جی 20 ممالک عالمی منظر نامہ اور پاکستان

چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ عالمی منظرنامے میں تبدیلیوں کے باوجود چین پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا

چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ عالمی منظرنامے میں تبدیلیوں کے باوجود چین پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ فوٹو: ای ٹی

بھارت میں جاری دو روزہ جی20 سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے والے کثیر الملکی ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے کا اعلان کر دیا۔

اس معاہدے سے خطے کے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو زیادہ فائدہ پہنچے گا اور عالمی تجارت میں مشرق وسطیٰ کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ معاہدے کے لیے مفاہمتی یاد داشت پر یورپی یونین، بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا اور دیگر جی20 شراکت داروں نے دستخط کیے۔

جی 20 بیس بڑی اقتصادی طاقتوں کا گروپ ہے جس میں 19 ممالک اور 20 واں رکن یورپی یونین ہے۔ بھارت کے پاس اس گروپ کی صدارت ہے، اب یہ صدارت برازیل کو منتقل ہوگئی ہے۔ بھارت کی معیشت کا حجم 3736 بلین ڈالر ہے جب کہ ہماری صرف 376 بلین ڈالر ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری آواز مزید مضبوط ہو تو خود کو معاشی طور پر بہتر کرنا ہوگا۔

حالیہ جی 20 اجلاس اپنے اہداف کے اعتبارخاصا اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے پر دستخط کرنا بہت اہم پیش رفت ہے۔

یہ معاہدہ ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جوبائیڈن جی20 گروپ میں ترقی پذیر ممالک کے لیے امریکا کو متبادل پارٹنر اور سرمایہ کار کے طور پر پیش کرتے ہوئے عالمی منظر نامے پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سربراہی اجلاس کو اس سال اضافی اہمیت حاصل ہوئی ہے کیونکہ بہت سے ممالک کووڈ کی وباء سے نکل کر بحالی کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔

گزشتہ ماہ جنوبی افریقہ میں ابھرتی معیشتوں کے پانچ ملکی اتحاد برکس کے سربراہی اجلاس میں صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات ہوئی تھی لیکن جی ٹونٹی اجلاس میں آخری وقت پر صدر شی جن پنگ جی20 اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی نہیں گئے۔

اُن کی جگہ وزیراعظم لی کیانگ نے چینی وفد کی قیادت کی جب کہ روسی صدر پوتن نے بھی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی اور روس کی نمایندگی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی قیادت میں وفد نے کی۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس نے رہنماؤں کو خبردار کیا ہے کہ ان کے آپسی جھگڑوں سے کشمکش بڑھے گی اور عوام کے اعتماد میں کمی آئے گی۔

جی 20 گو دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کی نمایندگی کرتا ہے لیکن عالمی تجزیہ نگار اسے جی 2 قرار دیتے ہیں۔ یعنی امریکا اور چین، دنیا کے دو بڑے، جو ایک حقیقت ہے۔ چین دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے، ایک ایسی معیشت جس نے اشتراکیت کی کوکھ سے جنم لیا اور اب عالمی سرمایہ داری نظام میں مقابلے کا پارٹنر ہے۔ چین کا بڑھتا ہوا عالمی سرمایہ داری کردار ہی اس کے عالمی اسٹرٹیجک کردار کو جنم دے رہا ہے۔

جی20 میں امریکا، روس، چین، انڈیا، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ جی20 ایشیائی معاشی بحران کے بعد 1999 میں قائم کیا گیا تھا۔

ابتدائی سالوں میں اس کے اجلاس میں رکن ممالک کے وزرا خزانہ اور سینٹرل بینکوں کے گورنر شریک ہوتے تھے لیکن 2007 کے عالمی معاشی بحران کے بعد اسے سربراہی اجلاس میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

اس گروپ کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی معیشت کا 85 فی صد جی ڈی پی اور 75 فی صد عالمی تجارت انھیں ملکوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمایندگی کرتے ہیں۔

ویسے تو اس گروپ کا مقصد معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں اور مسائل پر غور کرنا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دیر پا ترقی، صحت، زراعت، توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور انسداد بدعنوانی جیسے معاملات بھی شامل ہوتے گئے۔ توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور انسداد بدعنوانی جیسے معاملات بھی شامل ہوتے گئے۔ اجلاس میں جو بھی فیصلے ہوتے ہیں ان پر رکن ممالک عموماً عمل کرتے ہیں لیکن وہ قانونی طور پر اس کے پابند نہیں ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جی ٹونٹی ممالک میں ہم اپنی جگہ کیوں نہ بنا پائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب یہ فورم1999 میں وجود میں آیا، تو اس وقت پاکستان دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل نہ تھا، ہم ابھی تک یہ مقام حاصل نہیں کرپائے، اس کا سبب سب پر عیاں ہے۔


