کم سن بچوں کی شادی
پیر 28اپریل 2014کو سندھ اسمبلی نے متفقہ قانون سازی کے حوالے سے یہ تاریخی اور اہم سنگ میل عبور کیا ۔۔۔
کم سن بچوں کی شادی پاکستان اور بالخصوص صوبہ سندھ میں تیزی سے پھیلتا ہوا سماجی مرض ہے۔ کم سنی کی شادی نہ صرف یہ کہ بچوں کے حقوق کے لیے موجود قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ طبی اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے بھی ایک ناپسندیدہ اور نامناسب عمل ہے۔ کم سنی اور کم عمری کی شادیوں کے باعث وہ بچے جو ابھی خود کم عمر ہوتے اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ان کی گود میں نوزائیدہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمے داریاں لاد دی جاتی ہیں۔
چنانچہ کمی سنی کی شادیاں خاندان کے مسائل اور کنبے کی غربت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارا ملک جہاں ایک اندازے کے مطابق آبادی کا نصف حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2012-13کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے ۔ 2فیصد شرح پیدائش کے ساتھ جس کی موجودہ آبادی تقریبا 18کروڑ 35لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اس آبادی کا48 فیصد بچوں پر مشتمل ہے آبادی میں اسی شرح سے اضافہ ہوتا رہا تواندازہ لگایا گیا ہے کہ 2050 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہوگا ۔ ہم ایک ایسے وطن کے باسی ہیں جہاں غربت اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ مسائل نہایت زیادہ اور تکلیف دہ ہیں۔
لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات ، پینے کا صاف پانی، خوراک، علاج اور دوائیں ، سر چھپانے کے لیے پختہ چھت ، اسپتال اور اسکول تک مناسب طور پر میسر نہیں۔ اسکول جانے کی عمر کے بچوں کی بڑی تعداد پرائمری تعلیم حتیٰ کہ اسکول میں داخلے سے بھی محروم رہ جاتی ہے ایسی صورتحال میں کم سن بچوں کی شادیاں والدین ' بچوں اور معاشرے کے مسائل اور آبادی میں مزید اضافے کا ہی سبب بنتی ہیں۔ معاشرے میں فرسودہ روایات ، ونی، سوارا اور بدلہ وغیرہ میں بچیوں کو تنازعات کے تصفئے میں بطور معاوضہ یا بطور ہرجانہ پیش کردیا جاتا ہے ۔
اسی طرح ضعیف مردوں کی نہایت کم سن بچیوں کے ساتھ کسی معاہدے کے تحت یا جبری نکاح کی خبریں بھی آئے دن سننے میں آتی ہیں۔ قوم کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ حق تلفی اور نا انصافی کے ایسے ماحول کے خاتمے کے لیے بچوں کی لازمی پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے کھیل کود اور صحت کے مناسب اور موافق مواقعے کی فراہمی کسی بھی عوام دوست حکومت کا اولین مقصد ہوتا ہے کیونکہ بچے ہی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں ان کو پڑھا لکھا کر اور خوراک و صحت کے بہتر مواقعے فراہم کرکے مستقبل کے لیے تندرست اور مضبوط افراد تیار کرنے چاہئیں نہ کہ ان کو بیگار، مزدوری، بھیک یا جبری شادیوں کے بندھنوں میں کس کر باندھ دیا جائے۔
حکومت سندھ نے کم سن بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے جہاں بیشتر دیگر اقدامات کیے ہیں وہیں کم سن بچوں کی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی میں بھی دیگر تمام صوبائی حکومتوں پر سبقت حاصل کی ہے اور 1929ء کے بعد یعنی 85 سال بعد بچوں کی شادی کو روکنے کے قانون میں سماج دوست تبدیلیوں کے ذریعے اس قانون کو کمسن دوست (Child Friendly) قانون کی شکل دے دی ہے ۔
کم سنی کی شادیوں کو روکنے کے قانون 2013کی منظوری کے لیے سندھ اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل)، پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جس طرح متفقہ طور پر اس قانون کو منظور کرانے میں آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے وہ جمہوریت ، جمہوری رویوں اور جمہوری معاشرے کے استقرار اور استحکام کی ایک واضح علامت ہے۔
