پاکستان میں 35فیصد خواتین ڈاکٹرز ملازمت نہیں کرتیں سروے

حکومت ایک ڈاکٹر بنانے کیلئے 40لاکھ روپے کی سبسڈی دیتی ہے، یہ پیسہ ضائع ہورہا ہے

حکومت ایک ڈاکٹر بنانے کیلئے 40لاکھ روپے کی سبسڈی دیتی ہے، یہ پیسہ ضائع ہورہا ہے

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان میں طبی پروفیشنلز کی کمی کے باوجود خواتین ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد ملازمت نہیں کرتی حالانکہ وسائل سے محروم ملک میں حکومت پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں میڈیکل کی تعلیم پر اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کررہی ہے۔

گیلپ پاکستان اور پرائیڈ کی جانب سے مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 35فیصد خواتین میڈیکل ڈاکٹرز ملازمت نہیں کرتیں۔ لیبر فورس 2020-21 کی اپنی تحقیق کی بنیاد پر گیلپ پاکستان اور پرائیڈ نے پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے لیبر مارکیٹ اور خاص طور پر خواتین میڈیکل گریجویٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور اسے ملک کے پالیسی حلقوں کو فراہم کیا گیا ہے۔

ایک طرف پاکستان میں اس وقت قابل ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے جبکہ دوسری طرف 36ہزار سے زائد خواتین ڈاکٹرز یا تو بے روزگار ہیں یا وہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کررہی ہیں۔

گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی نے اس ضمن میں کہا کہ پاکستان میں تربیت یافتہ طبی ڈاکٹرز کی کمی ہے اور قابل خواتین ڈاکٹرز کا کام نہ کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ خدمات انجام نہ دینے والے ڈاکٹرز پر ہونے والے اخراجات سے ٹیکس دہندگان کے قیمتی پیسہ کے ضیاع اور ان ڈاکٹرز کی عدم موجودگی سے صحت کے نتائج پر مرتب ہونے والے نقصانات کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

سروے کے نتائج کے مطابق اس وقت پاکستان میں 104974 خواتین میڈیکل گریجویٹس موجود ہیں جن میں سے 68209 (65فیصد) مختلف نجی اور سرکاری اداروں میں طبی خدمات فراہم کررہی ہیں جبکہ 15619(14.9فیصد) خواتین ڈاکٹرز کام نہیں کررہی ہیں اور مجموعی تعداد کا 20.1فیصد 21146 خواتین ڈاکٹرز مکمل طورپر لیبر فورس سے باہر ہیں۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق 1947 میں اپنے قیام کے بعد سے پاکستان نے تقریباً 2لاکھ ڈاکٹرز پیدا کیے ہیں جن میں سے نصف خواتین ہیں۔

بیورو آف امیگریشن کے اعدادو شمار کے مطابق 1970سے اب تک تقریبا ً30ہزار ڈاکٹرز پاکستان چھوڑ چکے ہیں اور اوسطاً تقریباً ہر سال ایک ہزار ڈاکٹرز بیرون ملک جارہے ہیں۔

ان میں سے اکثر ڈاکٹرز نے پبلک یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی جہاں حکومت تعلیم پر سبسڈی دینے کیلئے اربوں روپے خرچ کررہی ہے۔ ایک اوسط پرائیویٹ یونیورسٹی میں میڈیکل کے طلبا ء سے 50لاکھ روپے سے زائد فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ حکومت 10لاکھ روپے سے بھی کم میں وہی تعلیم فراہم کرتی ہے۔

اس طرح ایک میڈیکل ڈاکٹر بنانے کیلئے حکومت کو کم از کم 40لاکھ روپے سے زائد کی سبسڈی دینا پڑرہی ہے۔

سروے کے نتائج کے مطابق ٹیکس دہندگان کا یہ پیسہ ضائع ہورہا ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے بھاری مالیت کی سبسڈی کے بعد ہر 3 میں سے ایک خاتون ڈاکٹر کام نہیں کررہی ہے۔


