دمانی کے دامن میں
چاروں طرف بادل، بارش اور ایک عجیب سی اداسی
(آخری قسط)
مناپن کا شہزادہ
اوشو تھنگ کے اسرار کے لیے یہ الفاظ شاید سب سے زیادہ موزوں ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کی والدہ نگر کے شاہی گھرانے (میر خاندان) سے تعلق رکھتی تھیں سو آپ ایک شاہی ہستی ٹھہرے، دوسرا آپ اس علاقے کی پہچان بھی ہیں۔ ٹریک کے دوران سلمان نے اسرار بھائی کے بارے میں کافی کچھ بتا دیا تھا لیکن میں کسی سے ملے بغیر اس شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرتا۔
پہلی ملاقات میں انہیں ذہین، ہنس مکھ، خوش مزاج اور عقل مند کاروباری انسان پایا تو دوسری ملاقات میں ان کی شگفتگی، اپنائیت، سادہ پن اور ذہنی وسعت سامنے آئی لیکن میں اب بھی اس شخص پر تفصیلی نہیں لکھ سکتا کیوںکہ مجھے لگتا ہے میں ان سے ابھی بہت کچھ کشید کر سکتا ہوں۔ کیا پتا اگلی بار انہیں اور جاننے کی تڑپ ہی مجھے مناپن کا مہمان کر دے۔
ہم نے جب نگر کی تاریخ، پاکستان کے حالات، گلگت بلتستان میں فرقہ واریت، تکیہ تارڑ، سیاحت اور دیگر موضوعات پر بات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے خیالات کافی ملتے ہیں۔
انہوں نے مجھے اوشو تھنگ میں ٹھہر کر کتابیں لکھنے والے مغربی مصنفین کے قصے سنائے۔ جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب سے دوستی اور ملاقاتوں کا احوال بھی بتایا، مناپن کی معاشرتی و روایتی زندگی سمیت اوشو تھنگ کی ترقی اور مناپن کا سیاحت میں کردار بھی ڈسکس ہوا۔ یعنی کہ مجھے اگلے انٹرویو کے لیے بہت سا مواد مل گیا۔
آخر میں اپنی کتابیں کیمرے کے سامنے ان کے حوالے کیں اور جانے سے پہلے اس شخص کو زور کی جپھی ڈالی جس نے نگر کی سیاحت اور ہوٹلنگ انڈسٹری کا نقشہ ہی بدل ڈالا تھا۔ اسرار بھائی کی محبت کہ میرے کہنے کے باوجود انہوں نے مجھ سے ناشتے کا ایک دھیلا بھی وصول نہ کیا۔ اگلی ملاقات اور ایک لمبی نشست کی چاہت کی پوٹلی اوشو تھنگ کے ہال میں کہیں باندھ کر میں بہت سی یادیں لیے وہاں سے راکاپوشی ویو پوائنٹ کے لیے ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔
دل واپس نہیں جانا چاہتا تھا لیکن۔۔۔میں مسافر تھا اور مجھے واپس جانا ہی تھا۔
گلگت بلاتا ہے
ٹیکسی تیزی سے پسان کے پہاڑ اور پل کراس کرتی جا رہی تھی۔ چاروں طرف بادل اور بارش اور ایک عجیب سی اداسی جو پہاڑوں کو الوداع کہنے والے ہر سیاح کے دل میں ہوتی ہے۔ بچھڑنے کا دکھ حسین یادوں کو بھی دل پر لگا گھاؤ بنا دیتا ہے جو واپس پہاڑوں میں جا کر ہی مندمل ہوتا ہے۔
ٹیکسی نے مجھے راکاپوشی ویو پوائنٹ سے کچھ آگے ایک بیکری پر اتارا جہاں سے مجھے 12 بجے اسلام آباد کے لیے فیصل موورز کی ٹکٹ لینی تھی۔
ابھی دس بجے تھے۔ بارش کے باعث سڑکیں سنسان اور مارکیٹ بند تھی سو ٹکٹ لے کر میں نزدیکی بینک کے منیجر سے گپ شپ لگانے چل دیا۔ اندر گیا تو سامنے ایاز بھائی کو دیکھ خوش گوار حیرت ہوئی۔ یہ اس ہوٹل کے مالک تھے جہاں میرا قیام تھا۔ بینک مینیجر سے تعارف ہوا تو وہ اسرار بھائی کے رشتے دار نکلے، چلو جی یہ تو سارا بینک ہی اپنا ہے۔
ہم بھی چوڑے ہو کر بیٹھ گئے۔ قہوہ پیا اور خوب گپیں لگائیں۔ بلکہ دو گھنٹے تک ان کے سر پر سوار رہا۔ گیارہ بجے موبائل چارجنگ پر لگایا اور ساڑھے گیارہ کے قریب بس ٹرمینل سے رابطہ کیا۔ آگے ان کا جواب سن کہ میرے طوطے اڑ گئے۔
