کوچۂ سخن

اسی لیے ہوں بہشت ِ خوش اعتقادی میں<br /> کہ میرا جی نہیں لگتا دکھوں کی وادی میں

فوٹو: فائل

غزل
اسی لیے ہوں بہشت ِ خوش اعتقادی میں
کہ میرا جی نہیں لگتا دکھوں کی وادی میں
خوشی ملاحظہ ہو ڈوبتے ہوؤں کی ذرا
کہ ان کا نام پکاراگیا منادی میں
میں پا شکستگی بننے نہ دوں گا دردِ سر
بلا سے مارا ہی جاؤں خود اعتمادی میں
ہمارے دل میں محبت کی اک کلی چٹکی
ہزار پھول کھلے ہیں سخن کی وادی میں
کبھی ہوا نہیں احساسِ کمتری مل کر
کوئی فقیر چھپا ہے امیر زادی میں
ازل ابد مری مٹھی میں قید ہیں لیکن
بھٹکتا پھرتا ہوں صحرائے نا مرادی میں
غریبی سمجھی نہ در خورِ اعتنا جاذبؔ
خدا نے جان مری رکھ دی شاہزادی میں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)


۔۔۔
غزل
تذکرہ جب کیا ہے دولت کا
گُھٹ گیا دم مری ضرورت کا
تجربہ ہی بتا رہا ہے ہمیں
زندگی نام ہے اذیت کا
تم ہو ملفوف اتنے پردوں میں
کس سے پوچھوں تمہارے قامت کا
کر چکا ہوں روانہ تیری طرف
اک کبوتر سفید رنگت کا
آپ منصف ہو منصفی کر دو
آنسو بدلہ ہے کیا محبت کا
دورِ حاضر میں ہم سہولت سے
لے رہے ہیں مزہ قیامت کا
لوگ جھک کے سلام کرتے ہیں
یہ ثمر ہے تمہاری نسبت کا
آنکھ تیّار کی ہے رونے کو
لطف آئے گا اب عبادت کا
دندناتا وہ پھر رہا ہے ابھی
کیا ازالہ کیا شکایت کا
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
وقت کی آگ میں جل سکتا ہے
آدم زاد پگھل سکتا ہے
ایسی اس کے لمس کی حدت
ٹھنڈا پانی جل سکتا ہے
شام کا منظر میری آنکھیں
شام کا منظر ڈھل سکتا ہے
آج تمہارا وقت ہے لیکن
دیکھو وقت بدل سکتا ہے
جس کو تم نے چھوڑ دیا ہو
ایسا شخص سنبھل سکتا ہے؟
میں شاعر ہوں میرا کیا ہے
غم شعروں میں ڈھل سکتا ہے
خود کو پاس بٹھا کر پوچھا
ساتھ ہمارا چل سکتا ہے؟
لمحے کو تم کم مت سمجھو
لمحہ عمر نگل سکتا ہے
(منیر انجم ۔ سرگودھا)


۔۔۔
غزل
دل کی نگری پر تری اب بھی شہی جاری تو ہے
گو محبت کا تعلق نہ سہی یاری تو ہے
وارتے ہیں جان اپنوں پر سبھی اور ایک، تو
حوصلہ کر کیا ہے کچھ دن کی وفاداری تو ہے
چھوڑیے جنت میاں اس کا پتیسہ نہ ملے
کر رہے ہو جو عبادت بس ریاکاری تو ہے
کچھ تو ہو جو توڑ دے دشتِ تخیل کا سکوت
خامشی پر خامشی پھر کھینچ کر ماری تو ہے
اب اجل کے منتظر ہیں دیکھیے آتی ہے کب
جس قدر ممکن تھا عزمیؔ اپنی تیاری تو ہے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)


۔۔۔
غزل
قیدِ تنہائی میں اک وہم سا ہوتا ہے مجھے
جیسے آنگن کا کوئی پیڑ بلاتا ہے مجھے
میں ہوں مجبور بہت اپنی اَنا کے ہاتھوں
تجھ پہ غصے میں مگر پیار بھی آتا ہے مجھے
جب تری یاد کے جنگل سے گزرتا ہوں میں
کوئی درویش رہِ عشق دکھاتا ہے مجھے
اس کی خواہش ہے میں دریا کا بہاؤ ہوتا
ایک پتھر مرے رستے سے ہٹاتا ہے مجھے
جب سمجھتا ہوں کہ غافل ہوں میں خود سے تو پھر
آئنہ ہنس کے مرا حال بتاتا ہے مجھے
میرا کردار کہانی میں نہیں ہے پھر بھی
سارے منظر سے قلمکار ملاتا ہے مجھے
اپنے ہنسنے میں تسلسل نہیں رکھ سکتا معاذؔ
رنج ایسا ہے کہ ہر بار رلاتا ہے مجھے
(احمد معاذ۔ کہوٹہ، راولپنڈی)


۔۔۔
غزل


میری صدا پہ کھولے گا در کوئی بھی نہیں
سمجھو کہ سارے شہر میں گھر کوئی بھی نہیں
لکھا ہے آج دستِ صبا پر تمہارا نام
گلچیں کو، گلستاں کو خبر کوئی بھی نہیں
جب سے اگی ہے رات کی رانی ہمارے گھر
ہم پر کسی مہک کا اثر کوئی بھی نہیں
یہ عشق کس سے ہو گیا ہے بے سبب مجھے
حامدؔ مرے قریب اگر کوئی بھی نہیں
(سید حامد حسین شاہ، داتا مانسہرہ)