موجودہ مالیت کے مطابق تقریباً 50ہزار خواتین ڈاکٹرز پر ہونے والی کم از کم 200ارب روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے۔

ڈائریکٹر پالیسی ریسرچ پرائیڈ ڈاکٹر شاہد نعیم کے مطابق ہر 5 میں سے ایک میڈیکل گریجویٹ لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کرتا ہے اور لبیر فورس سے باہر خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے زیادہ ترشادی شدہ ہیں۔

ڈاکٹر شاہد نعیم نے کہا کہ حکومت قیمتی زرِمبادلہ بچانے کیلئے پبلک سیکٹر کے میڈیکل کالجز میں سیٹیں مختص کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔

انہوں نے کہاکہ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواتین میڈیکل گریجویٹس یا ڈاکٹرز کا لیبر فورس سے باہر رہنا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

سروے میں علاقائی بنیادوں پر ڈاکٹرز کے روزگار کے فرق کا بھی پتہ چلتا ہے۔پاکستان کے مجموعی گریجویٹس میں سے 72فیصد شہری اور 28فیصد ڈاکٹرز دیہی علاقوں میں مقیم ہیں۔ دیہی علاقوں میں نصف سے زائد 52فیصد میڈیکل گریجویٹس ملازم ہیں اور 31فیصد بے روزگار ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں 20فیصد کی قومی اوسط سے کم17فیصد میڈیکل گریجویٹس لیبر فورس سے باہر رہنے کوترجیح دیتے ہیں۔

شہری مراکز کے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 70فیصد میڈیکل گریجویٹس ملازم ہیں جبکہ 9فیصد سے بھی کم بے روزگار ہیں جبکہ شہری علاقوں میں لیبر فورس سے باہررہنے کا انتخاب کرنے والے میڈیکل گریجویٹس کا تناسب 21فیصد سے زیادہ ہے۔

اسی طرح شہری اور دیہی علاقوں کا موازنہ کیا جائے تو خواتین میڈیکل گریجویٹس کے لیے شہری علاقوں میں 78فیصد اور دیہی علاقوں میں صرف 22فیصد کیلئے روزگار کے مواقع ہیں۔ اس کے برعکس 57فیصد کے ساتھ دیہی علاقوں میں بے رزگاری کا تناسب زیادہ ہے جبکہ شہروں میں بے روزگاری کا تناسب 43فیصد ہے۔

لیبرفورس سے باہر 21146خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے شہری علاقوں کا تناسب 76.6فیصد اور دیہی علاقوں کا 23.4فیصد ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ لیبرفورس سے باہر21146 خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے 76فیصد شادی شدہ ہیں جبکہ عمر کے لحاظ سے 25سے 34سال کی خواتین میڈیکل گریجویٹس کا تناسب سے زیادہ 54فیصد ہے۔ سروے میں اعدادو شمار کا تجزیہ میڈیکل گریجویٹس کیلئے روزگار کے مواقع بہتر بنانے کیلئے ٹارگٹڈ پالیسی کی کوششوں کی اہمیت کو اجاگر کرتاہے خاص طورپر دیہی علاقوں میں جہاں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔

اس سروے کے نتائج 'ڈاکٹر برائیڈز' کے رجحان کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں اس پر بڑے پیمانے پر بحث اور رپورٹ کی گئی ہے کہ بہت سے خاندان اپنی بیٹیوں کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں شادی کیلئے مناسب میچ تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

سروے میں ان خواتین میڈیکل گریجویٹس کو شامل کیا گیا تھا جنہوں نے بی ڈی ایس، ایم بی بی ایس، ایم فِل ایم ایس یا ایم ایس سی یا طب کے کسی بھی شعبہ میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی ہو۔ سروے میں پاکستان بھر سے تقریباً 99900 گھرانوں کا ڈیٹا جمع کیا تھا اور پہلی مرتبہ ضلعی سطح کے نتائج بھی فراہم کیے گئے۔
Load Next Story