بچے کی ضرورتیں اور خواہشات

ان کی جائز حاجات کو بلا تردد پورا کرنا چاہیے

فوٹو : فائل

ویسے تو فطرت کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق ماں وہ واحد ہستی ہے، جس سے انسان کا روحانی اور جسمانی تعلق دنیا میں آنے سے پہلے ہی قائم ہو جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ماں چاہے بچے کو کتنا ہی ڈانٹ لے یا مار لے، بچہ پلٹ کر ماں کے پاس ہی واپس آتا ہے۔

لیکن دنیا میں آنے کے بعد جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے، اس کی زندگی مزید رشتوں کے ساتھ جڑتی جاتی ہے اور آس پاس کے ماحول میں اس کو نئے نئے دوست اور دیگر رشتے ملتے جاتے ہیں۔

ایسے میں ماں کی جانب سے محبت یا توجہ نہ ملنے کی صورت میں عام مشاہدہ ہے کہ بچے دیگر رشتوں یا پھر دوستوں کے قریب ہونا شروع ہو جاتے ہیں، لیکن کبھی کبھی یہ غیرمعیاری اور غیر اخلاقی رشتے داروں اور دوستوں سے قربت بچے کے لیے ذہنی، نفسیاتی، اخلاقی پستی کے ساتھ غیر معیاری تربیت اور کبھی جسمانی نقصان کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔

اگر مائیں بچے کی اچھی تربیت کرنا چاہتی ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے بچے کا پسندیدہ انسان بنیں۔ اپنی اولاد پر اعتماد کریں اور ان کی کسی بات پر شک نہ کریں! تربیت کوئی ایسا کام نہیں ہے، جو دن کے کسی حصے میں کچھ وقت کے لیے کیا جائے، یہ ایک مستقل عمل ہے اور بچے کی پیدائش سے جوانی تک سب سے پہلے ماں، خاندان کے افراد اور پھر آس پاس کے دیگر لوگ اس تربیت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

بحیثیت ماں بچے کی تربیت میں سب سے اہم باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔

اپنی شخصیت کو عملی نمونے کے طور پر پیش کرنے سے بچے کو قائل کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے، جو کسی کے تابع ہیں، جب کہ کسی کے قول و فعل میں تضاد ان کے درمیان یہ اندیشہ پیدا کر سکتا ہے کہ وہ فلاں فلاں کام خود نہ کرے، لیکن ہم سے یہ کرنے کو کہتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً بچے تربیت کے عمل سے جڑے ہوئے ایسے افراد کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے نہ ہی عمل کی طرف مائل ہوتے۔

جہان بچے کی تربیت کا ذکر آتا ہے، وہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ہمارا اپنا کردار بھی مثالی ہو، یقیناً اس دنیا میں کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہے، لیکن پھر بھی بہ حیثیت ماں، ہم بچوں کے سامنے خود کو مثالی بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔


بہت سے بچوں کو ایسا لگتا ہے کہ میری اماں جان کے لیے میں زیادہ عزیز نہیں ہوں، اماں جان کو میری رپورٹ کارڈ سے محبت ہے، ان کو میری اسکول کی کاپیاں زیادہ عزیز ہیں یا میری اماں جان کو میرے نمبروں سے زیادہ محبت ہے۔

بچے کو احساس مظلومیت میں نہ جانے دیجیے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بچوں کے اندر جمع ہونے والی آلودگی کا بہت بڑا حصہ ان کو اپنے والدین سے ملتا ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے، تو یہ معاملہ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔

دوسری جانب بچوں کی پرورش، تعلیم اور تریبت میں نہ صرف ماں بلکہ والدین کو ایک اصول سمجھنا ضروری ہے، جس سے بچے کی تربیت پر گہرا اور مثبت اثر پڑ سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ بچے کی ضرورتیں اور بچے کی خواہشات میں فرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے! اگر دوسری طرح کہا جائے، تو والدین بچے کو خوف اور اپنے لاڈ سے بچانے کی ذمہ داری قبول کریں!