۔۔۔
غزل
گلوں کا غم سے کلیجہ لہولہان ہوا
تو نورِ صبح پرندوں کا رازدان ہوا
یہ کون رات گئے دے رہا ہے مجھ کو دعا
کھلی فضا میں مرے سر پہ سائبان ہوا
چہار سمت جہاں خارِ بے یقینی ہے
اسی زمین پہ اپنا تو گلستان ہوا
نجانے توڑ دیا کس لیے وہ آئینہ
دیارِ غیر میں اپنا جو قدردان ہوا
یہ آرزوئے مسرت غموں کے باعث تھی
میں زندگی کی تمنا میں بے امان ہوا
بہت دنوں سے مری یاد بھی نہیں آئی
بہت دنوں سے ترا دل نہ مہربان ہوا
ولیؔ بسایا ہوا تھا جو شخص دل میں کبھی
وہی تو میری حیاتی کا حکمران ہوا
(شاہ روم خان ولی۔ مردان)


۔۔۔
غزل
مسلسل کنج زنداں میں اتارا جا رہا ہوں میں
بڑے مشکل مراحل سے گزارا جا رہا ہوں میں
پلٹ کر دیکھنا تک بھی، گوارا ہی نہیں دل کو
کوئی دیکھے یہ کن ہاتھوں سے مارا جارہا ہوں میں
اگرچہ میں نہیں کچھ بھی مگر اب کچھ تو ہے مجھ میں
سر ِدشتِ نوائی میں پکارا جا رہا ہوں میں
سدا یارو لگی ٹھوکر، جہاں پہ بار ہا مجھ کو
مری قسمت، اسی پتھر سے مارا جا رہا ہوں میں
مرا مخلص نہیں دل سے مجھے سب ہے خبر لیکن
یہ میری بدنصیبی کہ دوبارہ جا رہا ہوں میں
ہوا دل کو گماں اس نے پکارا ہے تجھے امجدؔ
ذرا دیکھو مجھے سارے کا سارا جا رہا ہوں میں
(امجد ہزاروی۔ مانسہرہ)


۔۔۔
غزل
دل سے جو لوگ اتر جاتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ مر جاتے ہیں
اس قدر بڑھ گئی دل کی وحشت
اپنے سائے سے بھی ڈر جاتے ہیں
وصل کی آس لیے دیوانے
فرقتِ یار میں مر جاتے ہیں
بزم یاراں میں گئے تھے خوش خوش
لے کے اب دیدۂـ تر جاتے ہیں
جو رہِ عشق پہ ہیں چل پڑتے
لوٹ کر وہ کہاں گھر جاتے ہیں
زندگی کی جو قدر جانتے ہیں
کر کے ساری وہ بسر جاتے ہیں
آنکھ سے اشک نہ جو بہہ پائیں
دل کے اندر وہ اتر جاتے ہیں
کب ٹھہرتے ہیں ہمیشہ راحلؔ
دن برے اچھے گزر جاتے ہیں
( علی راحل۔ بورے والا)


۔۔۔
غزل
ہم ایسے مجنوں پرانے عاشق غمِ جفا سے نہیں مریں گے
تمہاری آنکھوں پہ لکھنے والے ہیں بد دعا سے نہیں مریں گے
طبیب مجھ کو یہ لکھ کے دے دے اسی سے مجھ کو شفا ملے گی
کہ اسکے پہلو میں رہنے والے کسی وبا سے نہیں مریں گے
لکھوں غزل جو اے شوخ تم پر تو اپنی قسمت بدل کے رکھ دوں
تمہارے ٹکڑوں پہ پلنے والے کسی بلا سے نہیں مریں گے
محبتوں میں وفا پہ قائم رہو گے جب تک تو یاد رکھنا
کہ پھر پریمی بھی اس زمیں کے کسی خدا سے نہیں مریں گے
تمہارے لہجے سے آج بھی وہ جفا کی تلخی جھلک رہی ہے
او اپنے لہجے سے ڈسنے والے بھی کج ادا سے نہیں مریں گے
تمہاری نگری میں آج جا کر وفا کو دوں گا میں ایسا امرت
محبتوں کو نبھانے والے کسی انا سے نہیں مریں گے
تمہاری الفت نے مان بخشا ہے سرخرو اب ہیں زندگی سے
مدثر الفت میں مرنے والے ہیں اب قضا سے نہیں مریں گے
(مدثر اسیر، جوہر آباد۔ ضلع خوشاب)


۔۔۔
غزل
حصار غم سے اے ہمدم نکلنا کیسے ممکن ہے؟
لکھا ہے جو مقدر میں بدلنا کیسے ممکن ہے
گرے کہسار سے انساں تو ممکن ہے سنبھل جائے
گرے گر نظر ِانساں سے سنبھلنا کیسے ممکن ہے
نزاکت خود کو خوابوں سے بہلایا مدتوں ہم نے
ہمارا خود فریبی سے نکلنا کیسے ممکن ہے؟
( نزاکت ریاض۔پنڈمہری)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story