پیر 28اپریل 2014کو سندھ اسمبلی نے متفقہ قانون سازی کے حوالے سے یہ تاریخی اور اہم سنگ میل عبور کیا اور سندھ اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ارکان سے بھرے ہوئے ہال نے کم سن بچوں کی شادی روکنے کے قانون کو بھرپور حمایت اور اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ مذکورہ قانونی بل راقم الحروف نے سرکاری بل کی حیثیت سے پیش کیا اس سے قبل ستمبر 2013میں یہ بل ایک پرائیویٹ بل کے طور پر وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے ثقافت محترمہ شرمیلا فاروقی نے پیش کیا تھا۔ 28اپریل 2014 کو سندھ اسمبلی میں اس بل کی محرک سندھ کی ترقی نسواں اور خصوصی تعلیم کی وزیر محترمہ روبینہ قائم خانی تھیں۔
کم سنی کی شادی کو روکنے کے بل 2013کی سندھ اسمبلی میں منظوری سے قبل اس بل کی مختلف شقوں پر سیر حاصل اور تفصیلی غور و خوض اور اس کی بہتری اور متفقہ تشکیل کے لیے سندھ اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کی نمایندگی کی حامل اراکین سندھ اسمبلی کی اسپیشل کمیٹی قائم کی گئی ۔اس کمیٹی کی ایک قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ اس میں سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے نمایندہ خواتین ارکان شامل کی گئی تھیں جنہوں نے اس بل کی حتمی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا۔ کمیٹی کی مدد اور معاونت جہاں ترقی نسواں ، قانون، سماجی بہبود، اور سندھ اسمبلی کے محکمہ جاتی سیکریٹریز نے کی وہیںکمیٹی کو قانونی اور سماجی شعبوں سے وابستہ ماہرین ، عورت فاؤنڈیشن' ھینڈز و دیگرغیر سرکاری انجمنوں اور سندھ ہائیکورٹ کی ریٹائرڈ جسٹس محترمہ ماجدہ رضوی صاحبہ نے بھی اپنے مفید مشوروں ، آراء اور تجاویز سے نوازا۔
کم سن بچوں کی شادی روکنے کے بل کی سندھ اسمبلی سے متفقہ طور پر منظوری کے بعد اب یہ بل قانون کی صورت اختیار کر گیا ہے اور اپنی منظوری کے ساتھ ہی یہ قانون سندھ بھر میں فوری طور پر نافذ العمل ہو چکا ہے۔ اس قانون کی رو سے 18سال سے کم عمر ہر شخص خواہ مرد ہو یا عورت کم سن بچے (Child)کی تعریف کے زمرے میں دیکھا جائے گا۔ اور کم سنی یا کم سن بچوں کی شادی (Child Marriage)سے مراد ایسی شادی ہے جس میں دلہا یا دلہن کی عمر 18سال سے کم ہو کم سنی کی شادی کو روکنے کے قانون 2013کے تحت ایسی شادی اب ناقابل ضمانت اور قابل سزا جرم ہے۔ جس کی پاداش میں تین سال قید بامشقت بشمول جرمانے کی سزا جوکہ کسی صورت دو سال قید با مشقت سے کم نہیں ہوگی دی جا سکے گی۔ اس قانون کے تحت فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کم سنی کی شادی کے مقدمات کو سننے اور ان پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
کم سن بچوں کی شادی کے قانون کی منظوری کے بعد اٹھارہ سال سے زائد عمر کا کوئی مرد اگر کم سن بچی سے شادی کرے گا تو گویا وہ اب اس قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا اور اس قانون کے مطابق سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ مزید برآں کوئی بھی والدین ، سر پرست یا دیگر کوئی بھی رشتے دار یا کوئی اور شخص جو کم سن بچوں کی شادی کروانے یا اس شادی میں کسی طور پر معاونت یا مدد کرنے یا ایسی شادی کو رکوانے کی کوشش سے غفلت کا مرتکب پایا گیا تو ایسے شخص کو بھی اس قانون کے تحت تین سال تک قید با مشقت کی سزا جو کم ا ز کم دو سال قید با مشقت سے کم نہیں ہوگی سنائی جا سکے گی۔ کم سنی کی شادی کے جرم کو قابل دخل اندازی ء قانون(Cognizable) اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے ۔ مجاز عدالت اس مقدمے کا فیصلہ ٹرائل شروع کرنے کے 90 یوم کے اندر سنا دے گی ۔
تمام اراکین سندھ اسمبلی نے مذکورہ قانون کو عورتوں اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک تاریخی اقدام اور اہم پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ اراکین سندھ اسمبلی کی مجموعی دانش کے تحت تیار کردہ اس قانون کی منظوری سے ملک کے دیگر صوبوں کو بھی عورتوں اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے میں تقویت اور مدد ملے گی اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی مہذب اقوام کے سامنے پاکستان کا ایک جدید ' ترقی پسند اور روشن خیال ملک و قوم کی حیثیت سے چہرہ نمایاں ہوگا ۔
(مضمون نگار وزیر برائے پارلیمانی امور، ماحولیات وساحلی ترقی سندھ ہیں)