شوگر مافیا اور نگراں حکومت

نگراں حکومت اپنے اصل مینڈیٹ سے تجاوز کرنے لگی ہے تو پھر وہ اس کے خلاف یقینا کمربستہ ہوجائیں گی

mnoorani08@hotmail.com

شوگر مافیا ہمارے ملک میں اتنی مضبوط اور بااختیار ہے کہ ہماری ہر حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہ جب چاہتی ہے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کر کے چینی کے دام بڑھا لیتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف ایک مطلق العنان طاقتور حکمراں تصور کیے جاتے تھے۔ اُن کے پاس اپنے ہر حکم کو منوانے اور اس پر عمل کروانے کے تمام اختیارات موجود تھے، وہ جیسے چاہتے اورجس طرح چاہتے اپنا ہر حکم نہ صرف صادر فرما دیتے تھے بلکہ اس پر بزور طاقت عمل درآمد بھی کروا لیتے تھے۔

مگر ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اتنا طاقتور حکمراں بھی اپنے دور میں شوگر مافیا کے سامنے بے بس اور مجبور ہوگیا تھا۔ ہم اسی سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے یہاں شوگر کا کاروبار کرنے والا کتنا مضبوط اور طاقتور گروہ ہے۔

مشرف دور میں 22 روپے فی کلو ملنے والی چینی اچانک مارکیٹ سے غائب ہوگئی اور اس کی تھوڑی بہت مقدار بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں 40 روپے فی کلو گرام مل رہی تھی۔

اس زمانے میں ہمارے ایک ٹی وی ایکٹر، رائٹر اور مزاحیہ اسکرپٹ رائٹر انور مقصود نے اپنے طور پر کوششیں کر کے اس چینی کوکچھ سستے داموں یعنی 27 روپے فی کلو گرام عوام کو دینے کا انتظام کروایا تھا، لیکن اُن کی یہ کوششیں کچھ دنوں بعد ا دم توڑ گئیں اور عوام مجبوراً زائد قیمتوں پر خریدنا پڑا۔ ہر دور میں چینی کے دام اپنی مرضی کے مطابق بڑھوا لیے جاتے ہیں۔

PTI کے دور حکومت میں ایک بار پھر 53 روپے فی کلو ملنے والی چینی اچانک مارکیٹ سے غائب ہوگئی۔ اس بار ایک نیا حربہ استعمال کیا گیاکہ پہلے حکومت کو چینی کا وافر اسٹاک بتا کر اسے ایکسپورٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا اور پھر جعلی قلت پیدا کر کے اس کے دام بڑھوا لیے۔ اس زمانے میں 53روپے والی چینی یک دم ایک سو روپے تک جا پہنچی تھی بلکہ کچھ دنوں تک یہ 150روپے فی کلو گرام بھی مل رہی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکسپورٹ کرنے کے بہانے مل اونرز نے اسٹیٹ بینک سے برآمد کی جانے والی چینی پر اچھی خاصی سبسڈی بھی حاصل کر لی۔

اسی طرح PDM کے سولہ ماہ کے دور حکومت میں ایک بار پھر وہی حربہ استعمال کر کے حکومت کو فارن ایکس چینج کمانے کا نادر مشورہ دیا گیا جسے اس وقت کی حکومت نے تسلیم کرتے ہوئے 2.5 لاکھ میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیدی اور پھر وہی ہوا، جس کا ڈر تھا یعنی برآمد کرنے کے بعد ملک میں چینی کی مصنوعی قلت ظاہر کر کے اسے مہنگے داموں فروخت کیا جانے لگا۔

شوگر ملز اونرزکا تعلق اس اشرافیہ سے ہے جن کا اثرو رسوخ اسلام آباد کے ایوانوں سے جا ملتا ہے۔ یہ اپنا اثر اورطاقت استعمال کرکے بینکوں سے لون لے کر پہلے چینی کے کارخانے لگاتے ہیں اور پھر پہلی فرصت میں یہ لون واگذار اور معاف بھی کروا لیتے ہیں۔ بعد ازاں اپنی مرضی سے جب چاہیں یہ چینی کے دام بڑھا بھی دیتے ہیں۔


پہلے مصنوعی قلت، پھر ایکسپورٹ اور پھر ڈالروں میں اس کی امپورٹ۔ یہ گھناؤنا کھیل مسلسل جاری ہے اور کوئی بھی حکمراں اسے لگام نہیں دے پاتا۔ امپورٹ ہونے والی چینی کیونکہ کچھ مہنگی ہوتی ہے جسے جواز بنا کر اپنے یہاں کی چینی کے دام بھی اس کے برابر کر دیے جاتے ہیں۔ چند ہزار میٹرک ٹن امپورٹ کرنے کے بعد اپنے یہاں پیدا ہونے والی قلت بھی خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔

