آئی پی پیز معاہدوں کی شرائط توانائی بحران کی اصل وجہ
کمیشن ،کک بیکس حصول کیلیے کھلی نیلامی کے بجائے من پسند کمپنیوں کو ٹھیکے دیے گئے
بجلی بلوں کا مسئلہ بوجھ بنتا جارہا ہے، اگر صورتحال کو دانشمندی سے حل نہ کیا گیا تو یہ سماجی انتشار کو جنم دے سکتا ہے۔
مہنگے آئی پی پیز لگا کر مہنگی بجلی پیدوار کی ذمہ دار پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن دونوں ہی اپنے مفاد کیلیے احتجاج کر رہی ہیں، دراصل آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے طے کرتے وقت کی گئی بے قاعدگیاں اور ناہموار شرائط بحران کی اصل وجہ ہیں، جس کی وجہ سے توانائی سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.5 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
امریکی ڈالر میں ادائیگیوں کی شرط نے جہاں ایک طرف انٹرنیشنل کمپنیوں کو مدعو کیا، وہی دوسری طرف پاکستان کی معیشت کا بھرکس بنا دیا، ریٹرن آن ایکویٹی 17 فیصد رکھی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کے بلوں میں ریلیف کے معاملے پر پیر تک فیصلہ ہو جائے گا، نگراں وزیرتوانائی
مشرف دور میں کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے پیکر پلانٹس کا سلسلہ شروع ہوا، آئی پی پیز کے معاہدوں میں شفافیت نہیں برتی گئی، اپنے کمیشن اور کک بیکس کے حصول کیلیے معاہدوں کو خفیہ رکھا گیا، شرائط کو پبلک نہیں کیا گیا، کھلی نیلامی کے بجائے خفیہ طور پر اپنے من پسند افراد کو ٹھیکے دیے گئے۔
بہت سے آئی پی پیز کو 20 سے 30 سال کی طویل مدت کیلیے دیا گیا، حکومت کو قلیل المدتی معاہدوں کا طریقہ اپنانا چاہیے تھا۔
مہنگے آئی پی پیز لگا کر مہنگی بجلی پیدوار کی ذمہ دار پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن دونوں ہی اپنے مفاد کیلیے احتجاج کر رہی ہیں، دراصل آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے طے کرتے وقت کی گئی بے قاعدگیاں اور ناہموار شرائط بحران کی اصل وجہ ہیں، جس کی وجہ سے توانائی سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.5 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
امریکی ڈالر میں ادائیگیوں کی شرط نے جہاں ایک طرف انٹرنیشنل کمپنیوں کو مدعو کیا، وہی دوسری طرف پاکستان کی معیشت کا بھرکس بنا دیا، ریٹرن آن ایکویٹی 17 فیصد رکھی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کے بلوں میں ریلیف کے معاملے پر پیر تک فیصلہ ہو جائے گا، نگراں وزیرتوانائی
مشرف دور میں کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے پیکر پلانٹس کا سلسلہ شروع ہوا، آئی پی پیز کے معاہدوں میں شفافیت نہیں برتی گئی، اپنے کمیشن اور کک بیکس کے حصول کیلیے معاہدوں کو خفیہ رکھا گیا، شرائط کو پبلک نہیں کیا گیا، کھلی نیلامی کے بجائے خفیہ طور پر اپنے من پسند افراد کو ٹھیکے دیے گئے۔
بہت سے آئی پی پیز کو 20 سے 30 سال کی طویل مدت کیلیے دیا گیا، حکومت کو قلیل المدتی معاہدوں کا طریقہ اپنانا چاہیے تھا۔