میری بس ملک بھر میں ہونے والی بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث کینسل ہوچکی تھی اور کل تک ہنزہ و گلگت سے کوئی بس اسلام آباد نہیں جانی تھی۔
بھاگم بھاگ ٹکٹ واپس کروائی اور گلگت کے دوستوں کو کال ملائی۔ انصار کا فون آف، ٹیپو بھائی غذر ٹرپ لے کر گئے تھے اور اسامہ سے رابطہ نہیں ہوپا رہا تھا۔ خود کو تسلی دی اور بینک کے چوکی دار کو راہ چلتی کسی بھی کار، ٹرک یا مزدہ کو روکنے کا کہا۔ شومئی قسمت چالیس منٹ انتظار کے بعد ایک لوکل ہاتھ آگئی۔ ویگن جگہ جگہ رکنی تھی سو میں پیچھے بیٹھ گیا۔
گلگت کی طرف رواں تھا لیکن گلگت کے کسی دوست سے رابطہ نہیں ہوپارہا تھا۔ شاید اللہ کو یہی منظور تھا۔ گلگت سے پہلے روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے ویگن نے دو ڈھائی گھنٹے بعد دینیور اتارا اور وہاں سے آگے ویگن کے ہی ایک ہم سفر کے ساتھ ہم دینیور سے جٹیال اور وہاں سے گلگت کے بس اڈے پہنچے۔ وہ مجھے الوداع کہہ کر چل دیا اور میں نیٹکو بس ٹرمینل پر مارا مارا پھرنے لگا۔
وقت کافی تھا سو مختلف بس کمپنیوں سے بس کا پتا کیا لیکن آگے قراقرم ہائی وے تین جگہوں سے بلاک تھی سو آج کوئی بس میسر نہ تھی۔ اتنے میں اسامہ سے رابطہ ہوگیا۔ موصوف کام کے سلسلے میں استور میں تھے اور واپسی دو گھنٹے میں تھی۔ اسامہ نے مجھے وہیں انتظار کرنے کا کہا۔ تب تک میں تین چار ٹیکسی والوں کو یہ باور کروا چکا تھا کہ روڈ کھلنے کے بعد جو پہلی ٹیکسی نکلے اس میں میرا جانا کتنا ضروری ہے۔
لگ بھگ دو گھنٹے بعد ڈاکٹر اسامہ ملک اپنے ڈبلیو ایچ او کی جیپ میں تشریف لائے۔ ہاسٹل کے دو دوست بڑے عرصے بعد بغل گیر ہوئے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ چھے سال ہاسٹل میں ساتھ رہے اور اسامہ کے بلانے پر میں ایک بار بھی گلگت نہ جا سکا اور آج ان حالات میں ہم مل رہے تھے۔
دوست بھی اللہ کی کیسی نعمت ہوتے ہیں۔ اسامہ سے مل کر میری تھکان، پریشانی سب ختم ہوگئی۔ اس کے گھر پہنچ کر فریش ہوا اور چائے کے بعد خود کو چارج کیا۔ میرے جیسے شخص کی چارجنگ دوستوں اور بے گانوں سے مختلف موضوعات پر طویل گفتگو کرنا ہے۔
ابھی چائے پی کے اٹھے ہی تھے کہ کچھ دیر بعد ٹیکسی اونر کی کال آ گئی۔
رات نو بجے ایک گاڑی اسلام آباد کے لیے نکل رہی ہے، آپ کو جانا ہے؟ میں آپ کو مشورہ کر کے بتاتا ہوں، کہہ کر میں نے اسامہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ''تجھے کیا جلدی ہے، رک جا ایک دن۔ کل راستے کھل جائیں گے تو چلے جانا۔''
مشورہ تو مناسب تھا لیکن ان پاؤں میں سرکاری ملازمت کی جو بیڑیاں تھیں ان کو توڑنا آسان کہاں تھا۔ میں نے اسلام آباد سے بھی آگے پنجاب کے آخری سِرے تک جانا تھا سو دل پر پتھر رکھ کر ٹیکسی والے کو ہاں کہہ دی۔ اسامہ جانتا تھا میری سیلانی طبیعت کو سو فوراً جیپ نکالی اور گلگت شہر کا کونہ کونہ گھما دیا۔
اندھے کو اور کیا چاہیے ، دو آنکھیں۔
گلگت جب بھی آیا گرمی اور دھوپ نے میرا استقبال کیا تھا لیکن آج تو اس شہر کا موسم ہی بدلا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش سے موسم خوش گوار ہوچکا تھا اور اب عصر و مغرب کے بیچ یہ دھلا دھلا سا شہر (جسے عموماً سیاح پسند نہیں کرتے) مجھے بہت بھا رہا تھا۔ مختلف چوکوں سے گزر کر ہم دریائے گلگت پر آ ٹھہرے اور اسامہ نے جیپ روک دی۔
چل باہر چلتے ہیں۔ اس نے تو اپنی سگریٹ کا کش لگا لیا جب کہ میں پل سے نیچے دریا کی لہروں کو غور سے دیکھنے لگا۔ دریا کے اس پار نیچے ایک ریستوراں کی روشنیاں جگ مگ کر رہی تھیں اور میں یہ سوچ کر خوش تھا کہ میرا امتحان اب ختم ہونے کو ہے۔ راکاپوشی کا خراج میں ادا کر چکا ہوں۔
لیکن، ابھی سود باقی تھا۔
یہاں سے نکل کر ہم قراقرم یونیورسٹی دیکھ کر گھر آ گئے۔
اسامہ نے جلدی سے رات کا کھانا تیار کروایا اور چھے دن بعد مجھے ''ماں'' کے ہاتھ کا پکا گھر جیسا کھانا نصیب ہوا۔ اتنے میں کار اونر کی کال آ گئی۔ اسامہ نے ہی اپنے ایک کزن کے ساتھ مجھے وہیں پہنچایا جہاں آج دن میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہو گا۔ سفر کی تھکان کے پیشِ نظر میں نے فرنٹ سیٹ بک کروائی تھی کہ آگے سکون رہے۔ اُسامہ سے بغل گیر ہو کر میں کار میں سوار ہوا اور کچھ دیر میں کار قراقرم ہائی وے پر فراٹے بھر رہی تھی۔
بونجی کے پاس پھر بارش شروع ہوگئی تو میں نے ورد کرنا شروع کردیا۔ بارش تو تھم گئی لیکن ایک لینڈ سلائیڈ آگے مل گئی۔ چالیس منٹ یہاں رکنے کے بعد گاڑیاں چلنا شروع ہوئیں۔ آگے لینڈ سلائیڈ کے لیے بدنامِ زمانہ ''تتہ پانی'' میں گاڑیوں کی ایک لمبی قطار دکھائی دی۔
لمبے پھنسے، یہ سوچ کر میں نے نیند پوری کرنے کے لیے سر سیٹ پر ٹکا لیا۔ لیکن ایسے نیند کہاں آنی تھی۔ اللہ اللہ کر کے سوا گھنٹے بعد گاڑی چلی تو دیکھا کہ بارشوں سے پہاڑ کا کافی حصہ سڑک پر آ چکا تھا جس میں سے ایک گاڑی ایک وقت میں گزر سکتی تھی۔ اللہ اکبر پڑھ کر سفر شروع ہوا اور لگا کہ اب جان چھوٹی مگر۔۔۔۔
کیڈٹ کالج چلاس کے پاس کتنی دیر رکے مجھے یاد نہیں یاد ہے تو اتنا کہ ڈرائیور نے چلاس سے پہلے نماز فجر کے لیے ایک چھوٹی سی پہاڑی مسجد کے قریب گاڑی روکی جہاں نہایت ٹھنڈے پانی سے وضو کیا تو ہوش آیا۔ اس کے بعد بابوسر پہنچے تو اسے کھلنے میں ابھی وقت تھا۔ یہ وقت بھی گزر گیا اور ہم بابوسر جا پہنچے۔
اس جگہ کے حالات کافی بدل چکے تھے۔ بہت پہلے بابوسر ٹاپ ایک صاف ستھرا سیاحتی مقام تھا جہاں ایک چوکی اور اکا دکا لوگوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن اب۔۔۔۔اللہ کی پناہ۔ سوچیں کہ بلندی پر واقع اس جگہ کا کیا حال ہوگا جہاں اب پیزا سمیت کئی دیگر چیزوں کی دکانیں کھل چکی ہیں۔
یہاں سے آگے بیسل کے قریب ہم نے ناشتہ کیا اور رش بھرے ناران سے ہو کر سفر جاری رکھا۔ یہاں دریائے کنہار پر ''سُکی کناری پاور پروجیکٹ'' کا کام چل رہا تھا جس کی وجہ سے سڑک کو ایک خم دے کہ موڑا گیا تھا۔ ناران سے بالاکوٹ کا راستہ جسم کی چولیں ہلا دیتا ہے۔ میں جو داسو اور بشام کو بائی پاس کرنے پر خوش تھا اس نہایت خراب سڑک سے گزر کر پچھتا رہا تھا۔ خیر اسی کا نام تو سفر ہے۔
لگ بھگ دوپہر کو ہم کڑی تپسیا کے بعد اسلام آباد پہنچ گئے۔ پہلے سے سن برن اوپر سے چِلچلاتی دھوپ اور شدید پیاس۔ کچھ دیر آرام کیا اور رات کی بس میں یہ سوچ کر سوار ہوا کہ اب آرام سے کھلا ڈلا سوتا ہوا گھر جاؤں گا لیکن۔۔۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر شعبۂ میڈیسن شیخ زاید اسپتال کے ایک سنیئر پروفیسر براجمان تھے جو پنڈی میں امیدواروں کا ایف سی پی ایس کا امتحان لے کے واپس جا رہے تھے۔
جان پہچان بھی نکل آئی۔ اپنی فیلڈ کے اتنے سنیئر بندے کے سامنے میں ''کھلا ڈلا'' ہو کر کیسے سو سکتا تھا (آپ سمجھ رہے ہیں نا) سو آدھا راستہ ان سے باتوں میں گزرا اور باقی آدھا یہ سوچ کر کے اب اگلی بار کہاں کا سفر کروں۔
راکاپوشی کے امتحان یہاں ختم ہو چکے، لیکن زندگی کے تو باقی ہیں ناں۔ ( ختم شد)