موجود ہ نگراں حکومت جو ایک مختصر عرصہ کے لیے لائی گئی ہے اور جسے سوائے الیکشن کروانے کے کوئی اورکام اصولاً نہیں کرنا ہے لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ یہ عارضی غیر جمہوری حکومت آئین میں درج اختیارات سے تجاوز بھی کر رہی ہے اور جو کام ایک قانونی اور جمہوری حکومت بھی نہیں کرسکتی وہ سارے یہ حکومت کرنے جارہی ہے۔

بجلی کے بلوں پر ہونے والے عوامی احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کا اس نے یہ طریقہ نکالا ہے کہ اسے IMF کی مرضی اور اجازت سے جوڑ دیا ہے۔ اب اگر IMFاجازت دے گا تو حکومت عوام کو کچھ ریلیف دے سکے گی ورنہ عوام چاہے بھوکے مرجائیں لیکن بجلی کے بل تو ادا کرنا ہی ہونگے۔ مگر سوال یہاں یہ ضرور بنتا ہے کہ چلو بجلی کے دام IMF کی شرائط سے منسلک ہیں لیکن یہ چینی کے دام IMF نے کب بڑھانے کو کہا تھا۔

یہ کیوں بڑھائے گئے اور اسے کیوں واپس سو روپے فی کلو تک نہیں پہنچایا جا رہا ہے۔ یہی حال گندم اور آٹے کا بھی ہے ۔ IMF نے کبھی اس کے دام بڑھانے کو نہیں کہا، لیکن وہ ہے کہ مسلسل خاموشی کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ نگراں حکومت اس بارے میں اپنے آہنی ہاتھ اور اختیارات استعمال کرنے سے معلوم نہیں کیوں گریزاں ہے۔

وہ چاہے تو عوام کو اس مد میں کچھ نہ کچھ ریلیف دے سکتی ہے ، جس کے لیے اسے IMF کی اجازت بھی درکار نہ ہوگی۔ کہنے کو موجودہ عارضی حکومت نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنا لیے ہیں لیکن یہ سارے منصوبے چند مہینوں کے مختصر عرصے میں تو ہرگز مکمل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے یقینا ایک لمبا عرصہ درکار ہونا ہے۔

سمجھ نہیں آرہا، جن کاموں لیے اس کے پاس اختیار ہی نہیں ہے وہ تو ضرور کرنے جا رہی ہے لیکن جس اصل کام کا اسے مینڈیٹ حاصل ہے وہ اسے کروانے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی۔ اس کا یہی طرز حکومت اندیشے پیدا کر رہا ہے کہ وہ شاید مختصر عرصہ کے لیے نہیں بلکہ کسی اور مقصد سے لمبے عرصہ کے لیے لائی گئی ہے۔

سیاسی اور جمہوری قوتیں کچھ دنوں تک تو شاید خاموش رہیں گی لیکن جب وہ یہ دیکھیں گی کہ یہ نگراں حکومت اپنے اصل مینڈیٹ سے تجاوز کرنے لگی ہے تو پھر وہ اس کے خلاف یقینا کمربستہ ہوجائیں گی۔ ابھی اُن کی کچھ مجبوریاں اور مصلحتیں آڑے آرہی ہیں اور اُن کا اصل ہدف اور حریف نگراں حکومت نہیں بلکہ وہ سیاسی پارٹی ہے جسے ابھی تک عوامی حمایت اور پذیرائی حاصل ہے۔ جب یہ خطرہ مکمل طور پر ٹل جائے گا تو وہ پھر بھرپور طاقت کے ساتھ میدان عمل میں حملہ آور ہوں گی۔

نگراں حکومت نے اگر عوام کو فوری ریلیف نہ دیا اور مہنگائی کو کنٹرول نہ کیا تو عوام احتجاج ایک بھرپور تحریک کی شکل اختیار کرسکتا ہے، جس طرح بجلی کے بلوں پر احتجاج کے لیے انھیں کسی سیاسی لیڈر یا قیادت کی ضرورت نہ تھی اسی طرح آیندہ آنے والے دنوں میں اگر مہنگائی نے اُن کا جینا دوبھر کر دیا تو پھر عوام کے سیلاب کو کوئی بھی کنٹرول نہیں کر پائے گا۔

نگراں حکومت کو یہ بات یقینا مد نظر رکھنا ہوگی کہ عوام اسے صرف اسی صورت میں برداشت اور قبول کریں گے جب وہ انھیں مہنگائی کے عذاب سے باہر نکالے گی ورنہ وہ اسے مقررہ عرصہ سے زیادہ ایک دن بھی قبول کرنے کو تیار نہ ہونگے۔
Load Next Story