میڈیا کا ضابطہ اخلاق

عمومی طور پر میڈیا کے ضابطہ اخلاق کو جانچنے، پرکھنے اور نگرانی کے عمل کی ذمے داری دو طرفہ ہوتی ہے۔۔۔


سلمان عابد May 13, 2014
[email protected]

پاکستان میں میڈیا کے ایک ادارے کے حالیہ تنازعہ میں بہت سے اہل دانش مختلف انداز میں اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کررہے ہیں ۔ بہت سے اہل دانش اس لڑائی کو '' میڈیا کی آزادی یا اظہار رائے کی آزادی کے تناظر میں دیکھ کر اپنا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔لیکن اس ساری لڑائی میں اس بحث کو بہت کم لوگوں نے اٹھایا ہے کہ پاکستانی میڈیا کا ضابطہ اخلاق کیا ہے ،اگر اس میں عملدرآمد کے مسائل ہیں تو اس کی اصل وجوہات کیا ہیں ۔

یقینا کوئی بھی چیز یا ادارہ مادرپدر آزاد نہیں ہوتا۔ جو بھی کوئی اپنے کام کو آگے بڑھاتا ہے تو اسے ایک خاص جمہوری ، قانونی اور اخلاقی دائرہ کار میں رہ کر اپنا کام کرنا پڑتا ہے ۔ اس سارے عمل میں اہم پہلو نگرانی اور خود احتسابی یا احتسابی نظام کا ہوتا ہے، جو اداروں کو ان کی حدود و قیودکے درمیان رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔

عمومی طور پر پاکستانی میڈیا کے تناظر میں دو بڑے مسائل توجہ طلب ہیں ۔ اول وہ فکری بنیادوں پر رائے عامہ کی تشکیل اس انداز سے کرتا ہے کہ اس کا اثر مجموعی طور پر معاشرے کے جمہوری مزاج اور اداروں پر جوابدہی کے انداز میں پنپ سکے۔ دوئم جہاں میڈیا دوسروں کے مسائل پر آواز اٹھاتا ہے ، وہیں اسے اپنے اندر بھی جمہوری قدروں اور اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی پاسداری بھی کرنا ہوتی ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میڈیا کی آزادی ایک اہم معاملہ ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کی جدوجہد سے بھی کوئی انکاری نہیں ۔ بالخصوص ایسے کئی دائیں اور بائیں بازو کے صحافی اور ان کی تنظیمیں ہیں جنھوں نے ملک میں جمہوری استحکام، منصفانہ معاشرہ، قانون کی حکمرانی اور صحافتی آزادی کی دیدہ دلیری سے جنگ لڑی ہے ، اس جنگ میں انھیں کئی طرح کی ریاستی ، حکومتی دباؤ اور تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔لیکن پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں جب الیکٹرانک میڈیا کا ٖپھیلاؤ ہوا، تو ہمیں کئی طرح کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے ۔

ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا ابھی سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہے ، ابتدائی طور پر جو غلطیاں ہو رہی ہیں اسے آگے جاکر بہتری کے عمل میں تبدیل بھی ہونا ہے ۔یہ دلیل ایک حد تک جائز ہے ۔ لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے یہاں الیکٹرانک میڈیا میں زیادہ تر وہ لوگ بالادست ہیں جو اول پرنٹ میڈیا سے وابستہ مالکان ہیں ، دوئم پرنٹ میڈیا سے ہی وابستہ وہ بڑے صحافی ہیں جو اب الیکٹرانک میڈیا میں بڑا نام رکھتے ہیں ۔اس لیے مسئلہ صرف کم تجربہ کاری کا نہیں ، بلکہ میڈیا کے اپنے اداروں کے اندر نگرانی اور خود احتسابی کے کمزور نظام کا بھی ہے ۔سوال یہ ہے کہ جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ قوانین ہیں یا وہ ضابطہ اخلاق جو خود میڈیا سے وابستہ اداروں اور ان کی تنظیموں نے بنائے ہوئے ہیں ، ان پر عملدرآمد کون کرے گا۔یعنی اصل مسئلہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا ہے ۔

عمومی طور پر میڈیا کے ضابطہ اخلاق کو جانچنے، پرکھنے اور نگرانی کے عمل کی ذمے داری دو طرفہ ہوتی ہے ۔ ایک عمل ریاست یا حکومتی اداروں سے وابستہ میڈیا کے اداروں کا ہوتا ہے ۔ دوسرا عمل خود میڈیا سے وابستہ ادارے اپنا نگرانی اور احتساب کا نظام خود وضع کرتے ہیں ۔ میڈیا میں ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ جو کافی حد تک درست بھی ہے ، کہ ریاست یا حکومتی ادار ے میڈیا کے ضابطہ اخلاق کے نام پر '' میڈیا پر دباؤ ڈال کر '' ان کی آزادی اظہار کو سلب کرتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس طرز کے حکومتی طرز عمل سے بچنے کے لیے میڈیا سے وابستہ اداروں کو اپنا نظام خود وضع کرنا چاہیے ، تاکہ یہ تاثر نہ ہو کہ حکومت اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے اداروں پر دباؤ ڈال کر اپنا ایجنڈا مسلط کرتی ہے ۔حکومت کے مقابلے میں یہ رجحان یا تصور بھی خطرناک ہے کہ میڈیا کے ادارے اور صحافی خود بھی احتسابی عمل میں آنے کے لیے تیار نہیں ۔اس لیے اصلاح و احوال کا پہلو دونوں طرف موجود ہے ۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میڈیا میں سب فرشتے نہیں ہیں ۔ ان سے بھی غلطیاں شعوری یا لاشعوری طور پر سرزد ہوتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ان غلطیوں کی بنیاد محض فرد یا افراد ہوتے ہیں یا یہ غلطیاں اداروں کی سرپرستی میں کی جاتی ہیں ۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ زیادہ خرابیاں '' میڈیا ریٹنگ '' کے نام پر سامنے آرہی ہیں ۔ اسی طرح میڈیا کے درمیان مقابلہ بازی کے منفی رجحان کی وجہ سے بھی ہم ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے نام پر خود بھی خرابیاں پیدا کر رہے ہیں ۔حالیہ تناؤ میں اہم توجہ طلب پہلو قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملات اور اداروں کے بارے میں '' بے احتیاطی '' کا بھی ہے۔ ایک زمانے میں وہ لوگ ان معاملات پر گفتگو یا لکھتے تھے جو اس کی اہمیت ، حساسیت اور ذمے داری کے عمل کو سمجھتے تھے ۔ لیکن اب ایسے لوگ بھی بالادست ہوگئے ہیں جن کی معلومات کم اور ناقص ہوتی ہیں اور سیکیورٹی سمیت خارجہ امور پر ان کی کوئی دسترس نہیں ہوتی ۔

ساری خرابی کی وجہ'' ایڈیٹر انسٹی ٹیوشن '' کی کمزوری کا ہے ۔ا س کو طاقت اور اختیار دے کر ہی ہم میڈیا میں موجود نگرانی کے عمل کو مضبوط بنا سکتے ہیں ۔ایک بڑا مسئلہ '' قومی مفادات اور خود مختاری اور سلامتی '' کا ہے ۔ یہ بحث عمومی طور پر سننے کو ملتی ہے کہ اس کا تعین کون کرے گا، یقینا یہ عمل حکومت نے ہی کرنا ہوتا ہے اور اس میں ریاستی اداروں کی مشاورت بھی شامل ہوتی ہے ۔ میڈیا میں کوئی فرد یا ادارہ تن تنہا خود سامنے آکر اس کا تعین کرے گا تو اس سے دیگر اداروں اور قومی سطح پر انتشار نمایاں ہوگا، جس سے گریز کیا جانا چاہیے۔

حکومت یا ریاستی اداروں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی شفافیت کا نظام اپنے اندر نہیں رکھتیں ۔ اس کی خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ میڈیا کو '' بطور ہتھیار '' اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت نے بھی اپنی سطح پر میڈیا کی نگرانی کے اداروں کو مضبوط بنانے کی بجائے کمزور رکھا ہوا ہے ۔ اس لیے سارا قصور صرف میڈیا کی تنظیموں یا اداروں کا ہی نہیں بلکہ خود حکومت بھی بہت سے معاملات کی خرابی میں ذمے دار ہے ۔ڈاکٹر جاوید جبار کی سربراہی میں جو میڈیا کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی اس پر بھی حکومت اور میڈیا دونوں کی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ۔میڈیا سے وابستہ ادارے اے پی این ایس ، سی پی این اے، ایڈیٹر کونسل،صحافتی تنظیمیں ، الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ایسوسی ایشن سب کو اپنے اپنے کردار کا بالخصوص حساس معاملات پر نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں