسی بھیڑ چال میں شاہد حمید کے تراجم اردو زبان کی وسعت کو بیانیہ ہیں اور عالمی ادب کے روح شناس مترجم ہیں۔ظ انصاری اورشان الحق حقی کی طرح شاہد حمید اردو زبان کے محسنوں میں سے ایک ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہے ۔