اقتدار سے چمٹے کیوں رہے

عہدوں و اقتدار کے بھوکے الیکٹیبلز ہمیشہ موقع کے انتظار میں رہے

m_saeedarain@hotmail.com

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اورسابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مدت پوری کرنے والی قومی اسمبلی کی غیر تسلی بخش کارکردگی پر اس کا حصہ رہنے پر عوام سے معافی مانگ لی ہے اور بعد میں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اتحادی حکومت کو ملک کی بہتری کے لیے چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے چاہیے تھے۔

خیبرپختون خوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو انتخابات میں لگ پتا جائے گا کہ وہ ملک میں کتنے مقبول ہیں اور کے پی میں تقریباً چالیس الیکٹیبل رہنما میرے ساتھ ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کی رہنما ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی اپنے سابق چیئرمین اور ان کی اہلیہ سے متعلق انکشافات کیے ہیں۔

کبھی ایسے ہی انکشافات ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے پی پی حکومت میں کیے تھے مگر ان میں اور پرویز خٹک، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں میں فرق یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا نے وزارت چھوڑ دی تھی جب کہ پی ٹی آئی رہنما سانحہ 9 مئی کے بعد اور شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کے بعد ایسے بیانات دے رہے ہیں اور قومی اسمبلی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا کر قوم سے معافی مانگی ہے۔

شاہد خاقان عباسی اتحادی حکومت میں ہی مخالفانہ بیانات دیتے رہے مگر انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑی تھی نہ اپنی اس پارٹی سے استعفیٰ دیا تھا۔ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی چیئرمین کے قریبی ساتھی نے بھی حکومت ختم ہونے کے بعد کچھ حقائق بیان کیے تھے جس پر انھیں پارٹی سے فارغ کردیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے منحرفین شاید اس لیے خاموش رہے اور پارٹی سے الگ نہیں ہوئے کہچیئرمین پی ٹی آئی کی مقبولیت بہت زیادہ ہے اور انھیں پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں آتی نظر آ رہی تھی اس لیے انھوں نے اپنے ہونٹ سی لیے تھے اور انھیں اپنے چیئرمین میں کوئی برائی نظر نہیں آتی تھی۔

سابق وزیر علی زیدی ماتھے پر گولی کھانے کو تیار مگر پی ٹی آئی نہ چھوڑنے کا اعلان کر رہے تھے مگر عمران اسمٰعیل، علی زیدی اور بعض دیگر چند روز جیل میں بھی نہ رہ سکے اور پارٹی سے الگ ہوگئے۔

کے پی اور پنجاب میں پارٹی اور بالاتروں کی مخالفت کے باوجود چیئرمین اور اس وقت کے وزیر اعظم نے عثمان بزدار اور محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا جنھوں نے اقتدار کے مزے لوٹے اور 9 مئی کے بعد پارٹی چھوڑ دی مگر دونوں کے منہ سے 9 مئی سے قبل کوئی مخالفانہ لفظ بھی نہیں نکلا تھا اور انھوں نے بھی وفاداری نہیں نبھائی اور دونوں چوری کھانے والے مجنوں نکلے۔


پرویز خٹک وزیر اعلیٰ کے پی ہوتے ہوئے (ن) لیگی حکومت کے خلاف دھرنے میں اسٹیج پر آ کر ڈانس کر رہے تھے اور فواد چوہدری کی طرح دعوے کر رہے تھے کہ کسی کا باپ بھی ہمارے چیئرمین کو گرفتار نہیں کر سکا۔ یہ دونوں چیئرمین کی پہلی ایک روزہ گرفتاری تک تو ثابت قدم رہے مگر نو مئی کے بعد ان کے قدم لڑکھڑا گئے اور دونوں پارٹی چھوڑ گئے تھے۔

بلند و بانگ دعوے کرنے والے فواد چوہدری اقتدار میں دوبارہ آنے کا امکان ختم ہونے کے بعد پریشان ہیں، انھوں نے نگران وزیر اعظم سے مل کر نیا سایہ تلاش کرنا شروع کردیا ہے جس میں کامیاب نہ ہوئے تو انھیں بھی جہانگیر ترین کی پناہ گاہ میں واپس آنا پڑے گا۔

ماضی میں مسلم لیگ کے کئی گروپوں، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی میں بھی گروپنگ ہوئی تھی مگر مسلم لیگ (ن) کے سوا کوئی اور گروپ کامیاب نہیں ہوا تھا اور نواز شریف کو تین بار اقتدار بھی ملا ۔ مسلم لیگ ن کے قائدین نے گرفتاریاں اور جھوٹے کیس بھگتے ،حکومتی انتظام میں بھی تینوں پارٹیوں کے رہنما اپنی پارٹیوں سے وفادار رہے۔ جنرل پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں پھوٹ ڈلوا کر (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ ضرور بنوائی گئی تھی مگر یہ حربہ کامیاب نہیں رہا۔

ہماری سیاست میں نظریات کم اور مفادات ہمیشہ مقدم رہے ہیں اور ماضی میں سیاسی وفاداریاں بھی اسی لیے تبدیل ہوتی رہیں ۔

عہدوں و اقتدار کے بھوکے الیکٹیبلز ہمیشہ موقع کے انتظار میں رہے اور جیسے ہی انھیں موقعہ ملا انھوں نے پارٹی سے وفاداری نہیں نبھائی، وقت بلدلتے ہی وہ سیاسی وفاداری تبدیل کرکے اس پارٹی سے جا ملتے جس کے اقتدار میں آنے کی انھیں قوی امید تھی۔

پی ٹی آئی میں جس طرح دوسری پارٹیوں کے لوگ آئے تھے ویسے ہی وہ واپس جانے میں لگے ہیں اور سیاسی پناہ اور اقتدار کے لیے دوسرے گھونسلے تلاش کر رہے ہیں۔

حقیقت میں ہر بڑی پارٹی میں اس کے سربراہ کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ اقتدار کے لالچ میں کوئی اس سے اختلاف کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتا کیونکہ اس کی ذاتی حیثیت کچھ ہوتی نہیں اور اسے مجبوری میں اپنے سربراہ کی ہاں میں ہاں ملانا ہی پڑتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اقتدار اور پارٹی میں اپنے مفاد کے لیے خاموش رہتا ہے اور اپنے قائد سے نہ صرف چمٹا رہتا ہے بلکہ اس کی غلط بات کی تائید بھی اپنا فرض سمجھتا ہے اور قائد کی خوشامد میں ہر اخلاقی حد بھی پار کر جاتا ہے اور کبھی اپنی پارٹی میں قائد کو صحیح مشورہ تک نہیں دیتا اور پارٹی کے بڑے اجلاسوں میں خاموش رہتا ہے اور پارٹی سربراہ کی ناراضگی مول نہیں لیتا۔ یہ مفاد پرست کسی نظریے کے لیے نہیں اقتدار اور مالی مفاد کے لیے پارٹیوں میں آتے جاتے ہیں اور مایوس ہوکر پارٹی چھوڑ جاتے ہیں۔
Load Next Story