المیہ
پاکستان کی حکمران اور کاروباری اشرافیہ کا ایک بااثر حصہ پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات سے کھیل رہا ہے
آج کل بجلی کے بلز ہر گھر مسلہ بن چکاہے۔ بجلی کی چوری تو منگلہ ڈیم کے آپریشنل ہوتے ہی شروع ہوگئی تھی ، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی ، شہری اور دیہی اشرافیہ تو بجلی چوری کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔
یہ حقیقت بھی عیاں ہوچکی ہے کہ سب سے زیادہ بجلی چوری خیبر پختونخوا کے اضلاع میں ہوتی ہے۔ بلوچستان، دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کی قبائلی بیلٹ میں بجلی چوری کی شرح بھی خاصی بلند ہے، اس کے بعد کراچی، لاہور اور دیگر شہر اور دیہات آتے ہیں ۔
حال ہی میں بجلی کے نگران وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ پورے پاکستان میں تقریباً 600ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے، بجلی چوری میں عوام سے لے کر بڑے بڑے لوگ شامل ہیں ۔
حال ہی میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے ، واپڈا اور ڈسکوز کے افسروں اور ملازمین پر الزام ہے کہ یہ لوگ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں، لیکن اپنی آمدنی مزید بڑھانے کے لیے بجلی چوروں کے سہولت کار بن کر اپنے اداروں کو بھی مالی بحران میں مبتلا کررہے ہیں اور قومی خزانے کو بھی اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
پاکستان کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے گر گئی ہے یعنی 12کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جو آبادی خط غربت سے ذرا اوپر ہے ان کا حال بھی کم بُرا نہیں۔ اگر ان لوگوں کو بیس بیس ہزار روپے بجلی کے بل آجائیں تو خودکشیوں کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے ۔ملک انارکی کے دھانے پر ہے، لاوا بس پھٹنے ہی والا ہے۔ حالات بد سے بدتر ہوتے نظر آرہے ہیں جس کا آغاز اس سال نومبر دسمبر سے ہوجائے گا۔ جب گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوگا تو وہ دوسرے گھروں میں گھس کر لوٹ مار ہی کریں گے ۔
امریکی جریدے بلو م برگ کے مطابق پاکستان سے یومیہ پچاس لاکھ ڈالر افغانستان اسمگل ہو رہا ہے۔ لفظ یومیہ پر غور فرمائیں ! یہ مہینے میں کتنا بنتا ہے اور سال میں کتنا بنتا ہے۔ خود ہی حساب لگالیں صرف اس مد میں ہی کم از کم بیس ارب ڈالر بنتے ہیں ۔
یعنی افغانستان کی معیشت کو ہم پال رہے ہیں ۔ صرف ڈالر ہی اسمگل نہیں ہورہا بلکہ پاکستان سے آٹا ، چینی ، چاول ، گوشت ، ادویات ٹیکسٹائل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ صرف آٹا اور چینی ہزاروں ٹن یومیہ کے حساب سے افغانستان اسمگل ہو رہی ہے، نتیجے میں چینی کے ریٹ پاکستان میں 225روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
جب کہ ہم ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ افغانستان کو ڈالر کی اس غیر قانونی ترسیل کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کا ریٹ آسمان پر ہے اور روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے اور پاکستانی عوام تباہ وبرباد ہو رہے ہیں۔ اس وقت ملک کی 80فیصد تجارت غیر قانونی طریقے سے ہورہی ہے۔ جس نے پاکستانی معیشت کو دیوالیہ دیا ہے۔
ریاست کنگال ہے۔ پاکستانی معیشت بلیک اکانومی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ پاکستان کے شمال مغرب میں دو ایسے ملک ہیں، جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔یہ ملک پاکستان کے طاقتور لوگوں کو استعمال کرکے غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی حکمران اور کاروباری اشرافیہ کا ایک بااثر حصہ پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات سے کھیل رہا ہے۔ یہ گروہ ریاستی پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر پاکستان کے ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے اور پاکستان کی قیمت پر افغانستان پر قابض طالبان حکومت کو پال رہا ہے۔
یہی طاقت ور گروہ پاکستانی عوام میں امریکا، یورپی یونین اور آئی ایم ایف کے خلاف پراپیگنڈا کرتا چلا آرہا ہے اور اب اس مشن پر گامزن ہے ۔اس حکمت عملی کا مقصد پاکستانی عوام کو حقائق سے دور رکھنا ہے ۔
آئی ایم ایف لعن طعن کرنا اس لیے درست نہیں ہے کہ وہ تو مدتوں سے پاکستان کے پالیسی سازوں کو ان کی منفی معاشی پالیسیوں کے نتائج سے آگاہ کرتا چلا آرہا ہے۔اب بھی وہ یہی کہہ رہا ہے کہ اپنے معاشی حالات درست کریں، سرکاری اخراجات کم کریں، شمال مغربی سرحدوں پر جاری غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کو بند کریں لیکن ہم سے یہ کام ہو نہیں پا رہا ۔
آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے امیر طبقات صنعتکاروں، سرمایہ داروں، بڑے تاجروں ، وڈیروں ، جاگیرداروں ، قبائلی سرداروں، اوقاف اور متروکہ املاک پر قابض طاقتور طبقے پر ٹیکس لگاؤ اور یہ رقم تعلیم، صحت اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر خرچ کرو ۔
لیکن جہاں پوری قوم ٹیکس چور بن جائے، بالادست طبقہ اپنے ملک کی معیشت کی قیمت پر دنیا کے لیے ناقابل قبول حکومتوں کو بچانا اپنی ترجیح قرار دے تو پھر تباہی وبرباد ی کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے !
یہ حقیقت بھی عیاں ہوچکی ہے کہ سب سے زیادہ بجلی چوری خیبر پختونخوا کے اضلاع میں ہوتی ہے۔ بلوچستان، دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کی قبائلی بیلٹ میں بجلی چوری کی شرح بھی خاصی بلند ہے، اس کے بعد کراچی، لاہور اور دیگر شہر اور دیہات آتے ہیں ۔
حال ہی میں بجلی کے نگران وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ پورے پاکستان میں تقریباً 600ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے، بجلی چوری میں عوام سے لے کر بڑے بڑے لوگ شامل ہیں ۔
حال ہی میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے ، واپڈا اور ڈسکوز کے افسروں اور ملازمین پر الزام ہے کہ یہ لوگ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں، لیکن اپنی آمدنی مزید بڑھانے کے لیے بجلی چوروں کے سہولت کار بن کر اپنے اداروں کو بھی مالی بحران میں مبتلا کررہے ہیں اور قومی خزانے کو بھی اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
پاکستان کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے گر گئی ہے یعنی 12کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جو آبادی خط غربت سے ذرا اوپر ہے ان کا حال بھی کم بُرا نہیں۔ اگر ان لوگوں کو بیس بیس ہزار روپے بجلی کے بل آجائیں تو خودکشیوں کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے ۔ملک انارکی کے دھانے پر ہے، لاوا بس پھٹنے ہی والا ہے۔ حالات بد سے بدتر ہوتے نظر آرہے ہیں جس کا آغاز اس سال نومبر دسمبر سے ہوجائے گا۔ جب گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوگا تو وہ دوسرے گھروں میں گھس کر لوٹ مار ہی کریں گے ۔
امریکی جریدے بلو م برگ کے مطابق پاکستان سے یومیہ پچاس لاکھ ڈالر افغانستان اسمگل ہو رہا ہے۔ لفظ یومیہ پر غور فرمائیں ! یہ مہینے میں کتنا بنتا ہے اور سال میں کتنا بنتا ہے۔ خود ہی حساب لگالیں صرف اس مد میں ہی کم از کم بیس ارب ڈالر بنتے ہیں ۔
یعنی افغانستان کی معیشت کو ہم پال رہے ہیں ۔ صرف ڈالر ہی اسمگل نہیں ہورہا بلکہ پاکستان سے آٹا ، چینی ، چاول ، گوشت ، ادویات ٹیکسٹائل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ صرف آٹا اور چینی ہزاروں ٹن یومیہ کے حساب سے افغانستان اسمگل ہو رہی ہے، نتیجے میں چینی کے ریٹ پاکستان میں 225روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
جب کہ ہم ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ افغانستان کو ڈالر کی اس غیر قانونی ترسیل کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کا ریٹ آسمان پر ہے اور روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے اور پاکستانی عوام تباہ وبرباد ہو رہے ہیں۔ اس وقت ملک کی 80فیصد تجارت غیر قانونی طریقے سے ہورہی ہے۔ جس نے پاکستانی معیشت کو دیوالیہ دیا ہے۔
ریاست کنگال ہے۔ پاکستانی معیشت بلیک اکانومی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ پاکستان کے شمال مغرب میں دو ایسے ملک ہیں، جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔یہ ملک پاکستان کے طاقتور لوگوں کو استعمال کرکے غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی حکمران اور کاروباری اشرافیہ کا ایک بااثر حصہ پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات سے کھیل رہا ہے۔ یہ گروہ ریاستی پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر پاکستان کے ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے اور پاکستان کی قیمت پر افغانستان پر قابض طالبان حکومت کو پال رہا ہے۔
یہی طاقت ور گروہ پاکستانی عوام میں امریکا، یورپی یونین اور آئی ایم ایف کے خلاف پراپیگنڈا کرتا چلا آرہا ہے اور اب اس مشن پر گامزن ہے ۔اس حکمت عملی کا مقصد پاکستانی عوام کو حقائق سے دور رکھنا ہے ۔
آئی ایم ایف لعن طعن کرنا اس لیے درست نہیں ہے کہ وہ تو مدتوں سے پاکستان کے پالیسی سازوں کو ان کی منفی معاشی پالیسیوں کے نتائج سے آگاہ کرتا چلا آرہا ہے۔اب بھی وہ یہی کہہ رہا ہے کہ اپنے معاشی حالات درست کریں، سرکاری اخراجات کم کریں، شمال مغربی سرحدوں پر جاری غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کو بند کریں لیکن ہم سے یہ کام ہو نہیں پا رہا ۔
آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے امیر طبقات صنعتکاروں، سرمایہ داروں، بڑے تاجروں ، وڈیروں ، جاگیرداروں ، قبائلی سرداروں، اوقاف اور متروکہ املاک پر قابض طاقتور طبقے پر ٹیکس لگاؤ اور یہ رقم تعلیم، صحت اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر خرچ کرو ۔
لیکن جہاں پوری قوم ٹیکس چور بن جائے، بالادست طبقہ اپنے ملک کی معیشت کی قیمت پر دنیا کے لیے ناقابل قبول حکومتوں کو بچانا اپنی ترجیح قرار دے تو پھر تباہی وبرباد ی کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے !