افغان حکومت کا مخاصمانہ رویہ اور دہشت گردی

مستقبل قریب میں بھی ایسے کوئی اشارے نہیں ملتے کہ وہ اپنے سخت طرزِ عمل پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہو جائیں گے

مستقبل قریب میں بھی ایسے کوئی اشارے نہیں ملتے کہ وہ اپنے سخت طرزِ عمل پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہو جائیں گے (فوٹو: فائل)

پاکستان اورافغان حکام کے درمیان طورخم بارڈرکھولنے کے لیے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے، سرحدی گزرگاہ پانچویں روز بھی بدستور بند رہی۔

پاک افغان فورسز میں جھڑپ سے پاکستان اور طالبان کی افغان عبوری حکومت کے درمیان کشیدہ تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب کہ سیکڑوں دہشت گردوں نے افغان سرحد پار کر کے ضلع چترال میں پاکستانی چوکی پر حملہ کیا تھا۔ افغان حکومت کے ترجمان نے چترال حملوں میں اپنی سرزمین کے استعمال کی تردید کی ہے۔

اقتدار میں آنے سے قبل افغان طالبان نے دو برس قبل دوحہ میں جو یقین دہانیاں کرائی تھیں، حیرانی کی بات ہے کہ اِس حوالے سے ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا، دہشت گرد بلا روک ٹوک افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔

افغان طالبان ایک تردیدی بیان جاری کرکے اپنی ذمے داریوں سے بری ہوجاتے ہیں، اگر افغان حکومت اپنے ملک میں موجود پاکستان تحریک طالبان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی تو پھر پاک فوج کو اجازت دینی چاہیے کہ وہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کردے۔

طالبان وزیرِ دفاع سمیت کئی رہنماؤں کی پاکستان بارے تضحیک آمیز گفتگو کسی سے پوشیدہ نہیں ، افغان سرزمین استعمال کرنے والے دہشت گرد پاکستانی سیکیورٹی دستوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں دوطرفہ بات چیت میں ایک سے زائد بار پاکستان کی طرف سے اِس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی لیکن طالبان کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی۔

افغانستان میں اقتدار میں آنیوالی طالبان حکومت سے قوی امید تھی کہ پاکستان کے مثبت کردار اور اس کی بے مثال کاوشوں کے تناظر میں اب افغانستان سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئیں گے مگر کابل انتظامیہ پاکستان کی تمام تر مخلصانہ کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے نہ صرف اس کے ساتھ مخاصمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے بلکہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرپرستی بھی کر رہی ہے جو افغانستان میں امریکا کے چھوڑے گئے جدید اسلحہ کے ساتھ پاکستان اور اس کے سیکیورٹی اداروں پر حملے کر رہی ہے۔

افغانستان کی ان کارروائیوں کے باوجود پاکستان اب بھی پرامن افغانستان کا خواہاں ہے کیونکہ پاکستان سمیت خطے کی ترقی پرامن افغانستان سے ہی مشروط ہے مگر کابل انتظامیہ پاکستان کے ساتھ ایک دشمن والا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اس کی یہ بلااشتعال کارروائیاں پاکستان کے خلاف اس کے جنگی جنون کا ہی عندیہ دے رہی ہیں۔

امریکا کا چھوڑا گیا جدید اسلحہ طالبان پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بیشتر کارروائیوں میں تحریک طالبان پاکستان نے ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تربیتی مراکز افغانستان میں موجود ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مقاصد اور مطالبات جو بھی ہیں ان کی اس روش نے نہ صرف پاکستان کی داخلی سلامتی کو چیلنج کیا ہوا ہے بلکہ پاک افغان تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت نے افغان حکومت سے تحریک طالبان پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کہا مگر افغان حکومت نے اسے پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ بدیہی طور پر افغانستان حکومت کا یہ رویہ غیر دوستانہ اور غیر ہمدردانہ ہے۔

افغانستان میں آج بھی بے چینی اور بد امنی ہے، اِن حالات میں بیرونی تحفظات اُسے مزید کمزورکرسکتے ہیں لیکن کیا اِن خطرات کا افغان طالبان کو کچھ ادراک ہے؟ بظاہر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ افغانستان اور دنیا کو وہ اپنی پسند کے مطابق چلانے کی کوشش میں ہیں۔


افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات تواتر سے جاری ہیں جن پر قابو پانے میں طالبان ناکام ہیں دراصل نیٹو افواج جاتے ہوئے سامانِ حرب کا بڑا ذخیرہ چھوڑ گئی ہیں جس سے طالبان سمیت دیگر افغان گروہوں کو بھاری ہتھیارکی کمی نہیں رہی، مگر طالبان ہوں یا دیگر گروہ،یہ نہ صرف غیر منظم ہیں بلکہ تربیت میں بھی کئی نقائص ہیں نیز سبھی افغان وسائل پر تصرف حاصل کرنے کے لیے اکثر باہم برسرِ پیکار رہتے ہیں جو ملک میں بھوک و افلاس کی اصل وجہ ہے بہتر تو یہ تھا کہ طالبان دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ملک کے اندر سیاسی مکالمے کو فروغ دیکر ایک وسیع تر جامع سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے مگر اُن کی سخت گیر ی افغانستان میں بدامنی کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ہمسایہ ممالک کے تحفظات کا باعث بن گئی ہے۔

مستقبل قریب میں بھی ایسے کوئی اشارے نہیں ملتے کہ وہ اپنے سخت طرزِ عمل پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہو جائیں گے، اُن کے طرزِ عمل سے ہمسایہ ممالک غیر مستحکم ہوسکتے ہیں اور اندرونی خلفشار اُن کی سیاسی ناکامی پر منتج ہو سکتا ہے۔