پاکستان، خطے کے علاوہ مسلم ممالک میں بھی اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے اور ایک ایسا ملک جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے، جو پاک چین راہداری سے خطے میں گیم چینجر بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔

ایک طاقتور وار مشینری اور ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک اور اس ریاست کے خلیجی اور دیگر ریاستوں کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات اور دیگر لاتعداد وجوہات ہیں جو ریاست پاکستان کے بارے میں یہ امید پیدا کرتے ہیں کہ اگر معیشت پر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو جی ٹوئنٹی میں شمولیت کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے۔

بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ عالمی تجارتی منڈی کا وہ بھی ایک بڑا اسٹیک ہولڈر ہے، وہ بھی ایشیاء کی اقتصادی اور فوجی قوت ہے۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جو اس وقت نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور پراپرٹی کے اہم شعبے میں بحران سمیت صارفین کی کم طلب سے نمٹ رہا ہے۔ دراصل بھارت عملاً پاک چائنا راہداری سے بھی خوف زدہ ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ عالمی منظرنامے میں تبدیلیوں کے باوجود چین پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ سی پیک منصوبے کا پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کو بحال کرنے میں اہم کردار ہے۔

چین اور پاکستان نے اب تک سی پیک سے باہمی ترقی کے بیشمار اہداف حاصل کیے ہیں، یہ منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دوستی کی واضح سند ہے۔چین نے سعودی عرب اور ایران کو ایک میز پر بٹھا دیا، ان کے درمیان تعلقات بحال کروا دیے۔ دنیا معاشی مفادات کے تابع ہے، عالمی تعلقات میں جذبات سے زیادہ معاشی معاملات دیکھتے جاتے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نے آسٹریلیا کا دورہ کیا اور وہاں بڑے تجارتی معاہدے کیے۔ جب میڈیا نے بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال اٹھایا تو آسٹریلوی وزیراعظم نے کہا کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔

بدقسمتی سے ہماری ترجیحات مختلف ہیں، ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ارجنٹینا کی معیشت تباہ ہوگئی، وہ ڈیفالٹ کر گیا مگر دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر جی 20 کا رکن بن گیا۔

عالمی سیاست و معیشت بچوں کا کھیل نہیں، جنگ، امن اور سیکیورٹی کے معاملات جذبات یا دوستی سے نہیں بلکہ معیشت، ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فورسز سے حل ہوتے ہیں۔

ہمیں خود کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، ہمیں خود کو ٹھیک کرنا ہوگا، ملک میں سیاسی استحکام لانا ہوگا، اس سے ہی معاشی استحکام آئے گا۔ جی20 ممالک کے پاس دنیا کی 85 فیصد صنعتی پیداوار ہے۔

لہٰذا یہ وہ ممالک ہیں جو دنیا کے مالی معاملات اور صنعت کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دنیا میں علاقائی سطح پر گروپنگ ہو رہی ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے علاقائی ممالک کے ساتھ الائنس کو فروغ دینا ہے۔

چین اور بھارت تمام تر اختلاف کے باوجود باہمی تجارت میں اضافہ کررہے ہیں ، امریکا اور مغربی یورپ چین کا گھیراؤ کررہے ہیں لیکن ان کے درمیان تجارت جاری ہے۔

ہمیں چین و دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کو تیز کرنا ہوگا۔ یہ خوش آیند ہے کہ پاکستان اب آئی ایم ایف کے متبادل کی طرف جا رہا ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، بہتر پالیسیاں بنا کر ان کا تسلسل یقینی بنایا جائے اور ملک کو سیاسی، معاشی و دیگر حوالے سے استحکام دیا جائے۔

ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط کرکے جی 20 کا رکن بننا ہوگا۔ اس کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے، اس کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔

پاکستان کے اقتدار پر قابض وہ طبقہ جس کا خمیر جنرل ایوب خان کے اقتدار پر قبضے سے اٹھا ' اس طبقے نے سرد جنگ کے فوائد سمیٹے اور مقتدر بن گئے' اس طبقے کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا ' ملک دو لخت کرانے کے باوجود ایوب خان کی باقیات نے سبق نہیں سیکھا اور مسلسل پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کیا۔

ایوب خان کی یہ باقیات ضیاء الحق کے ساتھ شامل ہوئی' یہ دولت مند اشرافیہ خود تو مغربی تہذیب اپنائے ہوئے ہے لیکن ملک کو مذہبی انتہا پسندی کے شکنجے میں جکڑنے میں پیش پیش رہی۔اب ان کی یہ سوچ اور ان کا اقتدار پاکستان کو آگے لے کر نہیں چل سکتا۔
Load Next Story