بچے کو اپنے لاڈ سے اس ہی وقت بچایا جا سکتا ہے، جب بحیثیت ماں آپ اس کی ضرورت اور خواہش میں تفریق کرنا جانتی ہوں گیں۔ بچے سے لاڈ کا پہلا مطلب ہے کہ آپ اپنے بچے کی ہر خواہش مانیں۔ جو بچے نے کہا فوراً مان لیا، جو کہا فوراً عمل کرلیا۔ جب کہ کے اصولی طور پر والدین کو چاہئیے کہ پہلے اس بات کا جائزہ لیں کہ آپ کا بچہ جو مانگ رہا ہے، یا جو فرمائش کر رہے ہیں، وہ کتنی ٹھیک ہے کتنی جائز ہے؟

آپ کا بچہ باہر جا کر کھیلنا چاہتا ہے، یہ اس کی جائز خواہش ہے، وہ آپ سے کہانیاں سننا چاہتا ہے، آپ کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا چاہتا ہے، سوالات پوچھنا چاہتا ہے، یا اپنی کام یابیاں اور صبح وشام کے معمولات بانٹنا چاہتا ہے۔ یہ اس کی بالکل جائز خواہشات ہیں، لیکن اگر وہ ٹی وی پر پروگرام دیکھنا چاہتا ہے یا کولڈرنک پینا چاہتا ہے یا کمپیوٹر پر بے وقت گیم کھیلنا چاہتا ہے، تو یہ اس کی جائز خواہش نہیں ہے، کیوں کہ اس کا کوئی مقصد نہیں، سوائے صحت خراب کرنے اور وقت ضائع کرنے کے۔

لاڈ کا دوسرا مطلب ہے کہ 'اضافی سہولت' مہیا کرنا۔ وہ کام جو آپ کا بچہ کر سکتا ہے، اس کو وہ کرنے نہ دیں، بلکہ خود کرنا شروع کر دیں۔ بچہ اپنا کھانا خود نکال سکتا ہے، خود اٹھ کر پانی پی سکتا ہے، لیکن آپ اس کو یہ بھی نہ کرنے دیں۔ اچھی تربیت اور پرورش کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بچے کے کام کریں۔ کسی انسان کی ایسی مدد جس سے وہ مدد کا محتاج ہو جائے، وہ اس کی مدد نہیں بلکہ اس پر ظلم ہے۔

اچھی تربیت اور پرورش کا مطلب بھی یہی ہے کہ بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دیں، اس کو کسی کا محتاج نہ بنائیں۔ اگر بچہ گر جاتا ہے اور اس کو چوٹ لگ جاتی ہے، تو اس کو خود سے اٹھ کر کھڑا ہونے دیں۔ تاکہ آئندہ زندگی میں بھی جب کبھی اس کو ٹھوکر لگے، یا وہ چوٹ کھائے، تو خود سے اٹھ کر کھڑا ہونے کی ہمت پا سکے، لیکن اگر تربیت اور پرورش کے دوران اس کو یہ بات سکھائی ہی نہیں گئی اور ہمیشہ ماں یا باپ اس کے گرنے پر اٹھانے پہنچ گئے، تو ساری زندگی وہ بچہ یہی کرے گا کہ گرنے کی صورت اور چوٹ لگنے کی صورت میں اس ہی انتظار میں رہے گا کہ کوئی اس کو آکر اٹھائے گا اور اس کی مدد کرے گا۔

یاد رکھیں کہ بچے سے کام کروانے سے بچے کو اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیت اور اختیار کا استعمال سمجھ میں آتا ہے۔ اس کے اندر کسی کام کو بہت اچھی طرح کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا بچے کو عزت کے ساتھ کام کرنا سکھائیں اور ان کی ضرورت اور خواہشات میں تفریق کے ساتھ ساتھ ان کو لاڈ سے بچائیں اور عزت کے ساتھ اس کی اچھی تربیت کو ترجیح دیں۔
Load Next Story