قائداعظم کا تصور پاکستان
ان کے افکار میں قومی بحرانوں کا حل موجود ہے
قائداعظم محمدعلی جناح کے تصورِ پاکستان کے بارے میں جب بھی اظہارِ خیال کا کوئی موقع آتا ہے تو فوراً ہی ندامت اور تأسف وحسرت کا ایک تاثر بھی ابھرتا ہے۔
اگر پاکستان اپنے بانی کے تصورات کا آئینہ دار ہوتا تو ان تصورات کا زبانی تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔ اس کے بہ جائے ہم اپنے ملک کے سیاسی احوال سے براہِ راست طورپر استنباط کرتے، اپنے گردوپیش پر نظر دوڑاتے اور بڑے فخر کے ساتھ کہتے کہ یہی بانیٔ پاکستان کے تصورات کی تصویر اور ان کی عملی تعبیر ہے۔
مگر دن رات قائداعظم کے نام کی مالا جپنے کے باوجود ان کے افکار اور خیالات اوران کے طرزِفکر و احساس سے ہماری قومی زندگی کو کوئی علاقہ نہیں۔ قائداعظم کی رحلت کے برسوں بعد تک ان کی بیش تر تقاریر اشاعت تک سے محروم رہیں۔
قائداعظم کے بعض بیانات اربابِ اختیار نے قوم کے سامنے نہیں آنے دیے۔ یہ بات اب ریکارڈ پر آچکی ہے کہ ان کی 11اگست 1947 کی فکرانگیز تقریر کو اس وقت کی افسرشاہی نے سنسر کرنے کی کوشش کی۔ اب بھی صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں بولی جانے والی بیش ترزبانوں میں قائداعظم کے خطبات ناپید ہیں۔
ماضی میں قائداعظم کی سوانح حیات کے صرف وہی پہلو منظرِعام پر آسکے جن کا منظرِعام پر آنا حکومتوں کو منظور تھا۔
حیاتِ قائداعظم کے وہ درخشاں پہلو جو ہماری ریاستی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتے تھے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تلف کردیے گئے یا انھیں دبیز پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا۔ بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف قائداعظم کے تصورات و افکار اور ان کے طرزِفکر کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے بلکہ جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔
جنھوں نے پہلے تو قائداعظم کے نظریات کی نت نئی تاویلیں پیش کیں اور پھر اپنے نسخہ ہائے کیمیا کو قائد اعظم کے تصورات بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔
یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوچکا ہے اور اس کے اثرات اتنے دور تک پہنچ چکے ہیں کہ اب دانشِ حاضر کی پہلی ذمے داری ہی یہ قرار پاتی ہے کہ فی الفور قائداعظم کے ان تصورات کا کھوج لگائیں جن پر امتدادِ زمانہ کی گرد اور تحریف پسندوں کی ضرب پڑ چکی ہے۔
قائداعظم کے تصورات کے تذکرے اور ان کی تشریح سے قبل دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قائداعظم بجا طورپر ایسے راہ نماؤں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے غیرمعمولی شخصی اوصاف، اپنی تاریخ فہمی اور تدبر کے حوالے سے اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئے اور حالات کا رخ موڑنے میںاہم کردار ادا کیا۔
ان کی کام یابی کا بڑا راز معروضی حالات کے ان کے فہم میں پوشیدہ تھا۔ قائداعظم کے تصورات کی اہمیت بھی اسی حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ تصورات ذاتی ہوتے ہوئے بھی روحِ عصر کے بہترین عکاس تھے۔
قائداعظم کے تصورات کی تفہیم کے ضمن میں دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مختلف امور کے حوالے سے ان کے طرزِعمل یا ان کے ردِعمل میں تبدیلیوں کے باوجود اہم ترین امور پر ان کے یہاں استقلالِ فکروعمل کی کارفرمائی کو دریافت کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ بعض لوگوں نے ہندو مسلم تعلقات، ہندوستان کے اتحاد یا ایسے ہی دیگر موضوعات کے حوالے سے قائداعظم کی جانب سے مختلف ادوار میں اختیار کردہ مؤقف میں تضاد کی نشان دہی کی ہے۔
یہ قائداعظم کی دلیل اور ان کے مدعا کے فرق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ قائداعظم کی حیثیت مسلمانوں کے مقدمے کے ایک مستعد اور صاحبِ نظر وکیل کی تھی۔ وہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہندوستانی سیاست میں وارد ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کے کاز کی بہترین عملی تعبیر کی تلاش کے کام کو اپنا مطمعٔ نظر بنایا۔
یہ دور ہندوستان کی سیاست میں ہمہ جہتی تبدیلیوں، سیاسی تحریکوں، آئینی اصلاحات اور تصادم و تعاون کے مختلف النوع رجحانات کا دور تھا۔ ہمہ وقت بدلتی سیاسی صورتِ حال کے علاوہ یہ بات بھی واضح تھی کہ ہندوستان کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔
ایسے میں مسلمانوں کے مقدمے کے وکیل کی حیثیت سے قائداعظم کے دلائل، ان کے الفاظ اور ان کی لغت میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ ظاہر بیں نظروں نے قائداعظم کی استعمال کردہ اصطلاحات اور ان کی ڈکشنری ہی کو ان کی منزل تصور کرلیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان کی سیاست میں تضاد دیکھنے پر مجبور ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی اصل منزل کیا تھی یا ان کا حقیقی مدعا کیا تھا۔ اس سوال کا جواب یوں بھی اہم ہے کہ اگر قائداعظم کے مقصد کو سمجھ لیا جائے تو ان کے نظریات و افکار کی گرہیں بھی کھلنے لگتی ہیں۔
بنیادی طورپر قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی انصاف اور ان کے سیاسی و جمہوری حقوق کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔
ابتدا میں انھوں نے یہ مقصد متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں حاصل کرنا چاہا اور جب انھیں متحدہ ہندوستان کے اندر اس مقصد کا حصول ممکن نہیں نظر آیا تو پھر اسی مقصد کے لیے انھوں نے علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کی۔ ایک علیحدہ مملکت کا تصور قائداعظم کے نزدیک دین کے بنیادی اراکین میں شامل نہیں تھا کہ جس پر زندگی کے ایک خاص مرحلے میں وہ ایمان لے آئے تھے بلکہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی اور سیاسی حقوق کے حصول کے دیگر مجوزہ راستوں کے بند ہو جانے کے بعد بچ جانے والا واحد اور ناگزیر راستہ تھا۔
ایک بار جب انھوں نے اس راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ان کے دلائل کا رخ بھی اسی جانب مڑ گیا۔ انھوں نے مسلم قومیت کو اپنے مطالبے کی اساس بنایا مگر ایسا کرتے وقت وہ ایک دلیل ہی کا سامان کر رہے تھے۔ مسلم قومیت ان کا ہدف نہیں بلکہ ان کے ہدف کے حصول کی سیاسی دلیل تھی۔
جہاں تک سماجی انصاف کے مسئلے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں قائداعظم کے خیالات میں اشکال کی ذرا سی بھی گنجائش موجود نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کی مختلف تعبیرات میں ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اس کی پشت پر مسلمان سرمایہ دار یا مسلم بورژوا طبقے کے مفادات کارفرما تھے۔
Hanna Papanek نے ایک تحقیقی مقالے میں بمبئی، گجرات اور کلکتہ کے مسلم بورژوا طبقے کے حقیقی عزائم پر سے پردہ اٹھایا ہے جس کا خیال تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہندوستان میں اپنے تجارتی و صنعتی مراکز بدستور قائم رکھے گا، جب کہ پاکستان تو تمام تر اس کے لیے فرشِ راہ ہوگا۔
قائداعظم مسلم سرمایہ داروں کو ساتھ لے کر چلنے پر مجبور تھے کہ مسلم لیگ کو فنڈز کی ضرورت تھی مگر وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ہوسِ زر سے بھی ناواقف نہیں تھے۔ چنانچہ 1943 ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں انھوں نے تنبیہ کردی تھی کہ:
''پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انھیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔
انھوں نے اسلام کے سبق بھلا دیے ہیں۔ حرص اور خودغرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں۔
میں گاؤں میں گیا ہوں' وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ ... اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔۔۔''
عدل عمرانی اور ایک عام مسلمان کی اقتصادی بہبود کے بارے میں قائداعظم کے یہ خیالات اپنی تشریح آپ ہیں۔ آج بھی یہ اتنے ہی برمحل ہیں جتنے اب سے نصف صدی قبل تھے۔
قائداعظم کی زندگی کے مشن میں جو دوسرا اہم ترین مقصد کارفرما تھا وہ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و جمہوری حقوق کی پاس داری تھی۔
ایک وسیع حلقے کے نزدیک قائداعظم کی جمہوریت پسندی ہی محلِ نظر ہے۔ مثلاً کانگریسی مصنّفین کی یہ عمومی رائے ہے کہ جناح جمہوریت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ اور جب ہندوستان کی آزادی کا مرحلہ آیا تو انھوں نے اس خیال کے پیشِ نظر کہ اب ہندو اکثریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار میں آجائے گی، مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کردیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1940 اور 1947 کے درمیان بظاہر خود قائداعظم نے غیر منقسم ہندوستان کے پس منظر میں جمہوریت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
قائداعظم کے اس دور کے موقف کی تشریح اور ان کے جمہوریت کے بارے میں مکمل طرزِ فکر کا جائزہ لینے سے پہلے ایک مرتبہ پھر اس بات کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ ایک خاص وقت میں دیے گئے جناح کے دلائل کو ان کا آخری مدعا تصور کرنا ایک زبردست خلط مبحث کو جنم دے سکتا ہے۔
(ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی)
اگر پاکستان اپنے بانی کے تصورات کا آئینہ دار ہوتا تو ان تصورات کا زبانی تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔ اس کے بہ جائے ہم اپنے ملک کے سیاسی احوال سے براہِ راست طورپر استنباط کرتے، اپنے گردوپیش پر نظر دوڑاتے اور بڑے فخر کے ساتھ کہتے کہ یہی بانیٔ پاکستان کے تصورات کی تصویر اور ان کی عملی تعبیر ہے۔
مگر دن رات قائداعظم کے نام کی مالا جپنے کے باوجود ان کے افکار اور خیالات اوران کے طرزِفکر و احساس سے ہماری قومی زندگی کو کوئی علاقہ نہیں۔ قائداعظم کی رحلت کے برسوں بعد تک ان کی بیش تر تقاریر اشاعت تک سے محروم رہیں۔
قائداعظم کے بعض بیانات اربابِ اختیار نے قوم کے سامنے نہیں آنے دیے۔ یہ بات اب ریکارڈ پر آچکی ہے کہ ان کی 11اگست 1947 کی فکرانگیز تقریر کو اس وقت کی افسرشاہی نے سنسر کرنے کی کوشش کی۔ اب بھی صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں بولی جانے والی بیش ترزبانوں میں قائداعظم کے خطبات ناپید ہیں۔
ماضی میں قائداعظم کی سوانح حیات کے صرف وہی پہلو منظرِعام پر آسکے جن کا منظرِعام پر آنا حکومتوں کو منظور تھا۔
حیاتِ قائداعظم کے وہ درخشاں پہلو جو ہماری ریاستی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتے تھے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تلف کردیے گئے یا انھیں دبیز پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا۔ بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف قائداعظم کے تصورات و افکار اور ان کے طرزِفکر کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے بلکہ جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔
جنھوں نے پہلے تو قائداعظم کے نظریات کی نت نئی تاویلیں پیش کیں اور پھر اپنے نسخہ ہائے کیمیا کو قائد اعظم کے تصورات بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔
یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوچکا ہے اور اس کے اثرات اتنے دور تک پہنچ چکے ہیں کہ اب دانشِ حاضر کی پہلی ذمے داری ہی یہ قرار پاتی ہے کہ فی الفور قائداعظم کے ان تصورات کا کھوج لگائیں جن پر امتدادِ زمانہ کی گرد اور تحریف پسندوں کی ضرب پڑ چکی ہے۔
قائداعظم کے تصورات کے تذکرے اور ان کی تشریح سے قبل دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قائداعظم بجا طورپر ایسے راہ نماؤں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے غیرمعمولی شخصی اوصاف، اپنی تاریخ فہمی اور تدبر کے حوالے سے اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئے اور حالات کا رخ موڑنے میںاہم کردار ادا کیا۔
ان کی کام یابی کا بڑا راز معروضی حالات کے ان کے فہم میں پوشیدہ تھا۔ قائداعظم کے تصورات کی اہمیت بھی اسی حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ تصورات ذاتی ہوتے ہوئے بھی روحِ عصر کے بہترین عکاس تھے۔
قائداعظم کے تصورات کی تفہیم کے ضمن میں دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مختلف امور کے حوالے سے ان کے طرزِعمل یا ان کے ردِعمل میں تبدیلیوں کے باوجود اہم ترین امور پر ان کے یہاں استقلالِ فکروعمل کی کارفرمائی کو دریافت کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ بعض لوگوں نے ہندو مسلم تعلقات، ہندوستان کے اتحاد یا ایسے ہی دیگر موضوعات کے حوالے سے قائداعظم کی جانب سے مختلف ادوار میں اختیار کردہ مؤقف میں تضاد کی نشان دہی کی ہے۔
یہ قائداعظم کی دلیل اور ان کے مدعا کے فرق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ قائداعظم کی حیثیت مسلمانوں کے مقدمے کے ایک مستعد اور صاحبِ نظر وکیل کی تھی۔ وہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہندوستانی سیاست میں وارد ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کے کاز کی بہترین عملی تعبیر کی تلاش کے کام کو اپنا مطمعٔ نظر بنایا۔
یہ دور ہندوستان کی سیاست میں ہمہ جہتی تبدیلیوں، سیاسی تحریکوں، آئینی اصلاحات اور تصادم و تعاون کے مختلف النوع رجحانات کا دور تھا۔ ہمہ وقت بدلتی سیاسی صورتِ حال کے علاوہ یہ بات بھی واضح تھی کہ ہندوستان کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔
ایسے میں مسلمانوں کے مقدمے کے وکیل کی حیثیت سے قائداعظم کے دلائل، ان کے الفاظ اور ان کی لغت میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ ظاہر بیں نظروں نے قائداعظم کی استعمال کردہ اصطلاحات اور ان کی ڈکشنری ہی کو ان کی منزل تصور کرلیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان کی سیاست میں تضاد دیکھنے پر مجبور ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی اصل منزل کیا تھی یا ان کا حقیقی مدعا کیا تھا۔ اس سوال کا جواب یوں بھی اہم ہے کہ اگر قائداعظم کے مقصد کو سمجھ لیا جائے تو ان کے نظریات و افکار کی گرہیں بھی کھلنے لگتی ہیں۔
بنیادی طورپر قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی انصاف اور ان کے سیاسی و جمہوری حقوق کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔
ابتدا میں انھوں نے یہ مقصد متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں حاصل کرنا چاہا اور جب انھیں متحدہ ہندوستان کے اندر اس مقصد کا حصول ممکن نہیں نظر آیا تو پھر اسی مقصد کے لیے انھوں نے علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کی۔ ایک علیحدہ مملکت کا تصور قائداعظم کے نزدیک دین کے بنیادی اراکین میں شامل نہیں تھا کہ جس پر زندگی کے ایک خاص مرحلے میں وہ ایمان لے آئے تھے بلکہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی اور سیاسی حقوق کے حصول کے دیگر مجوزہ راستوں کے بند ہو جانے کے بعد بچ جانے والا واحد اور ناگزیر راستہ تھا۔
ایک بار جب انھوں نے اس راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ان کے دلائل کا رخ بھی اسی جانب مڑ گیا۔ انھوں نے مسلم قومیت کو اپنے مطالبے کی اساس بنایا مگر ایسا کرتے وقت وہ ایک دلیل ہی کا سامان کر رہے تھے۔ مسلم قومیت ان کا ہدف نہیں بلکہ ان کے ہدف کے حصول کی سیاسی دلیل تھی۔
جہاں تک سماجی انصاف کے مسئلے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں قائداعظم کے خیالات میں اشکال کی ذرا سی بھی گنجائش موجود نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کی مختلف تعبیرات میں ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اس کی پشت پر مسلمان سرمایہ دار یا مسلم بورژوا طبقے کے مفادات کارفرما تھے۔
Hanna Papanek نے ایک تحقیقی مقالے میں بمبئی، گجرات اور کلکتہ کے مسلم بورژوا طبقے کے حقیقی عزائم پر سے پردہ اٹھایا ہے جس کا خیال تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہندوستان میں اپنے تجارتی و صنعتی مراکز بدستور قائم رکھے گا، جب کہ پاکستان تو تمام تر اس کے لیے فرشِ راہ ہوگا۔
قائداعظم مسلم سرمایہ داروں کو ساتھ لے کر چلنے پر مجبور تھے کہ مسلم لیگ کو فنڈز کی ضرورت تھی مگر وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ہوسِ زر سے بھی ناواقف نہیں تھے۔ چنانچہ 1943 ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں انھوں نے تنبیہ کردی تھی کہ:
''پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انھیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔
انھوں نے اسلام کے سبق بھلا دیے ہیں۔ حرص اور خودغرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں۔
میں گاؤں میں گیا ہوں' وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ ... اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔۔۔''
عدل عمرانی اور ایک عام مسلمان کی اقتصادی بہبود کے بارے میں قائداعظم کے یہ خیالات اپنی تشریح آپ ہیں۔ آج بھی یہ اتنے ہی برمحل ہیں جتنے اب سے نصف صدی قبل تھے۔
قائداعظم کی زندگی کے مشن میں جو دوسرا اہم ترین مقصد کارفرما تھا وہ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و جمہوری حقوق کی پاس داری تھی۔
ایک وسیع حلقے کے نزدیک قائداعظم کی جمہوریت پسندی ہی محلِ نظر ہے۔ مثلاً کانگریسی مصنّفین کی یہ عمومی رائے ہے کہ جناح جمہوریت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ اور جب ہندوستان کی آزادی کا مرحلہ آیا تو انھوں نے اس خیال کے پیشِ نظر کہ اب ہندو اکثریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار میں آجائے گی، مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کردیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1940 اور 1947 کے درمیان بظاہر خود قائداعظم نے غیر منقسم ہندوستان کے پس منظر میں جمہوریت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
قائداعظم کے اس دور کے موقف کی تشریح اور ان کے جمہوریت کے بارے میں مکمل طرزِ فکر کا جائزہ لینے سے پہلے ایک مرتبہ پھر اس بات کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ ایک خاص وقت میں دیے گئے جناح کے دلائل کو ان کا آخری مدعا تصور کرنا ایک زبردست خلط مبحث کو جنم دے سکتا ہے۔
(ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی)