تالے ہیں لبوں پر
پاکستان میں صحافیوں، میڈیا کے اداروں، انفرادی درجہ بندی اور بلاگز کو انٹرنیشنل روایات کے مطابق آزادانہ ۔۔۔
معمول کے مطابق دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آزادی صحافت کا دن زور شور سے منایا گیا۔
پاکستان بھر کی نمایندہ صحافتی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز اور مختلف تقاریب میں آزادی صحافت کی اہمیت، افادیت اور صحافتی ذمے داریوں پر روشنی ڈالی گئی۔ 1993 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 3 مئی کو ہر سال ''پریس فریڈم ڈے یعنی آزادی صحافت کا دن'' منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں آزادی صحافت کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنا اور اس عزم کا اعادہ کرنا ہے کہ آزادی صحافت کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔
اس سال ''ورلڈ پریس فریڈم ڈے'' کے موقع پریورپی یونین نے پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے لیے بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا: ''ملک میں ایسا ماحول قائم کیا جائے جہاں میڈیا آزادانہ اور موثر طورپر بلا خوف و خطر اپنا کام کرسکے، کیونکہ یہ آزادی اظہار کا اہم جزو ہے، جس کی صراحت شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کے آرٹیکل 19 میں کی گئی ہے، جس کا پاکستان بھی ایک فریق ہے۔'' پاکستان میں متعین برطانوی ہائی کمشنر فلپ مارٹن نے بھی اسی حوالے سے کہا:'' اظہار رائے آزادی ایک مضبوط جمہوریت کی بنیاد ہے، آزاد اور موثر میڈیا طویل مدت کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی استحکام کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں، میڈیا کے اداروں، انفرادی درجہ بندی اور بلاگز کو انٹرنیشنل روایات کے مطابق آزادانہ اور حفاظت کے ساتھ لکھنے اور بولنے کی اجازت ہونی چاہیے۔'' وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے بھی اپنے پیغام میں کہا: ''پریس کی آزادی کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پریس جمہوریت کا لازمی و ضروری عنصر ہے۔ ہماری حکومت پریس کی آزادی کو برقرار رکھنے پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ صحافی برادری کی پاکستان میں پریس کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد قابل ستائش ہے۔'' ان کے علاوہ بھی اکثر قومی و بین الاقوامی رہنماؤں نے ''ورلڈ پریس فریڈم ڈے'' کے موقعے پرآزادی صحافت کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔
پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اگرکوچۂ صحافت کے راہی جان ہتھیلی پر رکھ کر حقائق کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں بہت سی مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافت یوں تو متاع حیات کو ہتھیلی پر لے کر چلنے کا نام ہے لیکن اگر حالات سازگار نہ ہوں اوراس متاع حیات کے قدم قدم پر لٹنے کے خطرات موجود ہوں تو ان حالات میں صحافت کا چراغ جلائے رکھنا کوہکن کے جوئے شیر لانے سے بھی کہیں زیادہ خطرناک اور مشکل ہے، آفریں تو پاکستان کے ان صحافیوں پر ہے جو کوچہ قاتل میں بھی شاہانہ انداز میں نقد جاں لے کرچلنے اور اپنے خون سے شمع مقتل کی لوکو تیز کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
پاکستان جس قسم کی اندرونی وبیرونی سازشوں کا شکار ہے اور جس نوعیت کی مسلط کی گئی جنگوں میں الجھا ہوا ہے، وہ نہ تو کسی تعمیری کاز کے لیے سازگار ہیں اور نہ ہی صحافتی فرائض کی ادائیگی کے لیے معاون، لیکن اس کے باوجود صحافیوں کا طبقہ اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں تن من دھن سے مصروف اور ہر رکاوٹ کو عبور کرتا ہوا رواں دواں ہے۔ پاکستان میں برسرپیکار صحافیوں کے لیے یہ کہنا کہ وہ تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں غلط نہ ہوگا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہی تلوار کی دھار پر چلتے رہے ہیں۔ اب تو وہ شعلہ بداماں اور پا بہ جولاں ہو کر اس خارزارِ رزم گاہ کی بادیہ پیمائی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں صحافی برادری کی مشکلات کا اندازہ اس حقیقت سے کر لیجیے کہ1992سے لے کر 2014 تک صر ف پاکستان میں 78 صحافی و میڈیا ورکرز اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے جان کی بازی ہار چکے ہیں اور صرف گزشتہ 6سال میں 34 صحافیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ قتل کی دھمکیاں تو بہت سوں کو ملتی رہی ہیں۔ پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے 20 خطرناک ممالک میں سے چھٹے نمبر پر ہے اور سال 2000ء کے بعد تو یہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہونے لگا ہے۔
2002، 2005 اور 2013 میں پاکستان چوتھے نمبر پر صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک رہا، جب کہ 2007 اور 2012 میں تیسرے نمبر پر، 2008 میں دوسرے نمبر پر، جب کہ 2010 اور 2011 میں پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ترین ملک رہا۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق پاکستان اب بھی صحافیوں کے لیے بدستور ایک خطرناک ملک ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیم ''ایمنسٹی انٹرنیشنل'' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صحافی تشدد، قتل اور ہراساں کیے جانے جیسے خطرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور بڑی حد تک گھیرے میں ہیں۔
اسی بنا پر پاکستان کے صحافتی حلقے کھلم کھلا یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تشدد اور دباؤ کے نتیجے میں رپورٹنگ کے درست معیارات پر کافی حد تک سمجھوتہ کیا جا چکا ہے، جس کے نتیجے میں اکثریت تک حقائق پہنچنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکمران اس تشدد کو روک نہیں سکتے یا پھر روکنا نہیں چاہتے۔ پیشہ ور صحافیوں کے لیے کام کرنے کے حالات صرف بہت مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں قانون کی گرفت سے آزاد قاتلوں کے رحم و کرم پر پاکستانی صحافیوں کی زندگی اب کئی قسم کے خطرات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔
ہر دور میں ذمے دار صحافیوں نے مشکل ترین حالات میں بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر حقائق عوام تک پہنچاتے ہوئے اپنے فرائض کو نبھانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت اور سچ بات کسی کو کتنی ہی کڑوی لگے، انھوں نے صحافت کے اصولوں کے مطابق وہ کڑوی بات بھی برملا کہی ہے۔ اگر کوئی صحافی حق بات کرے یا حقیقت کو بے نقاب کرنا چاہے تو وہ یقیناً کسی نہ کسی کو تو کڑوی محسوس ہوتی ہی ہے، جس کا خمیازہ بھی صحافی برادری کو قتل، حملے اور دھمکیوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام میڈیا کو اپنے مسائل کے حل کے لیے اہم ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ ذمے دار صحافی معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں اور بدعنوانیوں کی درست انداز میں نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں ،بلکہ مسائل کا حل اور تجاویز بھی پیش کرتے ہیں، اس ضمن میں عوامی رائے کو بھی برابر اہمیت دی جانے لگی ہے،اسی لیے سنجیدہ ٹاک شوز اور تجزیوں میں مسلسل عوام کی دلچسپی بڑھ رہی ہے، جس سے ہر شہری میں سیاسی شعور پیدا ہوا ہے۔
حکومتی عہدوں پر فائز بعض کرپٹ اعلیٰ شخصیات، ملک میں پھیلے ہوئے جرائم پیشہ افراد اور ملک دشمن عناصر کے ''سیاہ کارنامے'' تواتر کے ساتھ عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں جو معاشرے میں مثبت اقدام کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہونے والے چہروں کے لیے ناقابل برداشت بھی ہے، بلاشبہ قلم کی چبھن اور زبان کی نوک تلوار کی دھار سے زیادہ کاٹ رکھتی ہے،جو ان چہروں کو یقیناً بے چین کیے دیتی ہے اور پھر یہی لوگ اپنی بدنمائی ظاہر ہونے پر مختلف حیلوں سے آزادی صحافت کی دھجیاں اڑانا چاہتے ہیں، جسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے ؎
پہرے ہیں خیالات پہ تالے ہیں لبوں پر
کہنے کو میرے پاؤں میں زنجیر نہیں ہے