رواں ماہ 29 ستمبر کو ایسے حالات میں افغانستان بارے کثیر الجہتی ماسکو فارمیٹ کا سالانہ اجلاس روس کے شہر کازان میں منعقد ہو رہا ہے جب کئی ہمسایہ ممالک کو طالبان سے تحفظات ہیں روس کی میزبانی میں پاکستان، بھارت، چین ایران اور طالبان نمایندے مل بیٹھ کر دہشت گردی و منشیات اسمگلنگ کے خاتمے سمیت سیاسی نمایندگی کی عکاس ایک حقیقی اور جامع حکومت کی تشکیل کی اہمیت اور امکانات کا جائزہ لینے کے لیے تبادلہ خیال کریں گے۔

کان کنی کی افغان وزارت نے رواں ماہ 6 ارب 56کروڑ ڈالر کے ملکی و غیر ملکی کمپنیوں سے سات معاہدے کیے ہیں جن کے ذریعے سونے، تانبے، سیسے، زنک اور لوہے کی کانوں سے کان کنی کر کے دھاتوں کی پروسیسنگ کی جائے گی۔

افغان طالبان کو یقین ہے کہ اِس طرح نہ صرف روزگار کے ہزاروں مواقعے پیدا ہوں گے بلکہ ملک کی معاشی صورتحال میں بھی نمایاں بہتری آئے گی مگر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس طالبان مخالف گروہ آسانی سے کان کنی کا موقع دینے کے بجائے رخنہ اندازی کے ذریعے حصہ وصول کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اِن خطرات پر کیسے قابو پانا ہے؟

طالبان کے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہیں ظاہر ہے تحفظ نہ ملنے سے کان کنی کا عمل متاثر ہوگا اور پھر سرمایہ کار کمپنیوں کو متحارب گروہوں سے خود سلسلہ جنبانی کرنا پڑے گا جس سے طالبان بارے دنیا کو اچھا تاثر نہیں جائے گا مگر جن کے مستقبل بارے فکر مند خطے کے ممالک تو تبادلہ خیال کر رہے ہیں لیکن طالبان صفوں میں اِس حوالے سے بے فکری ہے۔

ملک میں اشیا کی قلت پر قابو پانے کے حوالے سے طالبان رویہ غیر سنجیدہ ہے اور وہ تجارت پر پابندیاں لگا رہے ہیں سالانگ ٹنل اور ہائی وے کو دس ستمبر سے غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی کڑی ہے ہندوکش پہاڑی سلسلے سے نکالی گئی یہ ٹنل کابل کے شمال میں نوے کلومیٹر دور 2.67 کلومیٹر طویل ہے یہ افغانستان کے مختلف شہروں تک اشیا پہنچانے کا ایک اہم راستہ ہے بظاہر بندش کا جواز تعمیر و مرمت پیش کیا گیا ہے مگر اصل وجہ جولائی اور اگست میں پاکستانی برآمدات کا افغان درآمدات سے بڑھنا ہے۔

طالبان کو خدشہ لاحق ہے کہ اِس طرح ڈالر ذخائر میں کمی آسکتی ہے جس کے لیے تجارتی گزرگاہ کو بند کر دیا گیا ہے حالانکہ جائز ذرایع بند ہونے سے اسمگلنگ جیسی غیرقانونی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں مزید یہ کہ افغان وزارتِ خارجہ نے اپنے شہریوں کو ایڈوائزری جاری کی ہے کہ سیاسی عدمِ استحکام، احتجاج اور پُرتشدد واقعات کی وجہ سے پاکستان کے سفر میں احتیاط برتیں لیکن کئی عشروں سے یہاں مقیم پینتالیس لاکھ افغانوں کو اپنے ملک لے جانے پرآمادہ نہیں ۔

ممکن ہے طالبان کے اعتماد کی وجہ وہ عالمی رپورٹس ہوں جن میں افغان معیشت اچھی ظاہر کی گئی ہے حال ہی میں ورلڈ بینک نے پاکستان کے مقابلے میں افغان کرنسی کو 29.3 فیصد مستحکم قرار دیتے ہوئے مہنگائی میں 9.1 فیصد کمی بتائی ہے وجہ 2022 کے وسط تک بلندی پر پہنچنے والی مہنگائی کے دوران اشیا کی ترسیل میں اضافے اور منڈی میں بڑے پیمانے پر دستیابی قراردی جس سے اپریل 2023 میں گرانی میں کمی آنا شروع ہوئی یہ سلسلہ رواں برس جون تک برقرار رہا۔ اب راستوں کی بندش سے پیدا ہونے والی اشیا کی قلت مہنگائی میں دوبارہ اضافے کا موجب بن سکتی ہے ڈالر بچانے کے لیے عوامی مشکلات نظرانداز کرنا غیر مناسب ہے۔

افغانستان خشکی سے گھرا (LAND LOCKED) اور ایک دشوار گزار جغرافیہ کا حامل ملک ہے۔ اس کی بیرونی تجارت کا انحصار پاکستان کی بندرگاہوں پر ہی ہے۔

افغانستان کو اپنی تجارت اور پاکستان کو اپنی داخلی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات ہر قسم کی کشیدگی سے محفوظ اور دوستانہ ہوں۔ جس طرح ایک پر امن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے بعینہ افغانستان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے ہر قسم کی شورش سے محفوظ ہوں اس کے لیے دونوں کو ہر سطح پر کوششیں کرنا ہونگی، وقت اور حالات کا تقاضہ یہی ہے۔
Load Next Story